ڈاکٹر حسن شہزاد

06th Nov, 2022. 09:00 am

زوال پذیر یورپ

حقیقت ان  تمام تصورات کے برعکس ہے جو ہمیں نسل در نسل ورثے میں ملے ہیں

مصنف IPRI میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔

امریکا  اور یورپ کو ایک اکائی کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نیٹو میں اپنے بل ادا نہ کرنے پر یورپی ریاستوں کو کھلے عام تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔متعدد پریس کانفرنسوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر، انہوں نے کہا  ہے کہ چونکہ امریکا اپنے منصفانہ حصہ سے زیادہ ادائیگی کرتا ہے، اس لیے وہ اتحاد میں شاٹس کال ( فیصلہ کرنے میں پہل کرنا کہ کچھ کیسے کیا جائے )کرنے کے حق کا مستحق ہے۔

 وہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے پر کافی   خوش  تھے ۔یوکرین  پر روسی حملے کے تناظر میں مغربی اتحاد کو اکٹھا کرنے کی کوشش  بھی کی جاچکی ہے۔ روس کی مخالفت اس لیے  کی گئی  تاکہ یورپ اور امریکا میں بین البراعظمی تنازعات  کا آسانی سے حل نکالاجاسکے۔ لیکن یہ کوشش  بھی  موثر ثابت نہ ہوسکی۔یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے یورپ اور واشنگٹن سے  متواتر  اپیلیں جاری  رکھی ہوئی  ہیں کہ وہ حقیقی معنوں   میں ایسا  کام کریں جس سے ان کے علاقوں کو روس  میں   دوبارہ شامل  کرنے میں   مدد مل سکے۔اس کے باوجود امریکا اور یورپ مشترکہ محاذ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

Advertisement

دوسری طرف یوکرائنی ضروریات کو پورا کرنے  کے لیے زیادہ جوابدہ ہونے کی کوشش میں، فن لینڈ اور سویڈن بھی نیٹو کے رکن بننے کے لیے کوششوں میں  مصروف ہیں ۔

تاہم، ترکی انہیں نیٹو میں اس وقت تک قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جب تک کہ وہ ایک معاہدے پر عمل کریں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملک کرد علیحدگی پسندوں کی حمایت  کے لیے  راضی نہیں اور  نہ ہی وہ ترکی کے لوگوں کو ترکی کے حوالے  کریں گے جنہیں بعد میں اس کی حکومت  سے  خطرہ محسوس  ہورہا ہے۔دونوں نورڈک ( ڈنمارک، ناروے، سویڈن، فن لینڈ اور آئس لینڈ کے ساتھ ساتھ جزائر فیرو، گرین لینڈ اور آلینڈ پر مشتمل) ممالک اس وقت تک نیٹو میں شامل نہیں ہوسکتے جب تک کہ ترکی سمیت اس کے تمام 30 ارکان ان کے داخلے کی منظوری نہیں دیتے۔

اس کے ساتھ ہی جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نے یوکرین کی جنگ پر چین کے روس نواز موقف سے قطع نظر چین کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

چانسلر شولز چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کرنے جا رہے ہیں جنہوں نے حال ہی میں تیسری پانچ سالہ مدت صدارت حاصل کی ہے۔

صدر بننے کے بعد سے، شی  جن پنگ نے اچانک چینی تجارت کو غیر دریافت شدہ منڈیوں تک بڑھایا دیا  ہے۔ایک دہائی کے دوران، چین نے کسی کے ساتھ مسلح تصادم نہیں کیا ہے کیونکہ اس نے پائیداری کے حصول میں صفر کر دیا ہے۔

اس پائیداری کو امریکہ جیسی طاقتوں کی طرف سے ایک بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے، جنہوں نے چین کے خلاف اتحاد بنا رکھا ہے۔

Advertisement

حال ہی میں، امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا نے بحر ہند، خاص طور پر بحیرہ جنوبی چین کے علاقے پر نظر رکھنے کے لیے ایک بڑا اتحاد بنایا ہے۔ اس نے بنیادی اتحاد میں کسی یورپی ملک کو شامل نہیں کیا۔فرانس نے آسٹریلیا کو اسٹریٹجک آبدوزیں فراہم کرنی تھیں لیکن واشنگٹن نے غیر رسمی طور پر واحد یورپی ملک کو اس معاہدے سے باہر کر دیا۔فرانسیسی وزراء نے فرانس کے ساتھ ایک قسم کا معاہدہ کرنے کے بعد امریکی آبدوزیں اور دیگر سامان لینے پر آسٹریلیا سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔یورپی یونین کے ارکان نے اس معاملے پر فرانس کی حمایت کی۔ ان سب کے باوجود امریکی آبدوزوں کو بین الاقوامی پانیوں کی نگرانی کے لیے چین کے قریب سمندر میں چھوڑ دیا گیا ہے۔

جرمنی کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جن کی انڈو پیسفک اوشین پالیسیاں ہیں۔اس  پالیسی کے تحت جرمنی کو جاپان اور بھارت کے ساتھ مل کر اس سمندر کے شورش زدہ پانیوں کی نگرانی کرنے کی ضرورت ہے۔پالیسی  کے مسودے میں بھارت کا بار بار ذکر کیا گیا ہے۔ اس وقت بھی ہندوستانی تھنک ٹینکس جرمنی کی بحریہ کے چھوٹے سائز کا مذاق اڑاتے ہیں۔جرمنی  کے لیے ان کی زیادہ تر ناپسندیدگی اس حقیقت پر مبنی ہے کہ جرمن کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ سمجھتے ہیں اور اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اس کے حل کا مطالبہ کھلے عام  کرتے ہیں ۔

اس کے علاوہ سابق جرمن سفیر جان ہیکر بیجنگ میں مردہ پائے گئے۔ ہیکر سابق جرمن چانسلر انجیلا مارکل کے بہت قریب تھے۔لیکن ان میں سے کسی بھی منفی سوچ  نے شولز کو عالمی وبا کورونا  کے  پھیلاؤ کے بعد سے چین کا دورہ کرنے والے پہلے یورپی رہنما بننے سے نہیں روکا۔

چین کی طرح جرمنی بھی اپنی تجارت کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اولاف شولز کا کہنا ہےکہ ے کہا کہ وہ امریکی حکومت کے عہدیداروں کے تائیوان کے غیر واضح دورے کے فوراً بعد تمام امور پر شی کے ساتھ  کھل کر بات کریں گے۔چین نے

 کئی بار امریکی سینیٹرز کو تائیوان کا دورہ کرنے کے خلاف خبردار کیا تھا اور دورے کے وقت خطے میں اپنی مسلح افواج کی موجودگی میں اضافہ کیا تھا۔

تنقید کے طوفان کے عالم میں، اولاف شولز کا کہنا ہے کہ چین  تبدیلی کی  جانب گامزن  ہے،  اور یورپ کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ان کا کنا ہےکہ  یہ 10 سال پہلے کا چین نہیں ہے۔جرمنی  نے یورپی اتحادیوں کی تنقید کے پیش نظر چین کے ساتھ بڑے کاروباری معاہدے بھی کیے ہیں جو ان سودوں کو قلیل مدتی اہداف کے طور پر دیکھتے ہیں جو یورپی پائیداری کے طویل مدتی مقصد کو خطرے میں ڈال دیں گے۔

Advertisement

بعض یورپی رہنما اس بات پر قائل ہیں کہ یوکرین کو چین کے ساتھ اٹھانے کا واحد نکاتی ایجنڈا ہونا چاہیے۔ صدر شی جن پنگ نے بھی اپنی جانب سے  جرمنی کے ساتھ کاروبار بڑھانے اور تعلقات کو مستحکم کرنے کی راہ میں کسی چیز کو آڑے نہیں آنے دیا۔

ہرملک  اپنا راستے  پر  تنہا  گامزن ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ  دنیا کے ساتھ قدم ملانے کی بھی کوشش کرتا ہے۔پاکستان میں سیاست دان اس حقیقت کو سمجھتے ہیں جیسا کہ وہ خود کو متعلقہ رہنے کے لیے مشق کرتے ہیں،لیکن پھر انہیں فرضی  مخالفین پیدا کرتے ہوئے اپنے مخالفین کے لیے کسی نہ کسی  سزا کو  تجویز  کرنا پڑتا ہے۔عوام اپنے تمام مسائل کا یک نکاتی حل تلاش کرنے کے جوش میں ان کے سادہ دلائل کو سننے  پر مجبور ہوتے ہیں۔یہ بات  رہنماؤں  اور عوام دونوں کے لیے موزوں ہے کہ مغرب میں کوئی اور ان کی برائیوں کا ذمہ دار ہے۔اگر حالات  یوں ہی چلتے رہے تو ہماری آنے والی نسلیں بھی تخیلاتی دشمنوں سے لڑتی رہیں گی۔

Advertisement

Next OPED