بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ (بی آر آئی) ۔۔۔ ترقّی کا وسیلہ
مُصنّف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
چین کے ساتھ دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو (بی آر آئی) اقتصادی لچک پیدا کرنے اور پسماندہ ممالک کی سماجی و اقتصادی ترقّی کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے جیسا کہ دنیا بھر کے متعدد ترقّی پذیر ممالک نے تسلیم کیا ہے۔ مثبت رجحانات بتاتے ہیں کہ ترقّی پذیر دنیا کو سال 2023ء اور اس کے بعد بی آر آئی سے کافی زیادہ فائدہ پہنچے گا۔
2023ء اور اس سے آگے ترقّی پذیر دنیا میں اقتصادی لچک اور سماجی و اقتصادی ترقّی کا فروغ ایک پُرامن، خوشحال اور مُنصفانہ عالمی نظام کی کلید ہے۔ جیسا کہ کمبوڈیا کے وزیراعظم سیمڈیک تیکو ہن سین نے بخوبی اعتراف کیا ہے، بی آر آئی ملکی معیشتوں میں اہم مُحرّک پیدا کرکے اور کمبوڈیا جیسے ممالک کو اپنی اقتصادی صلاحیت کا ادراک کرنے کی اجازت دے کر تمام شریک ممالک کو ٹھوس فوائد فراہم کرتا ہے۔ معاشی نمو کو متوازن کرنے اور یوکرین جنگ اور کورونا وبا سے متاثرہ فراہمیء رسد جیسی عالمی جغرافیائی سیاسی حرکیات کے دوہرے چیلنجوں کا سامنا کرنے والی اُبھرتی معیشتوں کی مشکلات کے حل کی اشد ضرورت ہے اور اِس سلسلے میں 2023ء میں بی آر آئی اُمید کی کرن ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا کے ترقّی پذیر ممالک جیسے ملائیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور لاؤس 2023ء میں بی آر آئی کے تسلسل سے بہت فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ نوم پین میں چینی سفیر وانگ وینٹیان کے مطابق، کمبوڈیا کے ساتھ سیہانوک ویل خصوصی اقتصادی زون نے کاروباری اداروں کو زون میں آباد ہونے اور مقامی لوگوں کے لیے 30 ہزار ملازمتیں پیدا کرنے کے قابل بنایا جو اِس کی معاشی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسی طرح جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے عظیم تر اتّحاد کے نتیجے میں ہوائی اڈے، ایکسپریس وے، مینوفیکچرنگ مراکز اور برقی پاور پلانٹس کے منصوبے چین لاؤس ریلوے کی صورت میں آگے بڑھے جو کنمنگ کو لاؤٹیا کے دارالحکومت وینٹیانے سے جوڑتی ہے۔ اس طرح کے منصوبوں کا عالمی دائرہ کار ہے اور یہ ماحولیاتی معیشت میں سرمایہ کاری، ترقّی پذیر دنیا میں مالیاتی اداروں کی استعداد کار بڑھانے اور عوامی رابطوں کو مضبوط بنانے کے شعبوں میں اہم تعاون فراہم کرتے ہیں۔
جنوب مشرقی ایشیا کے علاوہ لاطینی امریکا جیسے خطوں کو بھی 2023ء میں بی آر آئی کے تسلسل اور فروغ سے فائدہ ہوگا۔ چین، ارجنٹائن اور نکاراگوا جیسے ممالک کے درمیان خاص طور پر خام لوہے سے لے کر کئی پیٹرولیم مصنوعات کی زیادہ مانگ تک 2000ء میں صرف 12 ارب ڈالر سے 2021ء میں 430 ارب ڈالر سے زائد کی تجارت ہوئی۔ گزشتہ سال 2022ء میں بھی بی آر آئی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ایک مناسب سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے کے دائرہ کار کے طور پر دیکھا گیا ہے جس میں نکاراگوا جنوری 2022ء میں اور اس کے بعد فروری میں ارجنٹائن اِس میں باضابطہ طور پر شامل ہوئے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ براعظم 2022ء میں بائیڈن انتظامیہ کی مسلسل لاپروائی سے دوچار ہے جو ٹرانس پیسفک شراکت داری سے 2017ء کے امریکی انخلاء سے بھی تعلق رکھتا ہے، لاطینی امریکا کی حکومتیں بھی چین کو ایک عملی اقتصادی متبادل کے طور پر دیکھتی ہیں۔
2023ء میں بی آر آئی کے فوائد تاریخی غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری سے بھی حاصل ہوئے ہیں جنہوں نے چائنا ڈیولپمنٹ بینک اور چین کے ایکسپورٹ امپورٹ بینک کے ذریعے چینی اور لاطینی امریکی کمپنیوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس طرح کی غیر مشروط امداد نے ایل سلواڈور سے پاناما تک کے 11 ممالک میں بندرگاہوں، ہائیڈرو الیکٹرک ڈیموں اور پلوں کی تعمیر میں مدد دی ہے جو کورونا وبا کے دور میں تجارت، توانائی کی پیداوار اور اقتصادی لچک کے ہموار بہاؤ کے لیے بہت ضروری ہے۔
سال 2023ء بھی بڑی معاشی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ ترقّی پذیر دنیا میں بڑھتے قرضوں اور کم ہوتے ذخائر جیسے معاشی دھچکوں سے بچنے کے لیے مقامی معیشتوں کو بحال کرنے اور اُن میں نئی جان ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بی آر آئی اِس سلسلے میں ترقّی پذیر دنیا کے لیے متعدد مواقع کی پیشکش کا ایک ثابت شدہ ریکارڈ رکھتا ہے۔ اِس میں قرضہ جات کی ادائیگی کی صلاحیت بھی شامل ہے جیسا کہ ارجنٹینا اس میں شامل ہونے کے بعد 2022ء میں ادا کرنے میں کامیاب ہوا۔ بیونس آئرس کو چین کے ساتھ کرنسی کے تبادلے میں 5 ارب ڈالر کا فائدہ ہوا جس سے وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو قلیل مدتی ادائیگیوں کے قابل بنا۔ اسی طرح گرین فیلڈ سرمایہ کاری اور زیادہ قرضے سرمایہ کاروں کے زیادہ کنٹرول کو یقینی بناتے ہیں اور مارکیٹنگ شراکت قائم کرنے اور درمیانی اخراجات سے بچنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ یہ سب ترقّی پذیر ریاستوں کو مختصر اور طویل مدت میں فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل بین الاقوامی تعلقات انسٹیٹیوٹ کمبوڈیا، کِن فیا کے مطابق ہر ملک ریاستوں کی شرکت کے لحاظ سے مختلف سطحوں پر بی آر آئی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں ارجنٹائن کی مثال نُمایاں ہے۔
مزید برآں، کم آمدن کے درجے سے نکلنے کے خواہشمند ممالک کے لیے بی آر آئی ایک اہم دائرہ کار کے طور پر کام کرتا ہے۔ کمبوڈیا کے لیے خاص طور پر ڈائریکٹر 21 سینچری میری ٹائم سلک روڈ ریسرچ سنٹر کمبوڈیا، نیک چنداریتھ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ دارالحکومت نام پن کے 2030ء تک اعلیٰ درمیانی آمدن اور 2050ء میں ایک اعلیٰ آمدن والا ملک بننے کے عزائم، تجارتی صلاحیت سے لے کر بنیادی ڈھانچے کے جال تک، کو بی آر آئی کے منصوبوں سے خاصی تقویت ملی ہے۔ بی آر آئی اِس سلسلے میں ترقّی کے اِسی مرحلے پر ممالک کے لیے کافی مواقع فراہم کرتا ہے۔
زیادہ تر ترقّی پذیر دنیا جو معاشی معاملات کو غیر سیاسی بنانا چاہتی ہے اور نظریاتی تصادم سے بچنا چاہتی ہے، وہ بی آر آئی سے ہر طرح فائدہ اٹھاتی ہے۔ چین کے ساتھ لاطینی امریکا اور جنوب مشرقی ایشیا دونوں میں اقتصادی ڈھانچے کے اعلیٰ درجے کی تکمیل اقتصادی ترقّی کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک متوازن اور مرکوز نقطہء نظر کو یقینی بناتی ہے۔ 2023ء اور اس سے آگے دیکھتے ہوئے، بی آر آئی ترقّی پذیر دنیا کے لیے اقتصادی ترقّی کا وسیلہ بنا ہوا ہے۔ اِس کی اہمیت کے بارے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے جو سی پیک سے لے کر 149 ممالک کے ساتھ تعاون کی 215 دستاویزات تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ترقّی پذیر ممالک کے لیے کایا پلٹ ثابت ہو سکتا ہے، خاص طور پر اُن ممالک کے لیے جو قرضوں اور ساختی مسائل سے دوچار ہیں۔
یہ مُستقبل کے لیے مثالی رہنما اقدام ہے۔






