ڈاکٹر حسن شہزاد

28th Aug, 2022. 09:00 am

مہنگائی کا مقابلہ

گزشتہ برس نومبر میں امریکا سے ایک رشتہ دار اسلام آباد ہمیں ملنے آئیں۔ خاتون بینکر نے دنیا بھرمیں بڑھتی ہوئی ایندھن کی قیمتوں اور افراط زر کی ایک انتہائی پریشان کن تصویر کشی کی۔

جس وقت اُس وقت کے حکومتی اہلکارعوام کو بتا رہے تھے کہ مہنگائی ایک عالمی رجحان ہے اور پاکستان اس سے بچ نہیں سکتا۔ ان کی دلیل کا محور یہ تھا کہ ملک کے پاس ایک ہی حل چھوٹی صنعتوں کوفروغ دینے اور برآمدات کوبڑھانے میں ہے۔ لہذا، ہرایک کو پیداواری صلاحیتوں کا حامل ہونا ہوگا۔ لیکن اس دلیل کو ان کے حریفوں نے تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے عوام کو بتایا کہ خراب حکم رانی، کرپشن اور حکومت کی تبدیلی کی صورت میں اچھے دنوں کے جھوٹے وعدوں کی وجہ سے مسائل ہیں۔

اب جب کہ حکومت تبدیل ہوچکی ہے، اعداد و شمار کچھ اورہی بتاتے ہیں۔ تبدیلی کے ان چار مہینوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں تقریباً 36 فیصد کمی ہوئی ہے، مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، پیٹرول کی قیمت 233 روپے 91 پیسے اور ڈیزل کی قیمت 244 روپے 44 پیسے فی لیٹر تک پہنچ گئی ہے، اس کے ساتھ اشیائے خوردونوش خصوصاً کی قیمتوں کے چارٹ میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 22 اگست کو مانیٹری پالیسی بیان جاری کیا، جس میں پالیسی ریٹ 15 فیصد سے مزید نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔

گزشتہ سال ستمبر سے پالیسی کی شرح میں مجموعی طور پر 8 سو بنیادی پوائنٹس کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تاہم کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اگرسچ کہا جائے تو پاکستان قرضوں کے دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ خارجہ پالیسی کے مطابق ملک سری لنکا کے نقش قدم پر چل رہا ہے جو 50 فیصد مہنگائی کی شرح پر ہی ڈھیر ہوگیا۔ سری لنکا اور پاکستان کے درمیان افراط زر کی شرح میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ یہاں سالانہ افراط زر کا انڈیکس 38 فیصد سے اوپر ہے اور ساڑھے پانچ کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزرنے پر مجبورہیں، جو سری لنکا کی کل آبادی سے دوگنا تعداد ہے۔

ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب ڈالرسے بھی کم ہیں۔ حکومت کی جانب سے بہترین پیشکشوں کے باوجود تارکین وطن گزشتہ برس کے مقابلے میں پاکستانی بینکوں میں اپنے ڈالرز رکھنے کے لیے تیارنہیں ہیں۔

Advertisement

اگرہم مالیاتی پالیسی رپورٹ کے دوسرے پوائنٹ کودیکھیں توایسا لگتا ہے کہ گزشتہ ماہ کے بجلی کے بلوں کو تقریباً دوگنا کرنے کے اثرات میں کمی کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ لوگ اس بلاجواز اضافے پر اشتعال میں آ گئے ہیں، لیکن مرکزی بینک کا خیال ہے کہ توانائی کے سبسڈی پیکج میں ضروری تبدیلی کے پیش نظر اس کا امکان تھا – ضروری اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے اور گزشتہ ماہ زر مبادلہ کی شرح میں کمی کے ساتھ ساتھ جس کے اثرات باقی مالی سال کے دوران افراط زر کی شرح میں ظاہرہوتے رہیں گے۔

29 اگست کو ہونے والی آئندہ بورڈ میٹنگ میں ایک عارضی ریلیف متوقع ہے جب کہ آئی ایم ایف کے 12 ارب ڈالر کے قرض کی قسط کے اجراء امکان ہے۔ قومی اوربین الاقوامی میڈیا میں بڑے پیمانے پر یہ خبریں چل رہی ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے آئی ایم ایف کے قرضے کی اس قسط کے اجراء کو یقینی بنانے کے لیے مداخلت کی ہے۔

اگرچہ عالمی منڈیاں معمول پرآ رہی ہیں، لیکن چین، بھارت اور روس جیسے ممالک نے اپنی کرنسی کوڈالرکی قدرمیں کسی بھی اتار چڑھاؤ کے مقابلے میں کم کرنے کے لیے میکانزم تیار کیا ہے۔ اس سے افراط زرکوقابو میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ پاکستان اس طرح دھچکا برداشت کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے راستے پر نہیں ہے اور اس کے نتیجے میں اس کی درآمدات پرمنحصرصنعت بہت متعامل اورغیرمتوقع ہے۔

اب تک نظرانداز کی جانے والی موسمیاتی تبدیلی جیسا سب سے اہم عنصرمہنگائی میں اضافے کا ہے۔ پنجاب اوربلوچستان کے علاقے کوہ سلیمان کے آس پاس حالیہ سیلاب نے فصلیں اور ذریعہ معاش کو تباہ کر دیا ہے۔ جب کہ اسلام آباد میں حکومت اپنے حریفوں کو خاموش کرانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے میں مصروف ہے، پنجاب کی زرعی یا غذائی مصنوعات تقریباً ختم ہوچکی ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ آئندہ سیزن میں ملک میں گندم، گنے اور کپاس کی قلت ہونے والی ہے۔ مویشیوں کی کمی سے گوشت اور ڈیری مارکیٹ کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے، جو پہلے ہی جانوروں میں پھیلنے والی بیماریوں کی وجہ سے مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پرگائے اور بھینسیں ہلاک ہو رہی ہیں۔

یہ ایک رجحان رہا ہے کہ یہ غذائی مصنوعات پنجاب سے خیبرپختونخوا (کے پی کے) اور کے پی کے سے افغانستان اسمگل کی جاتی ہیں جہاں ان کی قیمتیں پاکستان سے زیادہ ہیں۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں اس اسمگلنگ کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ مخمصہ یہ ہے کہ حکومت ان بنیادی مسائل کو حل کرنے کے بجائے اپنے حریفوں سے معاملات طے کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ اگر ہم ان مسائل کے حل کو دیکھیں تو وہ آسان اور قابل حصول ہیں۔

Advertisement

ہمیں اپنی معیشت کو ٹیکسٹائل اور ہاؤسنگ انڈسٹری سے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹی صنعتوں کے فروغ کی تجویز حل کا حصہ ہے۔ انٹرپرینیورشپ کو فروغ دینا ہوگا۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز(نمل) میں انٹرپرینیورشپ کے پروفیسر سید ظہیرکاظمی کا کہنا ہے کہ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ نوجوان اپنے کاروبار کو شروع کرنے کے خیال سے بھاگتے ہیں جتنا وہ اپنی یونیورسٹی کی تعلیم میں ترقی کرتے ہیں۔ نوجوان اپنا کاروبار شروع کرنے کے بجائے کلرک کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں جو کہ بہت بدقسمتی کی بات ہے۔ اس لیے انہوں نے ایک رول ماڈل کے طور پر وفاقی دارالحکومت میں فوڈ سپلائی کا سلسلہ شروع کیا ہے اور صارفین کے گھروں تک سبزیاں پہنچانا اپنے وقار کے منافی نہیں سمجھتے۔

پاکستان کو غربت کے جال سے نکالنے کے لیے پروفیسر کاظمی جیسی تحریک کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہماری یونیورسٹیاں ایسے پروفیسرزاوراسکالرز کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہیں جنہوں نے کبھی بھی وہ کام نہیں کیا جو وہ کلاس رومز میں پڑھاتے ہیں۔ ہائرایجوکیشن کمیشن کو ہمارے کیمپس کوایسے غیر پیداواری عناصر سے پاک کرنا ہوگا اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو فروغ دینا ہوگا۔

ہر ایک کو پیداواری اور کاروبار کرنے میں آسانی ہونی چاہیے۔ تب ہی ہم غربت میں کمی اور مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے بطورقوم ترقی کرسکتے ہیں۔

مصنف انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں میڈیاٹائزیشن پڑھاتے ہیں

Advertisement

Next OPED