چین ،روس کے درمیان مضبوط تزویراتی شراکت داری
ماسکو، بیجنگ علاقائی امن اور کثیر جہتی تعاون کو درپیش مسائل کے حوالے سے با خبر ہیں
مُصنّف خارجہ اُمور کے مُبصر اور فُل برائٹ ایوارڈ یافتہ ہیں۔
بہت سی وجوہات کے باعث بیجنگ اور ماسکو کے درمیان سفارتی تعلقات میں کافی حد تک بہتری آئی ہے۔ روس اور چین دونوں کے اقتصادی اور تجارتی مفادات مشترکہ ہیں ۔ مزید یہ بھی واضح ہےکہ عالمی سطح پر ترقی کی دوڑ میں حقیقی کثیرالجہتی کے عمل کو برقرار رکھنے کے لیے چین اور روس پرُ عزم ہیں ۔ ایک نئے دور میں داخل ہونے کے لیے چین اور روس اپنی جامع تزویراتی شراکت داری کی بدولت دو طرفہ سرمایہ کاری کے عزم پر قائم ہیں جو دونوں ممالک کےلیےیقینی طور پر مفید ثابت ہوگی۔مغرب میں بہت سےدیگر ممالک کے برعکس، ماسکو اور بیجنگ آج علاقائی امن اور کثیر جہتی تعاون کو درپیش مسائل کے بارے میں اچھی طرح باخبر ہیں۔
ممتاز چینی قانون ساز ،لی ژانشو کے ستمبر کے دورہ روس پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہےکہ اس دورے میں انہوں نے روس، چین تعاون کی خوبیوں پر روشنی ڈالی ہے ۔دونوں ممالک کےدرمیان ایک پختہ سفارتی سوچ کار فرما ہے۔ اسی لیے ماسکو اور بیجنگ کو قانون سازی کےلیےبیرونی مداخلت، پابندیوں اور طویل دائرہ اختیار کے خلاف لڑنے کے حوالے سے مزید تجربے کے اشتراک پر غور کرنا چاہیے۔
نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن کے یک طرفہ تقاضوں کے خلاف روس کی اپیل ایک کثیر قطبی (ایسی جغرافیائی سیاسی صورتحال جو اس وقت پیدا ہوتی ہے جب متعدد طاقت کے مراکز ایک دوسرے کو متوازن کریں )ترتیب کی وجہ کو آگے بڑھاتی ہے۔اس طرح ،اس ترتیب کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے چین اور روس کی قیادتوں کے درمیان تجربے کا اشتراک ضروری ہوگیا ہے۔
بہر حال ماسکو اور بیجنگ کے درمیان مضبوط تزویراتی ( اسٹریٹجک) تعلقات نے یوریشیائی براعظم سمیت مشترکہ مقامات پر مسلسل فوجی مداخلت کے خطرات کو واضح کردیا ہے ۔اسی طرح، یہ ان کے تزویراتی تعلقات ہی تھے جو مغربی خطے میں طویل بدامنی کے خطرات سے آگاہ کرتے ہیں ، جو اقوام کی جائز سلامتی کے مفادات کو نظر انداز کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ان وجوہات کی بناء پرچین کے ساتھ ہر سطح پر روابط بڑھانے اوردیگر ممالک سے تعلقات اور روابط کو بڑھانے کے لیے ماسکو کی حالیہ حمایت کو یقین دہانی کے اقدام کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔خاص طور پر ان کے قریب ہی ، ایشیا پیسیفک کواسٹریٹجک لحاظ سے اہم خطے کے طور پر نہایت اہمیت حاصل ہے۔
جغرافیائی سیاسی مداخلت کے طور پر یہ ایک حقیقت ہے کہ نیٹو کی طرف سے مشرق کی جانب عسکریت پسندی کے دباؤ نے بیرونی سلامتی کے ماحول کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ماسکو اور بیجنگ کو اسٹریٹجک حریفوں اور نیٹو کے عالمی تسلط کے عزائم کے لیے خطرہ کے طور پر واشنگٹن کی غلط اور مسلسل تصویر کشی سے بھی آگاہ کردیا گیاہے۔
لیکن بڑھتے ہوئے فوجی اخراجات کے باعث روس اور چین کے درمیان اسٹریٹجک تعاون اور رابطوں کو مزید مضبوط کرنا چاہیے، خاص طور پر جب دونوں ممالک کی جانب سے ماضی میں فوجی بلاکس کے خلاف اصولی پوزیشنوں کی قیادت کی جاچکی ہے۔
ایشیا بحرالکاہل میں بند سیکیورٹی گروپوں کو ضرورت پڑنے پر بلایا جاسکتا ہے، اسی طرح ‘زیرو سم’ (وہ صورتحال جو ایک فریق کے لیے فائدہ اور دوسری طرف کے لیے نقصان کا باعث بنے) ذہنیت نتیجہ خیز تعلقات میں پیشرفت کو روکتی ہے۔بیجنگ کے پُرامن عروج کے بارے میں امریکہ کا اپنا سرد جنگ کا نقطہ نظر موجود ہے، جس میں اس کا اپنا نقصان بہت زیادہ ہے۔تاہم، چین اور روس میں دو طرفہ طور پر غیر پیداواری دفاعی اور فوجی بلاکس کے مقابلے میں نمایاں ترقی دیکھی گئی ہے ۔ مشرق بعید کی ترقی کے معاملے پر اگر غورکیا جائے تو یہ ایک ایسے تعاون کا محور ہے جسے چینی صدر شی جن پھینگ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن نے مشترکہ طور پر فروغ دیا ہے،جب کہ اسی مقام پر، روس کی ترقی کی حکمت عملیوں اور چین کے شمال مشرقی احیاء کے منصوبے کے درمیان مضبوط مماثلتوں اور چین،روسی انضمام کی کوششوں کی نیٹو کی غلط منظر کشی میں تضاد پایا جاتا ہے۔اس بلاک کا بیانیہ اس بات کو نظر انداز کرتا ہے کہ کثیر قطبی(کئی قطبوں کا ہونا) حقیقی طور پر ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے،اس وقت جب مشرق بعید سمیت مشترکہ علاقائی خطے میں رقی کی حکمت عملی بہتر طور پر شامل ہو جاتی ہے۔
یہ عمل ہمسایہ ممالک کے درمیان رابطے کے فوائد کو یکساں طور پر تقسیم کرنے کے امکانات کو بڑھاتے ہوئے ایک جیسی پیش رفت کو یقینی بناتا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ فائدے کے نقطہ نظر سے یہ انتظامات امریکی تسلط، ہراساں کرنے اور اس کی طاقت کی پالیسی کی قیمتوں کے بغیر کیے گئے تھے۔چین اور روس کے حالیہ بہتر روابط کوموضوع بنا کر مشترکہ جوابی کارروائی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔
چین، روس تزویراتی تعاون بیرونی حملہ آوروں اور شدید مداخلت کے خلاف اسٹریٹجک نگرانی کے معاملے کو بھی تقویت دیتا ہے۔اس میں آبنائے تائیوان کی امریکی قیادت میں مسلسل اشتعال انگیزی، اور خودمختار سرخ لائنز کی جانچ کرکے ایشیا پیسفک کے امن کو جان بوجھ کر نقصان پہنچانا شامل ہے۔
چین کے بنیادی مسائل کے لیے روس کی حمایت اعلیٰ عہدوں پر یکساں ہے، اور بیجنگ کی بیرونی مداخلت کی سخت مخالفت سفارتی باہمی تعاون کے ایک صحت مند ماڈل کو فروغ دیتی ہے۔ایشیا پیسیفک اور یوریشین براعظم کے ممالک اس رفتار سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
چینی وزارت خارجہ کی طرف سے اکتوبر میں شائع ہونے والے ایک ریڈ آؤٹ کے مطابق، چینی ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ یی نے اپنے روسی ہم منصب سے کہا ہےکہ چین، صدر پیوٹن کی قیادت میں روسی عوام کی ریلی نکالنے اور ان کی رہنمائی کرنے میں بھی مضبوطی سے روس کی حمایت کرے گا تاکہ تمام تر مشکلات اور خلفشار کے خلاف اسٹریٹجک ترقی کے اہداف حاصل کیے جا سکیں۔خوش قسمتی سے اقتصادی فائدے کے طور پر چین،روس کے اسٹریٹجک روابط کے نتیجے میں اربوں ڈالر کے درجنوں بین الحکومتی منصوبوں پر بھی اتفاق کرلیا گیا ہے ۔دونوں ممالک خطے میں فائدہ مند روابط کو فروغ دینے کا وعدہ کرتے ہیں،یہی نہیں بلکہ مشرق اور مغرب کے درمیان پل کے طور پر آسانی سے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں ۔
اسٹریٹجک استحکام کی جگہ طاقت کے دیگر مراکز جیسے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی ایسوسی ایشن اور یورپی یونین کا بیان کردہ ہدف ہونا چاہیے۔اس کے برعکس جو چیز استحکام اور دیرپا امن کے لیے ایک طاقت کے طور پر کام نہیں کر سکتی، ان میں مشرق کی جانب عسکریت پسندی پر نیٹو کا اصرار، یوریشیا میں چین اور روس کی’ اسٹریٹیجک اسپیس‘ کے طور پر بیان کردہ کوششیں شامل ہیں۔
نتیجے کے طور پر، چین کی جامع اسٹریٹجک شراکت داری کی مضبوط ترقی اور لچک حالیہ استحکام کو آگے بڑھانے کے لیے اہم سمجھی جارہی ہے۔ اسے چیلنج کرنے کی کوئی بھی کوشش یقینی طور پر اس استحکام اور باہمی شراکت داری کو پیچھے کی جانب دھکیل سکتی ہے۔






