پانچویں نسل کی جنگ: بلوچستان کا سوال؟
سائبر حملوں اور دفاع کو بالآخر پاکستان کے قومی سلامتی کے فریم ورک میں شامل کیا جانا چاہیے
مصنف معروف دفاعی اور سیکیورٹی تجزیہ کار ہیں۔
توڑے دار بندوق کی ایجاد کے بعد پہلی نسل کی جنگ) فرسٹ جنریشن وارفیئر ( کے آغاز میں سیکڑوں سال نہیں لگے۔ واٹر لو اور ورڈن کی جنگوں کے درمیانی 100 سالوں میں، دوسری نسل کی جنگ شروع ہوئی اور عروج پر پہنچ گئی۔ 25 سال سے بھی کم عرصے میں تیسری نسل کی جنگ بھی اپنے عروج کو پہنچی۔ چوتھی نسل کی جنگ کے تصور نے 75 سال قبل چین میں جنم لیا اور اسی کے ساتھ ہی اس جنگ کی بھی ابتدا ہوئی جب کہ اس زمانے یورپ میں تیسری نسل کی جنگ چھیڑی جارہی تھا۔
قوموں کے بجائے سیاسی اور سماجی وفاداریوں کی “اسباب” کی طرف مسلسل منتقلی کے نتیجے میں پانچویں نسل کی جنگ )ففتھ جنریشن وارفیئر( کا آغاز ہوا۔ اس جنگ کو چھوٹے اداروں کے عروج اور بایو ٹیکنالوجی کے دھماکے سے پہچانا جائے گا۔ فائیو جی نیٹ ورکس اہم معلومات کو پھیلائیں گے، سازوسامان اور مواد کے لیے ایک ذریعہ فراہم کریں گے، اور ایک فیلڈ تشکیل دیں گے جہاں سے رضاکاروں کو بھرتی کیا جائے گا ؛ جیٹ طیاروں کے ذریعے ہتھیار عالمی سطح پر، کم لاگتی اور مؤثر طریقوں سے پہنچائے جاسکیں گے۔
عالمی طاقتوں نے ہمیشہ بلوچستان میں اس کی جیو اسٹریٹجک اور جیو اکنامک اہمیت کی وجہ سے مداخلت کی ہے۔ غیر ملکی مداخلت کا نتیجہ صوبے میں شورش، خودکش حملوں، بم دھماکوں اور صوبے کی سیکیورٹی فورسز پر حملوں کی صورت میں ظاہر ہوا۔ بلوچستان اس وقت پانچویں نسل کی جنگ کا شکار ہے۔ پاکستان کے مخالفین تکنیکی اور خفیہ پراکسیز کے ذریعے صوبے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں: بغاوتوں کی سرپرستی ، دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنا، ترقیاتی منصوبوں کو سبوتاژ کرنا، اور مقامی لوگوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے اور انہیں اپنی ریاست اور اداروں کے خلاف اکسانے کے لیے غلط اور گمراہ کن میڈیا رپورٹس شائع کرنا۔
بلوچستان جغرافیائی معاشی لحاظ سے اہم ہے کیونکہ یہ صوبہ تیل، گیس اور قیمتی معدنیات جیسے سونا، تانبا، کرومائیٹ، کوئلہ وغیرہ کے وسیع ذخائر سے مالا مال ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) پاکستان بالخصوص بلوچستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہونے کے لیے تیار ہے۔ گوادر بندرگاہ کی ترقی سے اس کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ گوادر ایک ‘ نئی شاہراہ ریشم’ بن سکتی ہے جو دو خشکی میں گھری وسطی ایشیائی ریاستوں کو چین سے جوڑ دے گی۔
بلوچستان کی عسکریت پسندی کی مختلف حرکیات ہیں، جن میں قبائلی اور ذیلی قومیت کا پہلو بھی شامل ہے۔ صوبے کے وسائل کی صلاحیت اور مستقبل کے تجارتی راستوں کی جغرافیائی اور اسٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے، غیر ملکی کھلاڑی خطے میں عدم استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔ کچھ یورپی ممالک یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) اور بلوچستان کے دیگر عسکریت پسند گروپ “سیاسی مخالف گروپ” ہیں، لیکن بھارت ان سرگرمیوں میں سب سے زیادہ ملوث ملک ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایک ہائبرڈ وار آپریٹر کلبھوشن یادو نے 2016 ء میں اپنی گرفتاری کے بعد اعتراف کیا کہ اسے مقامی کارندوں کی مالی معاونت اور بلوچستان اور سندھ میں دہشت گردانہ حملے کرنے کا کام سونپا گیا تھا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ CPEC پر ہند-امریکی ہائبرڈ جنگ صرف ایک “سازشی نظریہ” تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ ایک “سازشی حقیقت” ہے۔
یہ کوئی راز نہیں کہ بھارت بلوچستان میں شورش کو ہوا دے رہا ہے۔ بلوچ عسکریت پسند رہنماؤں نے متعدد مواقع پر بھارتی مدد حاصل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ یہ انکشاف ہوا ہے کہ بلوچستان لبریشن آرگنائزیشن (بی ایل او)، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) سمیت دیگر کے نمائندے 2009ء سے بھارت میں مقیم ہیں اور اسی کی زبان بول رہے ہیں۔ پاکستان نے ثبوت کے ساتھ بھارت پر الزام لگایا ہے کہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کے انتظامی ادوار کے دوران امریکی قابض افواج کی نگرانی میں بلوچ عسکریت پسندوں کی مالی معاونت، تربیت اور انہیں مسلح کرنے کے لیے قندھار اور جلال آباد میں بھارتی قونصل خانے پاکستان کے خلاف استعمال کیے گئے۔
پاکستان نے معمول کے مطابق، پاکستان کو کمزور اور غیر مستحکم کرنے اور غیرقانونی طور پر بھارت کے زیرقبضہ جموں و کشمیر (IIOJK) میں بے بس کشمیریوں کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم سے عالمی توجہ ہٹانے کے مذموم بھارتی منصوبوں کی تمام تفصیلات دستاویزات )ڈوزیئر کی شکل میں (اقوام متحدہ کے حوالے کیں۔ ان دستاویزات نے انکشاف کیا کہ کس طرح ہندوستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے سابق فاٹا کے علاقے اور بلوچستان میں دہشت گردوں کو تربیت، فنڈز اور محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے لیے افغان سرزمین کا استعمال کیا۔ بیشتر نسلی اور فرقہ وارانہ جھگڑوں اور ان کی فنڈنگ کے تانے بانے ہندوستان سے جاملتے ہیں۔
ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے ایرانی سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال پاکستان کے لیے خاص طور پر کمانڈر یادیو کی گرفتاری کے بعد سے شدید تشویش کا باعث ہے۔ کلبھوشن یادیو کے پاس ایرانی پاسپورٹ تھا اور وہ پاکستان کے خلاف جاسوسی اور تخریب کاری میں ملوث تھا۔ وہ بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ہندوستان کے تجویز کردہ مقاصد پر عمل پیرا تھا۔ بلوچ باغیوں کے رہنما بلوچستان کے بارے میں بھارتی وزیر اعظم کے موقف کی حمایت کرتے ہیں، جو خطے میں بھارتی مداخلت کا ایک اور ثبوت ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے مارچ 2016 ء میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس کا ہدف سی پیک کو سبوتاژ کرنا تھا اور اس ضمن میں بنیادی ہدف گوادر بندرگاہ تھی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ’’یہ ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی سے کم نہیں ہے۔ پاکستان میں بھارتی مداخلت کا اس سے زیادہ واضح کوئی ثبوت نہیں ہو سکتا۔‘‘
ہائبرڈ جنگ کے دور میں پاکستان کے خلاف ذرائع ابلاغ میں مہمات زوروں پر ہیں۔ ان مہمات میں بلوچستان کو غریب اور پسماندہ صوبے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ صوبے میں غیر ملکی مداخلت درحقیقت ترقیاتی پیش رفت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ غیر ملکی حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ صوبے کی ترقی اور استحکام کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ رہے ہیں۔ بھارت نے بلوچستان کو پاکستانی معاشرے کے ایک محروم اور نظر انداز کیے گئے حصے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ یہاں کے لوگوں کو اپنی ریاست اور اداروں کے خلاف اکسایا جا سکے۔ بھارت دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور ویب سائٹس کا استعمال کر رہا ہے کہ بلوچستان کو اس کی اپنی ریاست نے غربت میں رکھا ہوا ہے، اور اس طرح صوبے کی غلط شبیہہ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے خلاف کی بھارت کی میڈیا مہم، جس میں ٹیلی ویژن، اخبارات، مطبوعات، سوشل میڈیا، فلمیں، ڈرامے، اور ریڈیو شامل ہیں، پاکستان کو کمزور کرنے اور انسانی حقوق کے اپنے ہی خوفناک طور پر قابل اعتراض ریکارڈ پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارت کی “خواہ مخواہ شورمچانے” کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اپنی بلوچی ریڈیو سروس کے لیے، اس نے پہلے ہی ایک ملٹی میڈیا ویب سائٹ اور ایپ شروع کی ہے۔ ریڈیو اسٹیشنوں نے اسے بلوچی زبان میں نشر کیا، جس میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سینئر اہلکاروں کے بیانات نشر کیے گئے تاکہ بلوچی برادری کو پاکستان کی مخالفت پر اکسایا جا سکے۔
ہندوستان دنیا کے سب سے زیادہ فعال سوشل میڈیا صارفین میں سے ایک ہے۔ ہندوستان میں تقریباً 206 ملین لوگ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں جب کہ پاکستان میں یہ تعداد 40اعشاریہ4 ملین ہے۔ یہ صارفین منظم طریقے سے بلوچستان اور پاکستان کے دیگر حصوں کے بارے میں ہزاروں جعلی تصاویر، ویڈیوز اور شایع شدہ تبصرے شیئر کرکے پاکستان کے سوشل میڈیا پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بھارت 750 جعلی میڈیا آؤٹ لیٹس اور 550 ویب سائٹس کے وسیع نیٹ ورک، جس کا دائرہ کار 162 ممالک تک پھیلا ہوا ہے، کے ذریعے جھوٹی اور جعلی خبریں بنا کر اور پھیلا کر عالمی برادری کی نظروں میں پاکستان کی شبیہہ کو خراب ، غیر مستحکم کرنے اور اسے نقصان پہنچانے کے لیے اپنے میڈیا اور دنیا بھر میں اپنے شراکت دار لابنگ گروپس سے کام لے رہا ہے۔ (دی نیوز، 2020)۔ 2005 ء میں، ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسی نے سریواستو گروپ (SG) کے نام سے گروپ آف کمپنیز کی آڑ میں ایک پروپیگنڈا ادارہ قائم کیا، جس کا صدر دفتر نئی دہلی میں ہے۔ پچھلے پندرہ سالوں سے یہ گروپ پروپیگنڈا نیٹ ورک کا انچارج ہے۔ اس گروپ کا بنیادی مقصد ہندوستان کی معروف نیوز ایجنسی اے این آئی کی جعلی رپورٹوں کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے بارے میں جھوٹی خبریں پھیلانا ہے ۔
مزید برآں، 2019 ء میں، این جی اوز اور تھنک ٹینکس کے ایک وسیع نیٹ ورک کو بے نقاب کیا گیا جو ایک ہندوستانی نیٹ ورک کے ذریعے چلائی جانے والی 200 سے زائد جعلی نیوز آؤٹ لیٹس کو پاکستان مخالف مواد کے ذریعے یورپی یونین (EU) اور اقوام متحدہ پر اثرانداز ہونے کے لیے معاونت کررہا تھا۔ ایک یورپی غیر سرکاری تنظیم (این جی او) نے نومبر 2019 ء میں بھارت کے ذریعے چلائی جانے والی 265 جعلی نیوز سائٹس کے نیٹ ورک کو بے نقاب کیا۔ رپورٹ کے مطابق، ہر سال اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) کے اجلاسوں کے دوران، مختلف غیر واضح گروپ پاکستان کے خلاف مظاہرے کرتے اور سوشل میڈیا مہمات چلاتے اور انہیں باہم مربوط کرتے ہیں۔ امریکیوں کے ساتھ مل کر بھارت سی پیک کے بارے میں جھوٹی خبریں پھیلا کر اور اسے عسکریت پسندوں کے حملوں کے ذریعے نشانہ بنا کر سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مزید برآں، سی پیک میں چین کی 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نے ہندوستانیوں کو مشتعل کیا ہے، جو سی پیک کے آغاز سے ہی اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اسے ایک عسکریت پسند گروپ کے ذریعے نشانہ بنا رہے ہیں جسے ہندوستانی حکومت مالی مدد فراہم کرتی ہے۔
آگے بڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم موافقت اختیار کریں، مخالف کے فریب کا مقابلہ کریں، اور فریق مخالف کی طرف سے پیش کیے جانے والے بیانیے کا اس طرح مقابلہ کریں جس سے یہ بلند اور واضح پیغام جائے کہ پاکستان ایک ذمہ دار عالمی کھلاڑی ہے اور ایک اہم ریاست کے طور پر اس کی حیثیت کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ یہ مشق سخت اور مستقل ہے، لیکن پاکستان اس کے لیے تیار ہے۔ کم عمری سے ہی بچوں کو بہتر طریقے سے لیس کرنے کے لیے، سائبر سیکیورٹی کی تعلیم کا آغاز کلاس روم سے ہونا چاہیے۔
پاکستان میں انتہائی متحرک سوشل میڈیا کے پیش نظر ، انٹرنیٹ کی صلاحیت اور حدود کی تحقیق کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ماہرین تعلیم پاکستان میں انٹرنیٹ کے منظر نامے کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کریں۔ سائبر حملوں اور دفاع کو بالآخر پاکستان کے قومی سلامتی کے فریم ورک میں شامل کیا جانا چاہیے۔ سویلین اور فوجی انتظامیہ کو ، نجی شعبے کے ساتھ مل کر، ایک مضبوط اور ہمیشہ بہتری کی جانب گامزن سائبر خطرے کے انتظام کا طریقہ کار تیار کرنا چاہیے جو مقامی اور بین الاقوامی خطرات کا مقابلہ کرنے میں مدد فراہم کر سکے۔






