ڈاکٹر حسن شہزاد

18th Dec, 2022. 09:00 am

دورہِ افغانستان کی ناکامی اور حقوقِ نسواں کا جھوٹا پرچار

سفارتی ناکامیوں پر حقوق نسواں کا پردہ ڈالنے کی کوششیں دانستہ اور افسوسناک ہیں

مصنف انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد

میں استاد ہیں۔

’’نظریہ حقوق نسواں یا فیمنزم وہ کوڑے دان نہیں ہے جس میں آپ اپنی سفارتی ناکامیوں کو ڈالتے جائیں۔‘‘ تمام لوگوں میں سے، کم از کم وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان کو 12 دسمبر 2022 ء کو قومی اسمبلی میں دھواں دھار تقریر کرتے ہوئے اس اصول کا خیال تو رکھنا چاہیے تھا۔

اپنی تقریر میں، اور بعد میں سوشل میڈیا پر، انہوں نے  وزیرمملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر کو 29 نومبر 2022 ء کو کابل بھیجنے کے فیصلے کا دفاع کیا۔ ان کی تمام تر دلیل یہ تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو مرکزی دھارے کی سیاست اور پالیسی سازی کے عمل میں اپنا کردر ادا کرنے کے ضمن میں خواتین کی حوصلہ افزائی کرنے پر فخر ہے۔ انہوں نے جماعت اسلامی (جے آئی) کے ایم این اے عبدالاکبر چترالی کے تبصرے پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا تھا کہ کچھ قبائلی عمائدین کو حنا ربانی کھر کے ساتھ کابل جانا چاہیے تھا۔

Advertisement

اپنے موقف کی دلیل کے طور پر انہوں نے اصرار کیا کہ وہ کسی خاتون کے وزیر ہونے کے خلاف نہیں ہیں۔ اس کے بجائے انہوں نے شیری رحمان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی امور کو چلانے میں صنف غیر متعلق ہے اور کارکردگی اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم، یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ شیری رحمان نے حنا ربانی کھر کی کارکردگی پر حقوق نسواں کی خوبیوں کو بیان کرنے کے علاوہ ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ ایسا لگتا ہے کہ شیری رحمان کے نزدیک عورت ہونا ہی حنا ربانی کھر کے لیے اپنے عہدے کا جواز پیش کرنے کی واحد سند ہے۔

حنا ربانی کھر کے دورے کے بمشکل ایک ہفتہ بعد، 4 دسمبر کو کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ ہوا۔ اگرچہ سفیر محفوظ رہے لیکن ان کا گارڈ زخمی ہوگیا۔ اس واقعے کے ٹھیک ایک ہفتے بعد، افغانستان سے دہشت گردوں نے چمن بارڈر پر قیامت برپا کردی جس میں 7شہری ہلاک اور 20 کے قریب زخمی ہوئے۔ اس حملے کے چند گھنٹے بعد، چینی شہریوں پر کابل میں ایک ہوٹل پر حملہ کیا گیا جس کے بعد چینی حکام نے چینی شہریوں کو افغانستان سے چلے جانے کا مشورہ دیا۔ لیکن شیری رحمان اس بات پر بضد ہیں کہ وزیر کی حیثیت سے ان کی ناکامیوں پر رونے سے زیادہ حنا ربانی کھر کی جنس کے بارے میں بات کرنا زیادہ اہم ہے۔

یہ ایک نمونہ ہے۔ حنا ربانی کھر کے دورے کے وقت، میں نے انہی صفحات میں خبردار کیا تھا کہ یہ دورہ آپٹکس میں کھو جائے گا کیونکہ پاکستانی میڈیا  میں حنا ربانی کھر، ایک خاتون کی تصاویر چھائی ہوئی تھیں، جن میں سخت گیر دکھائی دینے والے باریش افغان طالبان ان کا استقبال کررہے تھے۔ سوشل میڈیا پر اثرانداز ہونے والوں اور اینکرز کی ایک فوج نے یہ دعویٰ کیا کہ ایک خاتون وزیر کو کابل بھیجنا پاکستان کی فتح ہے، جس کا تعلق انہوں نے خواتین کو بااختیار بنانے اور حقوق نسواں کے بارے میں اپنے خود ساختہ تصورات سے  جوڑا۔

 میرے یہ کہنے کی بنیادی وجہ یہ حقیقت ہے کہ میں نے پاکستانی سیاست میں صنف کی ثالثی میں پی ایچ ڈی کی ہے اور صنف کے ساتھ بطور جنس برتا ؤ کے لیے میڈیا کے طرز ہائے عمل پر تحقیق کر رہا ہوں۔ ان میڈیا پر اثر انداز ہونے والوں کی حقوق نسواں یا انسانی حقوق کی دیگر سرگرمیاں ان منصوبوں سے منسلک ہوتی ہیں جن کے لیے انہیں ادائیگی کی جاتی ہے۔ دوسرے منصوبوں کی طرح حقوق نسواں بھی ان کے لیے ایک منصوبہ ہے۔ وہ ان منصوبوں کو اپنی سی وی میں تمغوں کے طور پر سجاتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ ایک لمحہ خاموش رہ کر آئینے میں ان مصائب کے سوداگروں کو دیکھیں جن میں وہ ڈھل چکے ہیں۔ لہذا، ان پروجیکٹ ڈائریکٹرز کے دلائل دراصل منطقی نتائج نہیں ہیں جو حقیقت کی صحیح تصویر کو ظاہر کر سکیں یا مستقبل کے رجحان کی پیش گوئی کر سکیں۔

بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب دفتر خارجہ کو دینا پڑا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے وزرائے خارجہ اور سفارت کار سیاستدانوں کی طرح شکار ہونے کا کھیل کھیلنا بند کر دیں۔ 70 سال سے زیادہ عرصے سے وہ عوام کو بتا رہے ہیں کہ دائیں بازو، بائیں بازو اور مرکز کو نقصان پہنچانے کے لیے سازشیں رچی جاتی ہیں۔ اگر ان سازشوں کا مقابلہ نہیں کرنا تو دفتر خارجہ کس لیے بنایا گیا ہے؟

شیری رحمان نے اپنی تقریر میں بے نظیر بھٹو کو خواتین رہنماؤں کے لیے مینارہ نور قرار دیا۔ میں نے بھٹو کی سوانح عمری کے مواد کا تجزیہ کیا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ کس طرح حزب اختلاف کی جماعتوں نے ان کے حمل پر بھی سیاست کی۔ میں وہ پہلا صحافی تھا جس نے آنجہانی بے نظیر اور نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کے درمیان مشابہت کے بارے میں لکھا ، جب مؤخر الذکر نے 2018 ء میں اپنے پہلے بچے کو جنم دیا۔

Advertisement

بینظیر بھٹو نے کبھی بھی عورت ہونے کے ناطے اپنی ناکامیوں کا جواز پیش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ شیری رحمان نے یہ بھی کہا کہ حنا ربانی کھر کو کابل بھیجنے کا فیصلہ بلاول بھٹو زرداری نے کیا تھا۔ میڈیا میں بتایا گیا ہے کہ بلاول بھٹو کے وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد مشکل سے چھ ماہ میں دوروں پر اب تک تقریباً 2 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ جس وقت یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں، وہ واشنگٹن جا رہے ہیں۔

پاکستان کے کسی بھی وزیر خارجہ کے لیے کابل اہم ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ ملکی تاریخ میں کوئی وزیر خارجہ ایسا نہیں رہا جس نے کابل کا دورہ نہ کیا ہو۔ پھر بلاول بھٹو ، دورہ کابل میں حناربانی کھر کے ہمراہ کیوں نہیں تھے؟ انہیں کابل بھیجنے سے چند روز قبل بلاول بھٹو نے بیان جاری کیا تھا کہ دہشت گرد افغانستان سے پاکستان کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے باقاعدگی سے نشاندہی کرتے رہے ہیں کہ طالبان کو میز پر لانے کے لیے مداخلت کی ضرورت ہے۔ کیا بلاول بھٹو کو معلوم نہیں تھا کہ افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ کا بھارت سے جاپان کا دورہ حنا ربانی کھر کے ایک روزہ دورہ کابل کے ساتھ ہی ہوگا؟

ہندوستان کے بعد، وہ سیدھا یو اے ای گئے جہاں انہوں نے طالبان رہنماؤں سے ملاقات کی، نہ کہ مولوی محمد یعقوب سے۔ مولوی محمد یعقوب طالبان کے بانی ملا عمر کے بیٹے ہیں جو طالبان کی زمینی افواج کے سربراہ ہیں۔ اگرچہ وہ عملی طور پر طالبان حکومت کی قیادت کر رہے ہیں، مگر حنا ربانی کھر ان سے ملاقات کرنے سے قاصر رہیں، لیکن پاکستان میں حکام اور مبصرین نے اس ناکامی کو ایک بار پھر فیمنزم میں سمودیا۔ مولوی محمد یعقوب نے کابل میں حنا ربانی کھر سے ملنے سے انکار کرنے کے تین یا چار دن بعد ابوظہبی میں امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے مردوں اور عورتوں سے ملاقات کی۔ تبصرہ نگاروں نے یہ حقیقت پاکستانی ناظرین و سامعین سے چھپائی۔

مشرقی ایشیائی اور بحرالکاہل کے امور کے لیے امریکی معاون وزیر خارجہ ڈینیل کرٹن برنک اور قومی سلامتی کونسل کی سینئر ڈائریکٹر برائے چین لورا روزنبرگر لینگ فانگ میں چین کے دورے پر تھے، جہاں نائب وزیر خارجہ ژی فینگ نے علاقائی امور پر بات چیت کی۔ بھارتی میڈیا ہمالیہ کی سرحد پر چینی فوج کے ساتھ جھڑپوں کی خبریں دے رہا تھا- چینی خارجہ افسر نے ان خبروں کو مسترد کر دیا ہے۔

یورپی یونین اور اقوام متحدہ افغانستان میں طالبان کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف باقاعدگی سے وارننگ جاری کر رہے ہیں۔ کیا ہمارے وزیر خارجہ اتنے غیر سفارتی تھے کہ وہ ان وارننگز سے یہ اندازہ نہ لگاسکے کہ کابل میں پاکستان کے خلاف مشکلات کا ڈھیر لگا دیا گیا تھا اور وہ دولت مند دارالحکومتوں میں قیام کے متحمل نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے پڑوس کے ساتھ معاملات کو درست نہ کرلیں ؟

ان کے ناقدین اور مداح بلاول بھٹو کا موازنہ ان کے دادا ذوالفقار علی بھٹو سے کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انہیں خود کو اس عہدے کا اہل ثابت کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ ان کے مداحوں کے دلائل، اگرچہ، حیرت انگیز ہیں جو کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح وزیراعظم کا دفتر (پی ایم او) ان کا اگلا پڑاؤ ہوگا۔ میرا ان کو مشورہ ہے کہ وہ یقین رکھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو صرف اعلیٰ سطح کے سفارت کاروں کے ساتھ کندھے نہیں ملا رہے کہ انہیں پاکستان کا وزیراعظم تسلیم کیا جائے۔ انہوں نے امریکہ کو چینی رہنماؤں تک پہنچنے کے لیے ایک کھڑکی مہیا کر دی تھی۔ یہ تعلق ہینری کسنجر کے لیے بہت قیمتی تھا ، انہوں نے اس تعاون سے کابینہ کے دیگر اراکین  کو اس وقت تک آگاہ نہیں کیا جب تک کہ وہ واشنگٹن میں عوامی جمہوریہ چین کا پہلا سفارت خانہ کھولنے میں کامیاب نہ ہو گئے تاکہ دونوں عالمی اداروں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہو سکیں۔ امریکا نے 1971 ء کی جنگ کے دوران بھارت پر دشمنی ختم کرنے اور مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے دباؤ ڈال کر اس احسان کا بدلہ چکایا۔

Advertisement

کیا بلاول بھٹو کے سامنے یہ بات نہیں ہے کہ افغانستان وہ میدان ہو جہاں وہ چین اور امریکہ کو ایک دوسرے کے قریب لائیں تاکہ بھارت اور بگاڑ پیدا کرنے والی دیگر قوتوں کے خطے میں بدامنی پھیلانے کے امکانات کم ہو جائیں؟ اگر جواب “ہاں” ہے، تو یہ بحث کا اختتام ہے۔ اگر جواب “نہیں” ہے، تو پھر اس سے مزید سوالات پیدا ہوتے ہیں۔پاکستانی شیری رحمٰن کے شکرگزار ہوں گے اگر وہ اپنے خیالات پر عمیق نگاہ کریں اور دیانت داری سے کام لیتے ہوئے یہ کہیں کہ حنا ربانی کھر کی بطور وزیر مملکت کابل میں ناکامی دراصل بلاول بھٹو کی بطور وزیر خارجہ ناکامی تھی۔ یہ اعتراف علاقائی سلامتی کی صورتحال کو بہتر بنانے کی جانب پہلا قدم ہو گا۔ سفارتی ناکامیوں پر حقوق نسواں کا پردہ ڈالنے کی کوششیں دانستہ اور افسوسناک ہیں ۔

Advertisement

Next OPED