کشمیر کے ہیرو ۔۔۔ اندرونِ ملک بدنام، بیرونِ ملک محترم
کشمیریوں کے حقوق کے محافظ اندرون ملک پابندیوں کا سامنا کرنے کے باوجود عالمی سرخیوں پہ چھائے ہوئے ہیں
مصنف اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک کشمیر انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی تعلقات کے چیئرمین ہیں۔
یہ ستم ظریفی ہے کہ کشمیری خطے کے حالات کو اُجاگر کرنے کے لیے جو محنت کرتے ہیں اس کے لیے وہ دنیا کے بعض معتبر اداروں سے تعریفیں سمیٹنے میں کامیاب رہے ہیں، حالآنکہ بھارتی حکومت اِنہیں بُرا دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔
بھارتی حکومت کے سراسر صدمے اور مایوسی کے لیے جو کشمیر کے کسی بھی تذکرے سے تیزی سے بیزار ہوتی جا رہی ہے، کشمیری عوام تمام درست وجوہات کی بناء پر، ملکی پابندیوں کا سامنا کرنے کے باوجود عالمی سرخیوں پہ چھائے ہوئے ہیں۔
کشمیریوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہیں صحافت، ادب اور انسانی حقوق میں اپنے کام کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے۔ تاہم غیر معمولی کشمیریوں کی اس فہرست میں تازہ ترین اضافہ کوئی اور نہیں بلکہ خرم پرویز ہے جس نے بے آواز کشمیریوں کی آواز بننے کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دی۔
خرم پرویز جو پہلے ہی انسانی حقوق کے کئی ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے، اس سال کے مارٹن اینالز انعام یافتہ افراد کی فہرست میں ایک بار پھر شامل ہو چکا ہے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی ہائی پروفائل مہم چلانے والوں میں شمار کیے جانے والے خرم پرویز اور ان کی تنظیم، جموں اور کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی (جے کے سی سی ایس) نے بے گناہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی افواج کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں کو دستاویزی شکل دینے پر بڑے پیمانے پر کام کیا ہے۔
جے کے سی سی ایس نہ صرف رپورٹوں، پروگراموں، دستاویزات اور قانونی چارہ جوئی کے ذریعے حقوق کی خلاف ورزیوں کے مقدمات کو دستاویزی شکل دیتا ہے بلکہ کشمیریوں کے ناقابلِ تنسیخ حق خودارادیت کی بھی حمایت کرتا ہے جس کی ضمانت انہیں بین الاقوامی برادری دیتی ہے۔ غیر رضاکارانہ گمشدگیوں کے خلاف ایشین فیڈریشن (اے ایف اے ڈی)، جمہوری حقوق کی تنظیموں کی کوآرڈینیشن (سی ڈی آر او) اور مسلح تنازعات کے حل اور عوامی حقوق کے منصوبے سے وابستہ جے کے سی سی ایس نے 2009ء میں اس وقت اہمیت حاصل کی جب اِس نے “دفن شدہ شواہد” نامی رپورٹ میں اجتماعی قبروں کی موجودگی کا انکشاف کیا۔ سنسنی خیز رپورٹ نے شمالی کشمیر کے کپواڑہ، بارہمولہ اور بانڈی پورہ اضلاع کے 55 دیہات میں پھیلی ہزاروں بے نشان اجتماعی قبروں کے مقام کی نشاندہی کی، جس نے یورپی یونین کو معاملے کی تحقیقات کے مطالبے پر اکسایا۔
2004ء میں کشمیر میں لوک سبھا انتخابات کی نگرانی کے دوران بارودی سرنگ پھٹنے کے باعث خرم پرویز کی بائیں ٹانگ کاٹ دی گئی۔ 2016ء میں اُن پر جنیوا، سوئٹزرلینڈ میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے سفر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی اور پھر انہیں گرفتار کرکے 76 دنوں کے لیے حراست میں لے لیا گیا۔ خرم پرویز کو نومبر 2021ء میں گرفتار کیا گیا تھا اور اِس وقت نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید خرم پرویز مارٹن اینالز 2023ء انسانی حقوق ایوارڈ جو مشترکا طور پر ایمنسٹی اور ہیومن رائٹس واچ سمیت 10 انسانی حقوق کی تنظیموں کے زیر انتظام ہے، کے تین وصول کنندگان میں شامل ہیں۔
یہ ایوارڈ انسانی حقوق کے ایک مشہور برطانوی کارکن کے نام پر دیا جاتا ہے جو انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے نمایاں کارکنوں کی خدمات کو تسلیم کرتا ہے۔ ایوارڈ کی جیوری کے چیئرمین، ہانس تھولین نے 2023ء کے انعام یافتہ کارکنان کو ان کے ناقابلِ یقین کام کے لیے سراہتے ہوئے کہا، “2023ء کے انعام یافتہ کارکنان کی مشترکا امتیازی خصوصیت اُن کی ہمت، جذبہ اور عزم ہے کہ وہ بے آواز عوام کی آواز کو بین الاقوامی میدان تک پہنچانے کے لیے مشکلات، بعض اوقات جان لیوا مشکلات کو بھی برداشت کرتے ہیں”۔
’’خرم پرویز کی انسانی حقوق کے کارکن کے طور پر مقصدِ حیات کی منظر کشی اُس وقت ہوئی جب ایک نوجوان لڑکے نے ایک احتجاج میں فائرنگ سے اپنے دادا کی المناک موت دیکھی۔ وہ بدلہ لے سکتے تھے لیکن اِس کی بجائے اُنہوں نے دنیا کے سب سے زیادہ عسکری خطے جموں و کشمیر کے 70 سالہ تنازع میں بناء تشدد شامل ہونے کا انتخاب کیا۔
اے ایف اے ڈی کے چیئرمین اور جے کے سی سی ایس کے پروگرام کوآرڈینیٹر خرم پرویز، 2006ء کے ریبوک ہیومن رائٹس ایوارڈ، 2016ء کے ایشیا ڈیموکریسی اور ہیومن رائٹس ایوارڈ کے وصول کنندہ ہیں۔ انسانی حقوق کے باوقار ایوارڈز سے نوازے جانے کے علاوہ ٹائم میگزین نے خرم پرویز کو اُن کی انسانوں کے لیے خدمات کو سراہا اور ان کا نام 100 بااثر افراد کی سالانہ فہرست میں شامل کیا گیا۔
2022ء میں ایک قابل اور شریف آدمی خرم پرویز نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں انتھک تحقیق کی اور رپورٹ کی جس میں کارکنوں کی غیر معینہ مدت تک حراست اور ماورائے عدالت پھانسی، تشدد، جنسی تشدد، جبری گمشدگیاں اور بڑے پیمانے پر سزا سے استثنیٰ شامل ہیں۔ ممتاز بھارتی صحافی رعنا ایوب نے خرم پرویز کو “جدید دور کے داؤد، جو اُن خاندانوں کی آواز بنے جنہوں نے اپنے بچوں کو جبری گمشدگیوں کے سبب کھو دیا” سے تشبیہ دی۔
انہیں مارٹن اینالز ایوارڈ سے نوازا جانا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ عالمی برادری نہ صرف غیر قانونی طور پر نظر بند کشمیری حقوق کے محافظوں کی جدوجہد کو تسلیم کرتی ہے بلکہ کشمیر میں دکھی انسانیت کو بچانے کی مہم میں بھی اپنا اثر و رسوخ ڈالتی ہے۔
کشمیر میں کئی دیگر مرد و خواتین ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں انصاف اور انسانی حقوق کے مقاصد کے لیے وقف کر رکھی ہیں۔ بھارتی حکام نے اُن کی بھی تذلیل کی لیکن بیرون ملک اُن کا احترام کیا جاتا ہے۔ خواتین کے حقوق کی کارکن، ایسوسی ایشن آف دی پیرنٹس آف دی ڈس اپیئرڈ پرسنز (اے پی ڈی پی) کی شریک بانی، پروینہ آہنگار ان لوگوں میں سے ہیں جو کشمیر میں کسی تحریک کی قیادت کرتے رہے ہیں۔ کشمیر کی ’آہنی خاتون‘ کے نام سے جانی جاتی پروینہ آہنگار کو انسانی حقوق کے دفاع اور متاثرہ خاندانوں کے لیے سماجی خدمات پر 2017ء میں انسانی حقوق کے رافٹو انعام سے نوازا گیا۔
انسانی حقوق کے وکیل اور محافظ پرویز امروز، جے کے سی سی ایس کے صدر اور کشمیری انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن ہیں جنہوں نے 2006ء میں فرانس میں Ludovic Trarieux انسانی حقوق کا انعام جیتا تھا۔ 2017ء میں اِنہیں پروینہ آہنگار کے ساتھ تھورولف رافٹو میموریل پرائز برائے انسانی حقوق سے نوازا گیا۔
اسی طرح صحافت کے میدان میں کشمیری صحافیوں نے بے شمار مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود 2019ء میں بھارتی حکومت کی جانب سے خطے کی خصوصی حیثیت کو ختم کیے جانے سے پہلے اور بعد میں تنازعء کشمیر کی کوریج پر اعلیٰ میڈیا ایوارڈز جیتے ہیں۔ صحافی ثناء ارشاد مٹو، برہان بھٹ اور مسرت زہرہ اُن لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے حال ہی میں اپنے مثالی کام سے عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کی۔ روئٹرز کے لیے کام کرنے والی ثناء ارشاد مٹو نے فیچر فوٹوگرافی کے لیے پلٹزر انعام جیتا، برہان بھٹ نے نیوز ایوارڈ کیٹیگری میں روری پیک ایوارڈ 2022ء جیتا اور مسرت زہرہ نے 2020ء میں انٹرنیشنل ویمنز میڈیا فاؤنڈیشن کی جانب سے فوٹو جرنلزم میں انجا نیڈرنگ ہاس کریج ایوارڈ جیتا۔
آصف سلطان جو 2018ء سے قید ہیں، کو جان اوبچون پریس فریڈم ایوارڈ 2019ء سے نوازا گیا۔ اسی طرح تین فوٹو جرنلسٹ جن میں یاسین ڈار، مختار خان اور چنی آنند شامل ہیں، کو بی جے پی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 ختم کیے جانے کے بعد 2020ء میں کشمیریوں کی زندگی کی منظرکشی کرنے پر انتہائی مشہور پلٹزر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ جن تصاویر کے لیے تینوں صحافیوں کو پلٹزر ایوارڈ سے نوازا گیا ان کو پلٹزر ایوارڈ کی جیوری نے ’’زندگی کی حیرت انگیز تصاویر‘‘ قرار دیا۔
کسی کے کام کے لیے اعزازی انعامات اور ایوارڈ حاصل کرنا بے شک ایک بڑے اعزاز کی بات ہے لیکن ان اعزازات کی حقیقی قدر صرف وصول کنندگان کی ذاتی تعریف نہیں بلکہ ان کی سیاسی اور انسانی حقوق کی جدوجہد کو بین الاقوامی سطح پر نمایاں کرنے میں ان کی محنت کا اعتراف ہے۔ ہم وطن واپس کشمیر میں لیکن یہ بات انتہائی افسردہ کن ہے کہ بااثر بین الاقوامی حکومتیں اور طاقت کے مراکز محض اپنے تزویراتی مفادات کے حصول کے لیے انسانی حقوق کا داؤ کھیلتے ہیں۔ یہ شاید اہم وجوہات میں سے ایک ہو کہ بھارتی ریاست نے اپنے 75 سالہ طویل غیر قانونی قبضے کے دوران کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ جو کچھ کیا، اُس کے لیے اِس کا احتساب نہیں کیا گیا۔
تاہم، اِس عجیب و غریب صورتحال کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ کشمیری، چاہے وہ صحافی ہوں، سول سوسائٹی کے کارکن ہوں یا حقوق کے محافظ، اپنی محنت، انصاف اور انسانی حقوق کے مقاصد کی لگن سے بین الاقوامی اُفق پر اُبھرتے اور چمکتے رہتے ہیں۔






