عبداللہ خان

05th Feb, 2023. 09:00 am

اسٹیبلشمنٹ کا واحد موقع

اسٹیبلشمنٹ کو یاد رکھنا چاہیے کہ آج جو نوجوان نسل عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے وہ کبھی بھی بلاول یا مریم کے ساتھ نہیں کھڑی ہوگی

لکھاری اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیوریٹی اسٹڈیز کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔

اگر عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آ سکتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے کندھوں پر سوار ہو کر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کیوں نہیں کر سکتی؟

یہ ایک سوال اور جواب دونوں ہے۔ موجودہ افراتفری اور غیر یقینی صورتحال صرف اسی صورت میں ختم ہو سکتی ہے جب عمران خان کے کردار کو بطور تباہ کن ختم کرکے اس کی جگہ شراکت دار کا کردار ڈال دیا جائے۔ یہ تسلیم کرنے میں کوئی شرم کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ ’’حکومت کی تبدیلی کا آپریشن‘‘ بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس آپریشن کی فوری ضرورت تھی، اور ملک کے مفاد میں ایسا کرنا ضروری تھا۔ تاہم جس طرح سے یہ کیا گیا اسے ناکام ہونا ہی تھا، اور وہ ناکام ہوا بھی۔

اس ناکامی سے سبق سیکھنا ضروری تھا اور اگر عمران خان کو نظام سے ہٹانا اتنا ہی ناگزیر تھا تو یہ حکمت اور سمجھداری سے کیا جا سکتا تھا۔ تاہم سیاسی معاملات کی موجودہ ہینڈلنگ نے عمران کے عوامی قد میں مزید اضافہ کیا ہے اور وہ پاکستانی تاریخ کے مقبول ترین رہنما بن گئے ہیں۔ اگر انہیں جیل میں ڈال دیا گیا تو وہ مزید مقبول ہو جائیں گے۔

Advertisement

فرض کریں کہ انہیں بے نظیر بھٹو کی طرح شہید کر دیا جاتا ہے، چاہے اس کا اصل مجرم کوئی بھی ہو، تمام تر الزام اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوگا جس کے نتیجے میں پاکستانی عوام اور مسلح افواج کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا ہو جائے گی۔ پھر پاکستان کو شام، عراق اور لیبیا جیسا ملک بنانے میں دیر نہیں لگے گی۔ ان تینوں ممالک کی مسلح افواج بہت مضبوط اور طاقتور تھیں لیکن جب عوامی حمایت ختم ہوگئی، ان مضبوط مسلح افواج کو ان کے اپنے عوام نے تباہ کر دیا۔

ضروری ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے رہنما اپنا نقطہء نظر بدلیں اور عمران خان کو مثبت انداز میں شامل کریں۔ نواز شریف اور آصف زرداری سے مصافحہ کر سکتے ہیں تو عمران خان سے کیوں نہیں؟ نواز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان وغیرہ سے ہاتھ ملانے سے آپ کو ملک کی مزید رسوائی اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ لیکن اگر آپ عمران خان سے ہاتھ ملا لیں تو آپ کو بہت کچھ مل سکتا ہے۔ اس وقت اولین ترجیح فوج کی ساکھ کو بحال کرنا ہے جسے جنرل (ر) باجوہ اور جنرل (ر) فیض نے تباہ کیا۔ اس ساکھ کو بحال کرنے کے لیے ایک اہم سیاسی قوت کی حمایت ضروری ہے۔

کچھ اشارے بتاتے ہیں کہ طاقتور حلقے پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک “اہم” سیاسی قوت کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو ہماری مسلح افواج کی عوامی ساکھ کو بحال کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو عمران خان کا متبادل سمجھا جا رہا ہے۔ میں اسے کیا کہوں؟ نادانی یا نا اندیشی؟ میرے پاس اس سوچ کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ آصف زرداری کی مقبولیت اور اس کی وجوہات بھی سب کو معلوم ہے۔ یہ “آپریشن” “حکومت کی تبدیلی” کے بعد ایک اور غلطی ہوگا اور آگ میں مزید تیل ڈالے گا۔

اس وقت عمران خان پاکستان کی سب سے اہم سیاسی قوت ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لیے اُن کے کندھوں کا استعمال کرنا چاہیے۔ اگر کچھ ذاتی ناپسندیدگی یا رنجشیں ہیں تو وہ آپ کو ملک کے سب سے بااثر سیاسی رہنما تک پہنچنے کی راہ میں حائل نہیں ہونی چاہئیں تاکہ ڈوبتے ہوئے جہاز کو شورش زدہ پانیوں سے باہر نکالا جا سکے۔ وہ صرف فوری آزادانہ اور شفاف انتخابات مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایسے انتخابات فوج کی نگرانی میں ہی ممکن ہیں کیونکہ سندھ میں حالیہ بلدیاتی انتخابات اور بڑے پیمانے پر ہونے والی عوامی دھاندلی کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ ملک بھر میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات انتخابات کرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ای سی پی کو ضلعی انتظامیہ اور محکمہ تعلیم پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور یہ سب حکمراں سیاسی قوتوں کے زیر اثر ہیں۔ اس لیے موجودہ سیاسی ماحول میں عام انتخابات کو غیر جانبدارانہ اور شفاف بنانے کے لیے فوج کا کردار انتہائی اہم ہے۔

عسکری قیادت کو پس پردہ رہ کر سب سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔ یہ خدشہ کہ عمران خان دوبارہ اقتدار میں آئے تو اسٹیبلشمنٹ سے انتقام لیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت عمران خان واحد سیاستدان ہیں جو سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے مثبت کردار کی حمایت کرتے ہیں جبکہ باقی فوج کے پروں کو کتر کر اسے بیرکوں میں بند کرنا چاہتے ہیں۔

عمران خان بنیادی اور نظریاتی طور پر فوج کے خلاف نہیں جبکہ دیگر بڑی جماعتیں نظریاتی طور پر اس کے خلاف ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)، اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان لڑائی کا مزہ لے رہی ہے۔ جو بھی اس لڑائی میں ہارے، حتمی فاتح پی ڈی ایم ہوگی۔ اس لیے یہ قوتیں اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان غلط فہمیوں اور اشتعال کو ہوا دیتی رہیں گی۔ اُنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے سیاسی جمود کو توڑا اور ملک میں ایک تیسری سیاسی قوت اُبھری۔ اب اگر عمران خان کی کسی حماقت یا مذکورہ جرنیلوں کی کسی نااہلی کی وجہ سے اس متبادل سیاسی قوت کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے تو پچھلے نو ماہ نے واضح کر دیا ہے کہ ملک کا حشر کیا ہونے والا ہے۔

Advertisement

اسٹیبلشمنٹ کو یاد رکھنا چاہیے کہ آج جو نوجوان نسل عمران کے ساتھ کھڑی ہے وہ کبھی بلاول یا مریم کے ساتھ نہیں کھڑی ہوگی۔ سیاسی شعور رکھنے والے یہ نوجوان ملک کا اثاثہ ہیں۔ آج عمران خان کے ساتھ ہیں۔ کل ان کی ناکامی کی صورت میں انہی نوجوانوں میں سے متبادل سیاسی قیادت بھی سامنے آئے گی۔ تاہم عمران خان کو سیاسی منظرنامے سے مصنوعی طور پر ہٹانے کی تمام کوششیں تباہی ہی لائیں گی۔

میں اپنی بات دہراتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو استعمال کرے اور اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرے۔ اس سے بہتر کوئی آپشن نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ آخری موقع ہے کہ وہ اس قوم کو چند خاندانوں کی سیاسی اجارہ داریوں سے نجات دلانے میں مدد کرے۔ اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ آخری موقع ہے کہ وہ سیاسی نظام میں چیزوں کو بنیادی تبدیلیوں کی سمت میں حرکت دیں جو وقت کے ساتھ ساتھ خود بخود ہوتی چلی جائیں گی، چاہے وہ صدارتی نظام ہو یا متناسب نمائندگی یا جو بھی ہو۔

Advertisement

Next OPED