ہمارا بنیادی تضاد
نفرت انگیز تقریریں ،سوشل میڈیا پر جھگڑے اور بد گوئیاں تشدد کی حدوں کو عبور کر گئیں
مُصنف سلامتی اور خارجہ پالیسیوں میں دلچسپی رکھنے والے صحافی ہیں
اُس سیاسی گڑبڑ کی تفصیل میں جانا خاصا غیر ضروری ہے جو ملک میں جاری ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے کنٹینر پر حملہ جس میں پی ٹی آئی کے متعدد کارکنان اور خود عمران خان زخمی ہوئے، اِس بات کی یاد دہانی ہے کہ ملکی سیاست کتنی تفرقہ انگیز اور متشدّد ہو چکی ہے۔
یہ تحریر لکھنے کے دوران ہی یہ واقعہ پیش آیا تھا اور محض ابتدائی معلومات ہی دستیاب تھیں۔ ہم نہیں جانتے کہ نشانہ باز یا نشانے باز کسی کی کٹھ پُتلیاں تھیں یا اُنہوں نے اپنے طور پر ہی گاڑی پر حملہ کیا تھا۔ جو بھی ہو، یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ مُتعصّبانہ نفرت انگیز تقریر اور سوشل میڈیا پر جھگڑے اور بد گوئیاں حقیقتاً جسمانی تشدّد کی حد کو عبور کر چکے ہیں۔
اِس واقعے سے پاکستان کے ایک ایسے وقت میں مُتعصّبانہ انتشار میں ڈوبنے کا خطرہ بھی ظاہر ہوتا ہے جب اِسے ایک سویلین، سیاسی معاہدے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ نیچے دی گئی سطریں فائرنگ کے خوفناک واقعے سے قبل لکھی گئی تھیں۔ اِن میں دی گئی دلیل نہ صرف نتائج ہیں بلکہ جو کچھ پیش آیا ہے اس کے پیشِ نظر عجلت کی مُتقاضی ہے۔
جب ماؤ زے تنگ نے جولائی 1937ء میں اپنا مضمون ” On Contradiction(مُتضاد)” لکھا تو وہ ایک عملی مسئلے سے نمٹ رہے تھے۔ مضمون کا نظریاتی حصہ چین کے خلاف اعلانِ جنگ کرنے والے جاپان کی جانب سے فوجی خطرے کے لیے فلسفیانہ حمایت فراہم کرتا تھا۔ دوسری چین جاپان جنگ جو 7 جولائی 1937ء کو شروع ہوئی تھی اور ستمبر 1945ء تک جاری رہی، نے دوسری جنگِ عظیم کے بحرالکاہل کے وسیع محاذ پر چینی مورچے کی تشکیل کی۔
یہ جنگ چین کے لیے ایک موڑ ثابت ہوئی۔ اس سے پیشتر ایک دہائی تک چینی کمیونسٹ، چیانگ کائی شیک کے قوم پرستوں سے لڑتے رہے۔ کمیونسٹوں کو تعاقُب کر کے ایک خونریز خانہ جنگی میں مار دیا گیا اور اُنہوں نے بھاری قیمت ادا کی۔ تاہم جب جاپان نے چین پر حملہ کیا اور کمیونسٹ اور قوم پرستوں دونوں کو دھمکیاں دیں تو کمیونسٹوں کو کیا کرنا تھا؟
کمیونسٹوں کے درمیان موجود شدّت پسند، قوم پرستوں کو ایک اندرونی خطرہ سمجھنا چاہتے تھے جبکہ جاپان کو بیرونی دشمن کے طور پر دیکھتے تھے۔ اِس کا مطلب تھا دو مخالفوں سے لڑنا، یعنی ایک ناقابلِ دفاع عسکری تزویراتی صورتحال۔ یہی وہ عملی مسئلہ تھا جس کا ماؤ کو سامنا تھا لیکن اُنہیں یہ بتانے کے لیے ایک نظریاتی دلیل کی ضرورت تھی کہ داؤ پر کیا لگا ہوا تھا۔ یہ ماؤ کے مضمون “مُتضاد” کی ابتدا تھی۔
ماؤ کا استدلال، جو ہمارے مقصد سے مطابقت رکھتا تھا، یہ بنیاد تھی کہ “کوئی ایسی شے نہیں جس میں تضاد نہ ہو۔ تضاد کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوگا۔ تاہم جیسا کہ اُنہوں نے دلیل دی، ’’تضاد‘‘ کا یہ تصوّر جامد نہیں، مُتحرّک ہے.
’’بنیادی تضاد طویل عمل کے دوران ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے تک زیادہ سے زیادہ شدّت اختیار کرتا جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ بے شمار بڑے چھوٹے تضادات میں سے، جو بنیادی تضاد سے پیدا شدہ یا اُن سے متاثر ہوتے ہیں، کچھ شدّت اختیار کر جاتے ہیں، کچھ عارضی طور پر یا جزوی طور پر حل یا کم ہو جاتے ہیں، اور کچھ نئے تضاد سامنے آتے ہیں۔ لہٰذا اِس عمل کو مراحل کہا گیا ہے”۔
خلاصہ یہ ہے کہ ماؤ چاہتے تھے کہ کمیونسٹ ایک پیچیدہ صورتحال میں بنیادی تضاد اور بنیادی تضاد کے پہلوؤں کے درمیان فرق کریں۔ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے حالات کو دیکھتے ہوئے “ایک تضاد کے بنیادی اور غیر بنیادی (ثانوی) پہلو خود کو ایک دوسرے میں ڈھال سکتے ہیں، اور اِن کی نوعیت بھی اِس کے مطابق بدل جاتی ہے”۔
عملی سطح پر بنیادی بات سادہ سی تھی کہ کمیونسٹوں اور قوم پرستوں یا بیرونی دشمن جاپان کے خلاف متّحدہ چین کے محاذ کے درمیان بنیادی تضاد کہاں موجود تھا؟ ماؤ کی سوچ واضح تھی، یہ مؤخرالذکر تھا۔ وہ کمیونسٹوں سے اندرونی تضاد کو ثانوی حیثیت دینے اور جاپان کے مقابلے میں ایک متّحد کمیونسٹ – قوم پرست محاذ تشکیل دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
چلیں اب مدعے پر واپس آتے ہیں۔ واضح طور پر بات کی جائے تو میدان میں تین فریق ہیں، سابق وزیراعظم عمران خان اور اُن کی جماعت؛ موجودہ مخلوط حکومت؛ اور فوج۔ چوتھا فریق عدلیہ، جو اہم تو ہے تاہم ہمارے موجودہ معاملے سے غیرمتعلّقہ ہے۔
2018ء کے انتخابات میں جب پاکستان مسلم لیگ نواز فوج کے خلاف غلط فہمی کا شکار ہو گئی تھی اور خود نواز شریف کو ایک متنازع فیصلے کے ذریعے نااہل قرار دے دیا گیا تھا، خان کی جماعت قومی اسمبلی کی 116 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری تھی، جس کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی بالترتیب 64 اور 43 نشستیں تھیں۔ خان کو حکومت بنانے کے لیے 56 نشستیں درکار تھیں جن کا اہتمام اُن کے لیے کیا گیا تھا (اس حقیقت کا وہ خود بالواسطہ طور پر ایک سے زیادہ مرتبہ اعتراف کر چکے ہیں)۔
مسلم لیگ (ن) کے حزبِ مخالف میں آنے اور نیب مقدمات کا شکار ہونے کے بعد شریف نے لندن میں جلاوطنی کے دوران جارحانہ طرزِعمل اختیار کرنے کا فیصلہ کیا (یہاں تک کہ جماعت میں موجود اُن کے چھوٹے بھائی کے حامیوں نے فوج سے معاہدہ کرنے کی کوشش بھی کی)۔ نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز نے فوج پر بالواسطہ اور بلاواسطہ زبانی حملے شروع کر دیے۔
یہ سلسلہ اگست 2021ء تک جاری رہا جب عمران خان اور سربراہ پاک فوج کے درمیان نئے ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلیجنس (ڈی جی آئی ایس آئی) کی تقرّری کے معاملے میں کشیدگی بڑھ گئی۔ زیادہ تر شواہد کے مطابق، یہ اہم موڑ تھا۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں، جن پر اُس وقت تک گنجائش کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا، نے جارحانہ انداز اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان کو ہٹانے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ (اوّل) اُنہیں اکثریت سے محروم کر دیا جائے اور (دوم) اپنی اکثریت دکھا کر حکومت بنائی جائے۔
عمران خان کی سب سے کمزور کڑی حکومت میں شامل پی ٹی آئی کے اتّحادی اور خود پی ٹی آئی میں موجود کچھ ناراض عناصر بھی تھے۔ تاہم عددی اکثریت یا اراکینِ اسمبلی کی خرید و فروخت اِس پر مُنحصر ہے کہ فوج اور اِس کی انٹیلیجنس ایجنسیاں کیا ردعمل ظاہر کریں گی۔ کیا وہ آخری لمحات میں عمران خان کی مدد کو آئیں گے؟ آخرکار پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو آگے بڑھنے کا اشارہ دیا گیا کہ “سلیکٹرز” مداخلت نہیں کریں گے۔ عمران خان یہ جانتے تھے اِس لیے اُن کی جانب سے “غیر جانبدار” اور غیر جانبداری کا طنزیہ عوامی حوالہ سامنے آیا۔ اب ہمیں معلوم ہے کہ جب نمبر گیم شروع ہوا تو اُنہوں نے فوج کو اپنے ساتھ مِلانے کی کوشش کی اور موجودہ سربراہ پاک فوج کو مُدتِ ملازمت میں توسیع کی پیشکش بھی کی۔
اپنی برخاستگی کے بعد سے عمران خان احتجاج پر ہیں۔ اُن کی عمومی تقریر فوج کے اعلیٰ افسران خصوصاً سربراہ پاک فوج کو بدنام کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ پھر اُن کے حامی اور سوشل میڈیا سیل (ٹرول فارمز) اپنی سوشل میڈیا پوسٹوں میں اِس تنقید کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ ساتھ ہی عمران خان خفیہ طور پر سربراہ پاک فوج سے رابطے بھی کرتے رہے ہیں جس حقیقت کو اُن کی اپنی جماعت کے رہنماؤں نے تسلیم کیا (اور اِس کا دفاع کیا)۔
یہ وہ موڑ ہے جہاں سے ہم ماؤ کی طرف لوٹیں گے۔ مسلم لیگ ن کے بڑے شریف اور اُن کی صاحبزادی نے اقتدار سے باہر ہونے پر فوج پر زبانی حملے شروع کر دیے۔ اقتدار سے باہر ہونے پر خان اور اُن کے حامی اب یہی کچھ کر رہے ہیں۔ جب اقتدار میں تھے تو عمران خان اور اُن کے وزراء فوج پر زبانی حملے کرنے پر مسلم لیگ ن / پی ڈی ایم کو اپنے نشانے پر رکھ لیتے تھے۔ اب مسلم لیگ ن / پی ڈی ایم کے رہنما فوج کی ساکھ کو کمزور کرنے پر عمران خان اور پی ٹی آئی پر تنقید کر رہے ہیں۔
جہاں فوج کو کچھ گہرے غور و خوض اور سیاسی مداخلت کے اس طویل سلسلے پر سوچنے کی ضرورت ہے جس نے ادارے کو اِس گندگی میں دھنسا دیا ہے اور جو اب اِس کی سالمیّت اور اتّحاد کو خطرے میں ڈال رہا ہے، وہاں سیاسی جماعتوں کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بنیادی تضاد کہاں ہے۔ کیا یہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان ہے؟ یا یہ بنیادی تضاد سیاسی کھلاڑیوں، اُن کے اختلافات اور اِن کا فائدہ اٹھانے والے بیرونی عناصر سے قطع نظر، کے درمیان ہے؟
عمران خان اور اُن کے حامی اشرافیہ کے روایتی نظام کو بدلنے کی بات کرتے ہیں۔ اِس سے قطع نظر کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں یا نہیں، اُنہیں اِس عمل اور اِس کے مختلف مراحل کو جاننے کی ضرورت ہے۔ اگر بنیادی تضاد سیاسی عناصر اور فوج کے درمیان ہے تو عمران خان اور پی ڈی ایم کو ایک متّحدہ محاذ کی ضرورت ہے، یعنی سیاسی عناصر کو ضرورت ہے کہ وہ فوج کو اُس موقع سے محروم کر دیں جو اُن کے آپس میں لڑنے پر اِسے ملتا ہے اور پھر وہ اِس کا استحصال کرتی ہے۔
تاہم، اگر عمران خان فوج کو دباتے ہوئے دیگر سیاسی عناصر کو مسترد کرنے کی پالیسی پر قائم رہتے ہیں، تو اُنہیں دو محاذوں کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ماؤ کو تو یہ ناقابلِ عمل لگا ۔۔۔ عمران خان کو بھی لگے گا۔