درد کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ
بام و در خامشی کے بوجھ سے چُور
آسمانوں سے جُوئے درد رواں
چاند کا دُکھ بھرا فسانہء نُور
شاہراہوں کی خاک میں غلطاں
خواب گاہوں میں نیم تاریکی
مضمحِل لَے رُبابِ ہستی کی
ہلکے ہلکے سُروں میں نوحہ کناں
فیض احمد فیض
حالیہ ہ دور میں درد کی تحریر ، پتہ نہیں کہاں سے شروع ہو اور کہاں ختم ہو؟ یہ ایک نہ ختم ہونے والا بہاؤ ہے جس کا ماخذ تو معلوم ہو سکتا ہے، لیکن جس کے انجام کے بارے میں صرف قیاس ہی کیا جا سکتا ہے۔یہاں تک کہ اگر کوئی دور دور تک بھی دیکھے، تو انسان کی روح میں جو پہلے ہی سے موجود گہرے زخمیوں کو ٹھیک کرنے کا کوئی علاج نظر نہیں آتا، جس کی وجہ سے زندگی کے معمولات اور روزی روٹی کے چکر میں ہمارا اعتماد بھی ختم ہوتا جاتا ہے ۔درحقیقت، ہم نشیب کے ایسے کنارے پر کھڑے ہیں، جہاں سے نیچے کھائی میں جانے کے لیے صرف ایک ہلکا سا دھکا درکار ہے۔لیکن ہم یہاںکافی عرصے سے اسی طرح موجود ہیں۔ جنھیں امید ہو ،انہیں تو کوئی دلیل مل سکتی ہے کہ ہم ابھی تک ان مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں جو زیادہ تر خود ساختہ ہیں لیکن دوسری طرف عملیت پسند فرد ، خودکشی کے رجحانات کی جانب جانے پر اصرار کر سکتا ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار بچنےکی کوشش بھی نہیں کرتا ۔لیکن اس خطرے سے دوچار ہونے سے ہماری کسی بیماری کا علاج نہیں ہورہا ۔ اگر ایسا ہے تو وہ زخم وقت کے ساتھ خراب ہوتا جائے گا جوکہ عملی طور پر اب لاعلاج ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے ۔
ایک آزاد ملک کے طور پر ہماری تخلیق کے بعد کے ابتدائی دنوں کی بات کرتے ہیں جس میں فوج نے بغاوتوں کے زمانے سے لے کر ظالمانہ طریقے سے منظم ‘جمہوریتوں’ کے ادوار کو بدعنوانی اور جرائم کی دنیا میں ناقابل واپسی طور پر ختم کر دیا تھا ۔ یہ ایک دردناک داستان ہے جسے پڑھنا اور سمجھنا ضروری ہے ۔اور ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اپنے وجود کے ذریعے ان تبدیلیوں کا سامنا کیا ہے، اور جو آہستہ آہستہ امید کھو تے جارہے ہیں ۔ یہ درد کےنہ ختم ہونے والے اس بہاؤ کی طرح ہے جو ان کی زندگی کا لازمی حصہ رہ چکا ہے ۔وہ نہ ماضی میں اس کے وجود سے انکار کر سکتے تھے اور نہ ہی مستقبل میں انہیں نظرانداز کر سکتے ہیں۔
تو، ہم اب کہاں سے شروع کریں؟ ہم درد اس کہانی کا آغاز کہاں سے کریں ؟ اہم سوال یہ بھی ہےکہ ہم کس امید کی پرورش کرتے ہیں؟کیا کسی مرحلے پر درد کی یہ لہرعلاج کی دوائیاں ملنے سے کم ہونے والی ہے؟ یا یہ درد مزید شدت اختیار کرے گا ؟آزادی کے حصول کے 75 سال بعد بھی ہم اپنے آنے والے کل کے بارے میں بے یقینی کا شکار رہتے ہیں۔ سوچتے ہیں کہ آنے والا وقت مزید کون سی مشکلات اور رسوائی کو اپنے ساتھ لارہا ہے؟ہمارے ساتھ اُس نے یہ کیا، اِس نے وہ کیا ، یہی داستانیں سنانے کےلیے کافی ہیں ۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ وہ اب بھی ایسا ہی کرتے رہتے ہیں، مزید سختی کے ساتھ انتقام لینے کا سلسلہ جاری ہے۔پہلے یہ دشمنی محض مخالفین کو شکست دینے کے لیے ہوتی تھی۔اسے اب ختم ہوجانا چاہیے ۔ ماضی میں مقصد آپ کے عروج کی راہ ہموار کرنا تھا۔اب اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ دشمن دوبارہ کہیں مستحکم نہ ہو جائیں۔جس طرح بقائے باہمی کا عنصر ختم ہوتا جارہا ہے اسی طرح رنجشوں کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
یہ ایک دائمی جنگ کے علاقے میں رہنے کی طرح ہے جس میں جلد ہی جنگ ختم ہونے کے آثار نہیں نظر آتے ۔ان میں سے زیادہ تر مرحلوں میں حکمرانوں نے ناخوش اور کمزور رعایا پر غلبہ حاصل کیا ہے جن کے بعد مسائل میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے ۔ عام لوگوں کے زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ریاستی وسائل کی تقسیم بہت کم ہوئی اور اس میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کی گئی ۔ صحت اور تعلیم کے اہم شعبوں کے لیے مجموعی ملکی پیداوار کے 2 فیصد سے کچھ زیادہ مختص کیے جانے کے بعد،ایسے لوگوں سے کسی معجزے کی توقع ہی کی جا سکتی ہے جو اپنے پاس موجود وسائل کے ساتھ ذاتی بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف رہتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ مزید ذلت برداشت کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں ۔اس نے حکمران اشرافیہ اور عام شہریوں کے درمیان عدم مطابقت کو مزید بڑھانے میں بھی کردار ادا کیا ہے۔جبکہ سابقہ حکمرانوں نے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ریاستی وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے، لیکن بعد میں آنے والوں کو معاشی غلاموں کی بے حسی اور ظالم حکومتی افسروں کی بربریت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ۔معیاری قیادت کی کمی کے ساتھ ساتھ جرائم اور بدعنوانی کی گھناؤنی دنیا میں ڈوبنے کی وجہ سے ملک تنزلی کی طرف گامزن ہوتا گیا ۔ یہ خود کو ان ظالم حکمرانوں کے شکنجے سے نکالنے میں ناکام رہا ہے جن کی پرورش اہم ریاستی ادارے نے کی تھی، جو اپنے عارضی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے لامحدود طاقت رکھتے تھے۔لیکن، وقت کے ساتھ، انہوں اپنے منصوبوں یا خیالات کو تبدیل کرنے سے انکار کردیا اور خود کو منتخب کردہ لاٹ میں شامل سمجھ لیا ، جسے عوامی حکمرانی کے مقدس کام سے نوازا گیا تھا،اس طرح اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ وہ بند اور تاریک کوٹھریوں میں قید بند رہے اور روشنی کی کوئی کرن ان کی دکھی زندگیوں میں داخل نہ ہو۔ زندگی کے تلخ حقائق اور پریشانیوں سے بچنے کےلیے انہوں سے استعفیٰ دے دیا اور ان کے نام نہاد محافظ کی طرف سے جو کچھ بھی انہیں فراہم کیا گیا اس پر راضی ہوگئے ۔ایک شخص جس نے جمود کی شیطانی گرفت کو چیلنج کیا اسے مشترکہ جرائم کی سنڈیکیٹ (مشترکہ مفاد کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ افراد یا تنظیموں گروپ) کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان سب نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہاتھ ملا لیے کہ ان کو کسی طرح کمزور کیا جائے اور یہ خصوصی ثالث کے طور پر اپنے ہزارہا جرائم کے باوجود اپنی فیصلے پر قائم رہیں ۔عمرا ن خان نے بلیک میلنگ کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا اور طویل سفر کے لیے اپنے اقتدر سے الگ ہوگئے ۔کیونکہ انہوں نے مقامی آپریٹرز کے مفادات کو پامال کیا تھا۔ان کے غیر ملکی آقا کے مفادات کو بھی خطرہ لاحق تھا جن کا تعلق پاکستان کو یرغمال بنائے رکھنے سے تھا جو خطے میں اپنےذاتی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے کام کررہے تھے ۔
المیہ یہ ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے مقامی مجرمانہ سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کے اندر ان کے ہینڈلرز کے ساتھ ساتھ غیر ملکی مداخلت کار کی مرضی کے درمیان ایک وسیع مفاہمت طے پا گئی ۔ پاکستان اس وقت دہانے پر کھڑا ہے ۔عمران خان نے اپنی جنگ کو ان لوگوں تک پہنچایا جو ان کی حمایت کے لیے لاکھوں کی تعداد میں آگے بڑھے ہیں۔اس کا ترجیحی آپشن عام انتخابات کا انعقاد ہے، لیکن یہ ان مجرموں کی بالکل بھی خواہش نہیں ہے جو اس کے نتیجے میں باہر ہونے سے ڈرتے ہیں ۔
ایک ہی متبادل راستہ موجود ہے کہ لوگوں کو باہر نکلنے دیا جائے اور اپنا مبہم پیغام پہنچایا جائے کہ پاکستان مزید غیر ملکی آمریت کا تابع نہیں رہ سکتا اور ایسے فیصلے کرے گا جو اس کے اور اس کے عوام کے مفادات کے مطابق ہوں۔مطلوبہ ہدف تک کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد، ایک قدم پیچھے ہٹنا یقینی طور پر کوئی آپشن نہیں ہے۔پاکستان اپنی بحالی کی جنگ کو گلے لگانے کے لیے تیار ہے۔