عرب کا شیر
دنیا دوحہ کو سفارت کاری کے ایک نئے مرکز کے طور پر دیکھ رہی ہے اور تمیم حقیقی معنوں میں اسپورٹس ڈپلومیسی کر رہے ہیں
مصنف IPRI میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
شاہی ایوان خوشی سے گونج رہا تھا ، کیونکہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان فیفا ورلڈ کپ 2022 ء کے ، سعودی عرب اور ارجنٹائن کے درمیان کھیلے والے والے شاندار میچ کے آخری لمحات کے دوران انتہایہ پر ُ جوش نظر آرہے
تھے ۔تاریخی فتح کے بعد شہزادے نے چیمبر میں موجود اپنے قریبی ساتھیوں کو گلے لگایا کیونکہ ان کی ٹیم نے میچ کے دوسرے ہاف میں میچ کو حریف کے جبڑوں سے نکال کر پنے نام کرلیا تھا۔
قطر کا سب سے بڑا لوسیل اسٹیڈیم اس وقت نماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور اپنی اپنی ٹیموں کےلیے عوام انتہائی جذباتی دکھائی دے رہے تھے ۔ اس اسٹیڈیم میں سعودی عرب کی فتح کو بڑی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ تاہم اس جیت کے بعد قطر کو عالمی سفارتی سطح پر سامنے آنے کا موقع ملا ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا اپنے چیمبر میں بے ساختہ کھڑے ہوکر جشن منانے کا انداز قطری امیر تمیم بن حمد الثانی کے لیے سفارتی معجزے سے کم نہیں ۔
اس سے پہلے کہ ہم کھیل کے اس عالمی سفارتی پہلو پر بات کریں، ہم پاکستان کے اندرونی معاملات سے اس کی مطابقت کو بخوبی محسوس کرسکتے ہیں ۔ محمد بن سلمان کو دراصل 21 نومبر2022 ء کو اسلام آباد پہنچنا تھا اور اُس وقت وہ اپنے چیمبر میں میگا اسکرین پر اہم ترین میچ دیکھنے میں مصروف تھے ۔
اسپن گلاس تھیوری(اس تھیوی میں بنیادی طور پر انسانوں اور بعض اوقات مریضوں کو ان کی لچک اور قابلیت کا کافی کریڈٹ نہیں دیا جاتا) ے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہےکہ شہزادے نے اسلام آباد کا دورہ کرنے پر میچ دیکھنے کو ترجیح دی۔اس کے باوجو د پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف شہزادے اور ان کے ملک کے عوام کو نادر فتح پر مبارکباد دینے سے باز نہیں آئے ۔
اب مقامی منظر نامہ بالکل واضح ہے۔ اب ہم عالمی پہلو کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ قطری امیر تمیم العرب کے نام سے جانے جاتے ہیں۔مجھے یاد ہےکہ میں نے آخری بار قطر کا دورہ 2019 ء میں اس وقت کیا تھا جب قطر فاؤنڈیشن نے وہاں عالمی جدید کانفرنس برائے تعلیم کا اہتمام کیا تھا۔اس کانفرنس میں شرکت کے دوران میں نے دیکھا کہ بہت سی نئی چیزوں کے اضافے کے ساتھ وہاں امیر تمیم کی تصویر کو شاہانہ گاڑیوں پر چسپاں کیا گیا ہے، جس پر تمیم العرب کا ٹیگ لگا ہوا تھا۔مہنگی ترین گاڑیاں تقریباً ہر جگہ موجود تھیں۔ مجھے اور میرے ساتھی صحافی احسن رضا کو ایک بھارتی ڈرائیور ہوٹل تک لے کر گیا ، دوران سفر اس نے ہمیں بتایا کہ ان گاڑیوں پر ٹیگ کی صورت میں ’عرب کا شیر ‘لکھا ہوا ہے۔
یہ وہ وقت تھا جب قطر سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد کی طرف سے اس کے گرد ناکہ بندی میں مصروف تھا۔ متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، سعودی عرب، بحرین اور مصر نے 2017 ء میں قطر پر فضائی، سمندری اور زمینی راستوں سے ناکہ بندی کر دی تھی اور جغرافیائی طور پر اس چھوٹی ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرلیے تھے ۔
اس کے بعد محمد بن سلمان نے بھی اپنے پڑوسی پر مسلح حملہ کرنے کی دھمکی دے دی او ر قطر کے ساتھ تمام تجارتی تعلقات منقطع ہوگئے ۔یہاں تک کہ ان ممالک میں مقیم قطریوں کو بھی اپنے خاندانوں کے ساتھ رہنے یا ملنے کی اجازت نہیں تھی۔قطری طلباء کو اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر وطن واپس جانا پڑا۔ یہ اقدام قطر کو تنہا کرنے اور اسے کمزور کرنے کےلیے اٹھایا گیا تھا۔
اس کے باوجود ، امیر تمیم،، اپنی سفارتی ٹیم پر بھروسہ کرتے ہوئے ثابت قدم رہے، وہ اس چیز سے گزرجانے کے لیے بے چین تھے جسے انہوں نے “فضول بحران” کہا تھا۔ امیر تمیم مغربی تعلیم یافتہ ہیں اور وہ اپنی حکمرانی کے آغاز میں سمجھ چکے تھے کہ غیر جانبداری قطر کی سفارتی طاقت ہے، جس کا خلیجی خطے میں کسی بھی دوسرے ملک سے مقابلہ نہیں ہے۔
سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا جیسے چھوٹے ممالک عالمی فیصلہ سازی کے عمل کا مرکز بن گئے ہیں کیونکہ وہ غیر جانبداری برقرار رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ اور چین جیسی عالمی طاقتیں بھی اپنے مسائل کے سفارتی حل کے لیے ان چھوٹے ممالک پر انحصار کرتی ہیں۔
قطر، اپنے پڑوسیوں کے مقابلے میں رقبے کے لحاظ سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے، شام، افغانستان اور ایران جیسے عالمی شورش زدہ ممالک میں غیر جانبداری کی طاقت کا استعمال کیا اور اس میں کامیاب رہا۔ اگر ہم ہنری کسنجر کی چین کے ساتھ گرم جوشی تک واشنگٹن میں چین کے سفارتی نمائندے کے طور پر تائیوان کی مثال کو خارج کردیں تو ہمیں دوحہ میں افغان دھڑوں کے نمائندوں کے ساتھ عالمی مذاکرات کی میزبانی کی مثال شاذ و نادر ہی ملے گی۔ آج بھی کرزئی کی قیادت میں افغان نمائندوں کو عالمی دارالحکومتوں میں حقیقی افغان سفارت کار تسلیم کیا جاتا ہے، جب کہ طالبان اپنے مشیروں کے امور اسلام آباد اور پشاور سے ہی انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی طرح قطر پہلا ملک ہے جس نے حزب اختلاف کے اکثریتی رہنماؤں کو شام کا نمائندہ تسلیم کیا۔ قطر وہ واحد عرب ملک بھی تھا جس نے ’’ عرب انقلاب ‘‘کے دوران تیونس، لیبیا، مصر، عراق اور بحرین وغیرہ جیسے ممالک میں عوام کے حامی دلائل کی حمایت کی۔ سعودی ان تمام جگہوں پر بادشاہوں کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ اس لیے وہ قطر کو اپنے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
اسی طرح، دوحہ کا بیرون ملک سے آنے والے کسی بھی فرد پر پہلا تاثر یہ پڑتا ہے کہ یہ دبئی کا متبادل ہو سکتا ہے۔ شہر کی مسلسل بڑھتی ہوئی سڑکوں پر عالمی تجارتی رہنماؤں اور جدید عمارتوں کا ارتکاز اس بات کی واضح علامت ہے کہ یہ خطے میں ایک اور دبئی بن سکتا ہے۔
اسی لیے خلیج کے دو بڑے- سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات- قطر سے یکساں طور پر ناراض تھے۔ دوحہ کی ایران کے ساتھ معاملات میں سرخ فیتہ نہ کرنے کی پالیسی تھی، خاص طور پر یمن میں حوثی بغاوت کے بعد یہ 2017 میں قطر کی بندش کے دوران سامنے آیا۔
2018 میں ناکہ بندی کے ایک سال بعد فوجیمیری ٹائم میلے کا انعقاد کرتے ہوئے امیر تمیم نے مہارت سے اس سے نمٹا۔ تمام بڑی طاقتیں، یورپی یا امریکی، اسکو نظر انداز کرتے ہوئے میلے کی طرف راغب ہوئے۔ کوئی بھی دنیا کے سب سے بڑے مائع قدرتی گیس پیدا کرنے والے، ہتھیاروں کے خریدار، اور رئیل اسٹیٹ کی منزل کو نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
جب میں نے 2019$ میں دوحہ کا دورہ کیا تو ملک 24 ویں عربین گلف کپ ٹورنامنٹ کے عنوان سے ایک میگا اسپورٹس ڈپلومیسی ایونٹ کی تیاری کر رہا تھا جس میں سعودیہ عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک کی فٹ بال ٹیموں کو باضابطہ طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ یہ فیفا ورلڈ کپ 2022ء کے دنیا کے سب سے بڑے کھیلوں کے سفارتی ایونٹ کی دوڑ میں ایک بڑی چھلانگ تھی۔
قطر کے اقدام کی سفارتی اہمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے، فیفا کے صدر Gianni Infantino نے گزشتہ سال اسپورٹس ڈپلومیسی کانفرنس کے اختتامی سیشن کو بتایا، ’’اسپورٹس ڈپلومیسی ایک نسبتاً نئی اصطلاح ہے…، جو ایک پرانے طرز عمل کو بیان کرتی ہے: پالیسی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کھیل کا استعمال۔ مثبت سماجی تبدیلی لانے میں مدد کرنا، ہماری شراکت داری کے ٹیم ورک کے ذریعے، معاشرے کو فائدہ پہنچانے کے لیے فٹ بال کی طاقت کو بروئے کار لانا کھیلوں کی سفارت کاری ہے۔‘‘
اگر ہم یہ کہیں کہ 2022ء کھیلوں کی سفارت کاری میں کامیابی کا سال ہے، تو یہ بےجا نہیں ہو گا۔ فروری میں سال کے آغاز میں، چین نے سرمائی اولمپکس کی میزبانی کی، جس کا باضابطہ طور پر امریکہ اور اتحادیوں نے بائیکاٹ کیا۔ لیکن بائیکاٹ بیجنگ میں عالمی رہنماؤں کی پرسکون بھیڑ کی کی میزبانی کو نہیں روک سکا۔ اب یہ سال قطر میں کھیلوں کی سفارت کاری کی ایک اور بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔
محمد بن سلمان قطر کو اپنے شاہی چیمبر سے کھڑے ہوکر داد دینے میں اکیلے نہیں ہیں۔ دنیا دوحہ کو سفارت کاری کے ایک نئے مرکز کے طور پر دیکھ رہی ہے اور تمیم حقیقی معنوں میں ’’عرب کے شیر‘‘ بن کر ابھرے ہیں۔