حنان آر حسین

06th Nov, 2022. 09:00 am

امریکہ چین سفارت کاری

نکولس برنز اور وانگ یی کی ملاقات کو دو بڑی طاقتوں کے درمیان پختہ رابطے کے لیے ایک توسیعی لائف لائن کے طور پر دیکھا جانا چاہیے

مُصنّف خارجہ اُمور کے مُبصر اور فُل برائٹ ایوارڈ یافتہ ہیں۔

جب چینی ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ، وانگ یی نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں چین میں امریکی سفیر نکولس برنز سے ملاقات کی، تو اس بارے کچھ حد تک امریکی آگاہی موجود تھی کہ یہ تعلق کیوں اہم تھا۔ مضبوط رابطہ کاری پر غور واضح تھا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ آگے بڑھنے کا یہ طریقہ چین کے حوالے سے امریکی ترجیحات کی حقیقی عکاسی نہیں کرتا۔ یہ وہ بنیادی اختلاف ہے جس پر برنز کو – چین میں امریکی سفیر کی حیثیت سے – چین کے ساتھ تم کرو گے تو میں کروں گا کی صورتحال کے خاتمے اور بیجنگ کے بارے میں امریکی ارادے کو معتبر بنانے میں مدد کرنی چاہیے۔

مختلف امریکی ترجیحات کا اندازہ کرنے کے لیے، اگست پر نظر دوڑائیں۔ سی این این کے ایک انٹرویو میں، برنز نے  ایک چین کے اصول کی واشنگٹن کی جانب سے کھلم کھلا خلاف ورزیوں کا دفاع کیا، اور بیجنگ پر آبنائے تائیوان میں ’’عدم استحکام کے عامل ‘‘ کے طور پر عمل کرنے کا الزام لگایا۔ برنز نے اس وقت دعویٰ کیا کہ ’’دنیا بھر میں بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے کہ چین اب آبنائے تائیوان میں عدم استحکام کا عامل بن گیا ہے اور یہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے،کیا [چینی حکومت] امن کو خراب کرنے کے لیے جارحانہ اور پرتشدد طریقے سے ردعمل ظاہر کرے گی؟‘‘

تائیوان پر مجموعی امریکی مداخلت کو روکنے کی کوششیں خصوصی توجہ کی مستحق ہیں۔ بہر حال، آبنائے تائیوان پر بین الاقوامی اتفاق رائے عملی طور پر امریکی خواہشات کے برعکس ہے۔ کئی ممالک  ایک چین کے اصول کو سختی سے تسلیم کرتے ہیں اور انہوں نے امریکا کی جانب سے ‘ایک چین ‘ کی کھلی خلاف ورزیوں کی مخالفت میں بارہا ایک چین اصول کو تسلیم کرنے کے اپنے عمل کا اعادہ کیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر دنیا بھر میں ’’تشویش‘‘ کی کوئی گنجائش ہے، تو اسے بنیادی طور پر ’’ایک چین‘‘ کی تعمیل کے نام پر علیحدگی پسندوں کی حمایت کرنے کی امریکی کوششوں کی نشاندہی کرنی چاہیے، جیسا کہ کانگریس کے تائیوان کے غیرضروری دوروں اور ملک کی حکمت عملی سے متعلق حکام کے تبصروں سے ظاہر ہوتا ہے۔

Advertisement

 امریکہ کی جانب سے چین کی خود مختاری کی سرخ لکیریں عبور کرنے کی وجہ سے ، آبنائے تائیوان میں عدم استحکام میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے، جس کی عکاسی پورے ایشیا میں، بشمول امریکہ کے کچھ شراکت داروں میں پھیلے سنجیدہ تحفظات سے ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ آسانی سے برنز کی جانب سے چین  مخالف خیالات کی نذر ہوگیا، لیکن یہ اس طرح نہیں ہونا چاہیے۔

آئیے یہ بھی واضح کریں: یہ امریکہ ہے – چین نہیں – جو بیجنگ کی طرف سے بار بار انتباہ کے باوجود چینی خطے کے ساتھ غیر مجاز تجارتی روابط اور ہتھیاروں کی فروخت پر دباؤ ڈال کر عدم استحکام کے لیے راہ ہموار کرنے پر اصرار کرتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، یہ الزام برقرار نہیں رہتا کہ بہرحال یہ چین کی ذمے داری ہے کہ وہ ’’باقی دنیا کو قائل کرے‘‘ کہ وہ پرامن رہے گا ۔

اس ہفتے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے ساتھ وانگ یی کی ہائی پروفائل کال اس بات کی ایک موزوں مثال ہے کہ امریکہ چین دشمنی کو سنبھالنے کی ضرورت ہے نہ کہ اس میں شدت پیدا کی جائے۔

 یہ سمجھیں، کہ اگر امریکہ آبنائے تائیوان میں عدم استحکام سے بچنے کے لیے حقیقی طور پر فکر مند ہے، تو اس کا حل آسان ہے: واشنگٹن کو چین کی خودمختاری سے متعلق معاملات میں عدم مداخلت پر واضح موقف دینا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکی حدود میں علیحدگی پسندوں کے لیے خاموش حمایت کا خاتمہ، چینی صوبے )تائیوان( کے ساتھ تمام روابط پر پابندی لگانا، اور تین بار ہوئے چین-امریکی مشترکہ مکالموں میں کیے گئے اتفاق رائے پر مکمل عملدرآمد۔

امریکی ایلچی بین الاقوامی برادری کے خیالات کا جواب دینے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہو گا اگر ان کا ملک، بالخصوص آبنائے تائیوان پر اپنے اصل وعدوں کو عملی جامہ پہنائے۔ بہر حال، یہ ایک ناگوار حقیقت ہے کہ آبنائے تائیوان میں بڑھتے ہوئے عدم استحکام میں واشنگٹن کی طرف سے واضح خلاف ورزیوں کا مرکزی کردار ہے۔ برنز کے تازہ ترین تبادلہ خیال کے دوران دستاویزی امریکی اشتعال انگیزیوں کا بہت کم اعتراف کیا گیا۔ اس کے بجائے، ان کا اصل نظریہ یہ تھا کہ امریکہ کا چین کے ساتھ ‘ تم کرو گے تو میں کروں گا کی صورتحال کے خاتمے اور ’’ان کے اختلافات پر بات کرنے‘‘ کے لیے تیاری کا مظاہرہ درست سمت میں ایک قدم تھا، لیکن امریکی دفاعی ترجیحات کے اس ارادے سے انحراف کے بعد، یہ قدم کسی اہم تبدیلی کا باعث نہیں بن سکتا۔

چین تعاون کے علاوہ امریکہ۔ چین کی مسابقت کو سنبھالنے کی بھی حمایت کرتا ہے۔ بلنکن کے ساتھ وانگ کی صاف گوئی اور براہ راست بات چیت اس بات کی تازہ ترین تصدیق ہے کہ بیجنگ تمام معاملات کو مذاکرات کی میز پر رکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ بیجنگ اس بات سے آگاہ ہے کہ پائیدار سفارت کاری ایک بامعنی مستقبل کو پیش نظر رکھتی ہے۔

Advertisement

یہیں پر امریکہ کو یہ تسلیم کرتے ہوئے جواب دینا چاہیے کہ تائیوان کا سوال چین کا اندرونی معاملہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ امریکہ کی اپنی ون چائنا پالیسی پر عمل نہ کرنے کی شعوری کمی نے واشنگٹن کے اندر تصادم کے رجحانات کو تقویت دی ہے، جب کہ مستقبل بین الاقوامی توقعات کے ساتھ زیادہ ہم آہنگی کا مطالبہ کررہا ہے۔ کیا امریکہ، چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید کشیدگی کا شکار ، اور اور تناؤ میں مزید اضافہ کرنے سے بچ سکتا ہے؟

 اس سلسلے میں برنز کا سابقہ نظریہ کچھ اشارے پیش کرتا ہے۔ امریکی ایلچی نے پہلے واضح کیا تھا کہ واشنگٹن کو یقین نہیں ہے کہ ’’امریکہ اور چین کے تعلقات میں کوئی بحران ہونا چاہیے۔‘‘ اس پر گفت و شنید ختم ہوگئی، لیکن امریکی ایوان کے اسپیکر کے غیرضروری تائیوان کے دورے نے جو کردار ادا کیا وہ بذات خود سنگین غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔ اس طرح، ان الزامات میں کوئی وزن نہیں ہے کہ دورے کے نتیجے میں ’’چینی حکومت کی طرف سے تیار کردہ بحران‘‘ تھا۔ ایک بار پھر، اس الزام کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا، لیکن ماضی میں واشنگٹن کی بیان بازی اور چین مخالف خطرناک پروپیگنڈے کے درمیان بڑے پیمانے پر تقسیم بالکل واضح ہو چکی ہے۔ تبدیلی کے لیے، یہ امریکہ ہی ہے جسے راستہ ہموار کرتے ہوئے اپنا اعتبار بحال کرنا ہوگا۔

بالآخر، برنز-وانگ ملاقات اور تبادلہ خیال کو دو بڑی طاقتوں کے درمیان پختہ رابطے کے لیے ایک توسیعی لائف لائن کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اس امر کے ٹھوس ثبوت سامنے آئے ہیں کہ امریکہ آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام میہں مرکزی رکاوٹ ہے، لیکن چین کی جانب سے تعلقات کو ٹھوس راستے پر ڈالنے کی خواہش ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ کی راہ کھولتی ہے۔

Advertisement

Next OPED