لانگ مارچ ۔۔ حکومت کے لیے ناقابلِ برداشت
مُصنّف سیاسی و سلامتی کی حکمت عملیوں کے ماہر اور اسلام آباد میں قائم ایک آزاد تھنک ٹینک، علاقائی امن انسٹیٹیوٹ کے بانی ہیں۔ ٹوئٹر: @RaoofHasan
مخالفین کی جانب سے چند سو لوگوں کا اجتماع کہا جانے والا لانگ مارچ طویل عرصے سے التواء کی شکار تبدیلی کے لیے ایک ناقابلِ تلافی دھچکا ثابت ہو رہا ہے۔ ہر اُس شہر میں جہاں جی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ یہ مارچ گزرا ہے اور جنہیں “شریفوں کا علاقہ” کہا جاتا ہے، لاکھوں کی تعداد میں عوام اُس شخص کے خیرمقدم کے لیے اُمڈ پڑے ہیں جس کا تصوّر اِس تبدیلی کی تخلیق اور آخری منزل تک اِس مقصد کا تعاقُب کرتے رہنے کا عزم و حوصلہ تھا۔
پاکستان کی تاریخ میں اِس مارچ کی کوئی نظیر نہیں ملتی چاہے اِس کے شرکاء کی تعداد کے لحاظ سے، یا اُن کے جذبے کے لحاظ سے جو مسلسل عیاں ہے، یا پھر ملک اور اس کے عوام کی تقدیر بدلنے کے اُس عہد کی لحاظ سے جو اِس کا مقصد ہے۔ موجودہ سیاسی اشرافیہ کی دھمکیوں اور ظلم و جبر، اپنے ارکان پر حراستی تشدّد، انصاف کی فراہمی سے قاصر بدکردار عدلیہ، بدعنوان اور مجرمانہ طور پر ملوث بیوروکریسی، ایک سمجھوتہ شدہ اسٹیبلشمنٹ، اور بدمعاشوں اور مجرموں سے متاثر غیر فعال ریاستی اداروں کے باوجود یہ لانگ مارچ عروج پر ہے۔ یہ اُن مافیا اور جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف مارچ ہے جنہوں نے ملک کے قیام کے بعد سے ہی اِس پر قبضہ جما رکھا ہے اور اسے چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ مارچ بند دروازوں کے پیچھے ملکی عوام پر اثر انداز ہونے والے فیصلے لینے کی روایت کو توڑنے کے لیے ہے۔ یہ حب الوطنی کا مارچ ہے جو عشروں سے بدعنوان سیاسی اشرافیہ کی جانب سے محل نما جائیدادوں اور غیر ممالک، جہاں اپنے جرائم کے لیے جوابدہ ہونے کا خطرہ نظر آنے پر وہ فرار ہو جاتے ہیں، میں چھپائے ہوئے کالے دھن کے بدلے میں اُن کے باہمی مفادات کے تبادلے سے عوام کو پہنچنے والی تکلیف سے پھُوٹتا ہے۔ یہ ایک ایسا مارچ ہے جس کی قیادت وہ آدمی کر رہا ہے جس کی ملک کے سیاسی میدان میں موجود ہر بدمعاش، ملزم، مجرم اور مفرور مخالفت کرتا ہے۔ اور کیا تم جانتے ہو؟ خان خالی ہاتھ ہو کر بھی جیت رہا ہے!
ملک کی سڑکوں پر ایک ناقابلِ یقین رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ یہ دیکھنے لائق تماشا ہے۔ کوئی خوف میں مبتلا ہے۔ کوئی اُس واضح استقلال اور ثابت قدمی پر حیرت زدہ ہے جو ہر ایک کے لیے قابلِ دید ہے۔ یہ انسانی صلاحیتوں سے بالاتر قوّت ہے کہ کوئی شخص پوری قوم کو اس طرح کے بڑے تناسب کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی ترغیب دے جو گرفتاری، تشدد، قید اور انتقامی کارروائیوں کے خطرات سے پُر ہو۔ تاہم وہاں لاکھوں کی تعداد میں ہمیشہ سے زیادہ پُرجوش اور ہمیشہ سے زیادہ پُرعزم عوام پہنچتے ہیں۔ وہ خوف اور غلامی کے طوق سے آزاد قومی پرچم بلند کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ ہمت اور حوصلے سے ایک نیا باب رقم کر رہے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں کہ فتح ان کا مقدّر ہوگی۔ انہیں کوئی چیز نہیں روک سکتی، کوئی چیز اُن کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتی۔ کوئی چیز انہیں خوف زدہ نہیں کر سکتی۔ وہ آزادی کا امرت نوش کیے ہوئے ہیں۔ وہ انصاف کی خوشبو سے برانگیختہ ہیں۔ وہ مساوات اور برابری کے وعدے سے مرعوب ہیں۔ وہ نئے پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں۔
مگر اِس میں خطرات پوشیدہ ہیں۔ پنجے کھولے گدھ اپنے شکار پر جھپٹنے کو تیار ہیں۔ کیا وہ لانگ مارچ کے اُس موروثی وعدے کو عملی جامہ پہنانے دیں گے جو ان کی سیاسی موت کی حمایت کے مترادف ہوگا؟ اُن کے لیے ایسے ہی داؤ اور ایسے ہی نقصانات ہیں۔ پاکستانی عوام کی جیت کا مطلب قومی سیاست کے مرکزی دھارے سے جرائم پیشہ گروہوں کا خاتمہ ہوگا جس میں وہ دوبارہ داخل نہیں ہو سکتے۔ کئی دہائیوں تک ملک کو بے رحمی سے تباہ کرنے اور پوری دنیا میں اپنی ناجائز جائیدادیں بنانے کے بعد کیا وہ سونے کا انڈا دینے والی اِس مرغی کو اپنی پہنچ سے دور کرنے کے لیے استعفے دیں گے؟
ملک کے اندر اور باہر ایسی قوّتوں کی فعال حمایت سے جس طرح وہ اقتدار میں واپس آئے ہیں اس کے پیشِ نظر ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے جرائم سے بہت زیادہ داغ دار ہیں۔ وہ عدالتوں کو مطلوب ہیں۔ وہ فردِ جرم سے بچ گئے ہیں۔ انہوں نے احتساب کے شکنجے سے بچنے کے لیے نیب قوانین میں خود ساختہ ترامیم کی ہیں۔ تاہم وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ قانون کے مقابلے میں ٹِک نہیں پائے گا اور اگر بے لوث لوگوں کو اس ملک پر حکمرانی کے لیے منتخب کیا گیا تو یہ معاملہ الٹ جائے گا۔ یہ مارچ ایک ایسے امکان کو جنم دے رہا ہے جسے مجرموں کی موجودہ چال ناکام بنانے کی پوری کوشش کرے گی۔ یہ جنگ مجرموں کے گروہ، جنہوں نے غیر آئینی طریقے سے اقتدار حاصل کیا ہے، اور عوام کے تبدیلی کے پھلتے پھُولتے خواب کے درمیان ہے تاکہ جرائم اور بدعنوانی کا خاتمہ ہو سکے اور وہ لوگ ریاست کے انتظام کی ذمے داری سنبھالیں جو اِس کے مستحق ہیں۔
موجودہ حالات میں مجرم حکمرانوں کی جانب سے ملک میں قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کے لیے مارچ کو پرامن راستہ دینے کا امکان نہیں ہے۔ وہ اِس امکان کو ناکام کرنے کے لیے ہر ٹیڑھی چال آزمائیں گے۔ یہ اُسی صورت میں ممکن ہوگا جب اُن کی سرپرستی کرنے والی طاقتیں ایسا کرتی رہیں۔ یہ اِس وقت ملک کو درکار مقصد کے خلاف ہوگا، جس کے تحفّظ کے لیے لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ کیا اُنہیں اس حق سے محروم رکھا جائے گا؟ کیا کچھ لوگوں کی انا پوری قوم کا مقدّر ہوگی؟ کیا ایک مجرم کی طاقت کی ہوس لاکھوں عوام کے خوابوں کو خاک میں ملا دے گی؟ کیا اقتدار پر قابض طاقتیں بیٹھ کر ملک کو تباہ ہوتے دیکھیں گی؟
یہ لانگ مارچ آسانی سے ختم ہونے والا نہیں ہے۔ یہ ایک زندہ حقیقت ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ انتخابات کے انعقاد کا مقصد حاصل نہیں ہو جاتا۔ مستقبل کی طرف جانے والے دو راستے ہیں ۔۔ ایک پرامن راستہ ہے جو آئینی طریقے استعمال کرکے ایک جائز حکومت حاصل کرے گا، اور دوسرا پُرتشدد راستہ ہے جو تباہی مچا سکتا ہے، لیکن بالآخر قبل از وقت انتخابات کے اصل مقصد کو آسان بنائے گا۔ تو کس راستے کو ترجیح دی جائے گی ۔۔ امن کا راستہ یا تشدد کا راستہ؟ یہ وہ نازک سوال ہے جو اس وقت ملک کے سامنے ہے۔ اس کا نہ صرف جواب دینا ہوگا بلکہ اس پر عمل درآمد کے لیے سہولت بھی فراہم کرنا ہوگی۔ یہ امن کا راستہ ہے جو واضح انتخاب ہونا چاہیے۔ جن کے پاس کسی نہ کسی صورت معاملات کو چلانے کی طاقت ہے، اُن کے کاندھوں پر ملک کو مشکلات سے نکالنے کی بہت بڑی ذمے داری ہے۔
سیاسی میدان میں عمران خان کا سامنا کرنے میں ناکامی کے بعد، مجرم ٹولے، اِس کے سرپرستوں اور ساتھیوں نے اس حتمی شیطانی اور قبیح عمل کا سہارا لیا ہے۔ عمران خان کو رستے سے ہٹانے کی ایک مُنظّم کوشش کی۔ تاہم شکر ہے کہ وہ محفوظ رہے اور صحت یاب ہو رہے ہیں۔ قابلِ اعتماد پیشگی خفیہ معلومات کی بنیاد پر وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ ممکنہ مجرموں میں شامل ہیں۔ جماعت نے انہیں عہدوں سے فوری طور پر ہٹانے اور قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کرنے اور اسے انجام دینے پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان تبدیلی کے لیے پُرتشدّد راہ اختیار کر رہا ہے۔






