حمزہ حسین

25th Sep, 2022. 09:00 am

امریکہ اب رجحان ساز نہیں رہا

ایک وقت تھا جب امریکہ، اپنی متعدد بین الاقوامی حماقتوں کے باوجود ‘اچھائی کی طاقت’ یا ایک ایسا ملک سمجھا جاتا تھا جو آزاد تجارت اور نقل وحمل  کے ذریعے انسانی ہمدردی کی مداخلتوں اور مشترکہ خوشحالی پر یقین رکھتا ہو۔  2022ء کی طرف  بڑھیں تو تصویر اس سے زیادہ واضح طور پر مختلف نہیں ہوسکتی تھی۔ بائیڈن انتظامیہ کے تحت، امریکہ اپنے تاریخی رجحان ساز مومینٹم سے پیچھے ہٹ رہا ہے جہاں اس کے تمام تر تسلط پسندانہ طریقوں کے باوجود بھی اس نے سازگار منظوری کی درجہ بندی سے فائدہ اٹھایا۔ آج، ملک کو جمہوریت، رواداری، تکثیریت اور بقائے باہمی کے  نمونے( ماڈل ) کے طور پر قابل رشک نہیں سمجھا جاتا ، بلکہ تصادم کو  بڑھاوا، دوسری ریاستوں کو شیطانیت کی طرف دھکیلنے اور سرد جنگ کی باقیات  کو فروغ  دینے کے رجحان کی حامل ایک ’ مس فائرنگ‘ سپرپاور کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس نے جغرافیائی سیاسی بنیادوں پر ملکوں کو تقسیم کیا۔ 2022ء میں، واشنگٹن ڈی سی کو اب رجحان ساز نہیں سمجھا جا سکتا۔

وجوہات واضح ہیں۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ امریکہ کی گرتی ہوئی اقتصادی طاقت اور چین جیسی علاقائی طاقتوں کے عروج کو امریکہ کی زوال پذیر منظوری کی درجہ بندی کی بڑی وجہ سمجھیں گے، مگر بعض متغیرات اس کے  برعکس تجویز کرتے ہیں۔ امریکہ اب  گلوبل ورلڈ آرڈر کی قیادت نہیں کررہا  جو ایک سبب  تھا کہ واشنگٹن ڈی سی کو بے مثال سپر پاور کیوں سمجھا جاتا رہا ہے۔

اٹلی اور پولینڈ میں پاپولسٹ رجحانات کے ساتھ ساتھ ہنگری میں وزیر اعظم وکٹر اوربان کی حکومت کے ساتھ یورپ میں تقسیم پائی جاتی ہے، جو امریکہ کے متعصبانہ مفادات کے ساتھ کھلی وفاداری کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے ایک دھوکہ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ نیٹو ایک بڑی حد تک متحد قوت بنی ہوئی ہے، لیکن روس سے کس طرح بہتر طریقے سے نمٹا جائے، روسی تیل کی درآمدات اور کیف کو یوکرین کی جنگ کے لیے جدید ترین ہتھیاروں کی فراہمی کے ذریعے طاقت کے استعمال جیسے معاملات پر اس کی تقسیم بڑھ گئی ہے۔ امریکہ  اکثر مطلق العنانیت، استبداد اور آمریت کے خلاف، بالخصوص روس اور مشرقی محور کے خلاف یورپ کی متحد آواز کا مرکزی محور ہونے کے طور پر فخر کرتا رہا ہے ، لیکن یہ ساکھ بدستور  گرتی جا رہی ہے۔

اسی طرح، مشرقی ایشیا میں، بحیرہ جنوبی چین میں ابھرنے والے متعدد بحرانوں کی بڑی وجہ امریکہ کی بھاری  عسکری موجودگی اور جارحانہ نظریات کو قرار دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر تائیوان کو ہی لے لیجیے، جہاں امرکی ایوان کے اسپیکر اور متنازعہ قانون سازوں کے بار بار دورے نے صرف تناؤ ہی بویا ہے اور جزیرے ( تائیوان) کے سرزمین چین کے ساتھ پرامن اتحاد کو روکا ہے۔ یہاں تک کہ تجربہ کار سفارت کار ہنری کسنجر نے بھی چین اور امریکہ کے درمیان ہونے والے متعدد مشترکہ اعلانات کے پیش نظر کہا کہ امریکی حکمت عملی  میں تاریخی حساسیت کا فقدان ہے۔

1972ء کا شنگھائی مشترکہ اعلامیہ واضح طور پر امریکہ کے  ‘ون چائنا’ پالیسی کا احترام کرنے اور خطے میں امن و استحکام کو نقصان پہنچانے والی کارروائیوں سے گریز کے عہد کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے تاہم، اس حقیقت کے باوجود کہ کسنجر اور رچرڈ نکسن کے دور میں تعلقات میں بہتری کی کوششیں بڑی حد تک کامیاب رہی تھیں، ایسی تاریخی نظیروں کو نظر انداز  کردیا۔ تائیوان کے بارے میں حکمت عملی علیحدگی پسندوں کو اکسانا، ترغیب دینا اور انھیں مسلح کرنا ہے جس میں سائی انگ وین حکومت بھی شامل ہے۔ یہ حکمت عملی بیجنگ کی ناراضگی کا باعث ہے۔

Advertisement

شمالی کوریا کی صورتحال بھی اس سے  مختلف نہیں ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے ایک بار بھی ثالثی یا بات چیت کے ذریعے جزیرہ نما کوریا کے بحران کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی  جہاں ان کے پیشرو، سفید فام بالادستی کے حامی، تنہائی پسند ٹرمپ نے بھی مصنوعی مگر مصالحتی لہجہ اپنایا تھا۔ پیانگ یانگ مسلسل بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں (ICBMS) کے تجربات کررہا ہے، جس سے علاقائی استحکام کو خطرہ ہے اور جزیرہ نما کوریا میں  ایٹمی طاقت  کا توازن بگڑ گیا ہے۔ امریکی یقین دہانیوں کی وجہ سے سیول کو جو جوہری چھتری حاصل ہے وہ بدستور نازک ہے کیونکہ شمالی کوریا امریکہ کی طرف سے کسی بھی اقدام کو دشمنی اور شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

جہاں پیانگ یانگ بین الاقوامی برادری میں اچھوت بنا ہوا ہے، وہیں امریکہ اختلافات کو ہوا دے کرانتہائی منحرف حکومتوں کو بھی جارحانہ اقدامات کرنے پر اکسا رہا ہے۔شمالی کوریا کی جوہری انتباہات جنہیں واشنگٹن  محض دھوکا دہی سمجھتا ہے، ایٹمی طاقت نہ رکھنے والی حکومت کو بھی کمزور کر رہے ہیں جسے  قائم اور مضبوط رکھنے کے لیے دنیا بھر کے ممالک نے بھرپور کوشش کی ہے۔

جب یوکرین کی جنگ کی بات آتی ہے تو روسی سامراج کے سامنے امریکہ کی مسلسل جارحانہ بیان بازی اس بات کی علامت ہے کہ تنازعہ ناقابل حل رہے گا۔ جدید ترین ہتھیاروں کی فراہمی، متعصبانہ جنگ کے لیے حمایت اور نیٹو ریاستوں کو اقتصادی طور پر روس کا مقابلہ کرنے کے لیے اکٹھا کرنا ایک غلط نقطہ نظر کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روس کے حملے اور ڈونیٹسک اور لوہانسک کے علاقوں میں ریفرنڈم کے ذریعے الحاق کی کوشش قابل مذمت ہے، لیکن تنازعات کے خاتمے کے لیے تعمیری حل تلاش کرنے میں ناکامی امن کے امکانات کو کم کر رہی ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے، ترکی، سینیگال اور قطر کی قیادتوں کے برعکس، ایک بار بھی امن اور بات چیت کا مطالبہ نہیں کیا۔ اس کا خیال ہے کہ معاشی طور  پر مشکلات کا شکار ہونے کے بعد روس آخرکار سلامتی کی یقین دہانیوں کے بغیر مغربی مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیک دے گا۔ یہ محض خام خیالی ہے اور کچھ بھی نہیں۔ یوکرین کی جنگ طول پکڑ رہی ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑے چیلنجوں جیسے کہ قرن افریقہ میں خشک سالی اور پاکستان میں شدید سیلاب کے درمیان غذائی تحفظ کے سنگین بحران کو مہمیز کررہی ہے۔

بین الاقوامی قیادت کے اس بحران نے امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے اور یہ قلیل المدتی قیادت کے باوجود بالغ نظر ہونے کے تاریخی تصورات سے شدید انحراف ہے۔ عالمی نظام کی تعریف کا تعین اب وسیع پیمانے پر پاپولزم، یکطرفہ نظام ( یونی لیٹرل ازم)، پالیسی منصوبہ بندی کی کمی اور سیاسی، عسکری اور اقتصادی محاذوں پر زیادہ عدم تحفظ سے ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے معاشروں میں کثیرالجہتی اداروں پر اعتماد ڈگمگا رہا ہے کیونکہ عالمی برادری کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل مسائل کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کی صلاحیت پر شکوک و شبہات زیادہ ہیں۔ امریکہ اب خود کو قواعد پر مبنی آرڈر کا چیمپئن نہیں سمجھ سکتا کیونکہ اس کا گرتا ہوا اثر اس کی کوتاہیوں کا ثبوت ہے۔

مصنف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں

Advertisement

Next OPED