رؤف حسن

15th Oct, 2022. 06:43 pm

جب ریاست جرائم کا لبادہ اوڑھتی ہے ۔۔۔

میرے ایک دوست ہیں جنہوں نے دنیا کا سفر کیا اور کافی خوش قسمت رہے۔ ادھیڑ عمری میں اُنہوں نے پاکستان لوٹنے اور یہاں آباد ہونے کا فیصلہ کیا۔ میں نے حیران ہو کر اُن سے اِس وجہ کے بارے میں پوچھا جس نے اُنہیں کبھی واپس نہ آنے کے سابق عزم کو بدلنے پر اُکسایا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے یورپ سے لے کر ایشیا اور افریقا تک پھیلے ہوئے درجن بھر سے زائد ممالک میں کاروبار کیا ہے، لیکن اُنہیں کوئی ایسی جگہ نہیں ملی جو واقعی کسی غیرقانونی عمل یا جرم کو جائز قرار دے۔ یہ صرف پاکستان ہی ہے جہاں اگر آپ کے پاس کافی پیسہ اور اِس کے نتیجے میں ملنے والی طاقت ہو تو آپ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

برسوں سے اِس بیان کی وُسعت مجھ پر آشکار ہوتی رہی۔ پاکستان درحقیقت ایک بدقسمت ملک ہے جسے جرائم پیشہ افراد (مافیاز) اور گروہ (کارٹل) چلاتے ہیں۔ انہوں نے ریاست کا محاصرہ کر رکھا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کا گھیرا مزید سخت ہوتا جا رہا ہے۔ اس ناسور کے سنگین مظاہر روزانہ کی بنیاد پر ہمارے سامنے آ رہے ہیں کیونکہ مجرموں کی ٹولیاں اپنے سنگین جرائم سے پاک ہو کر چلی جاتی ہیں جن کے ناقابلِ تردید ثبوت تحقیقاتی اداروں کے پاس موجود ہیں۔ ایف آئی اے کے معطل اسپیشل پراسیکیوٹر سکندر ذوالقرنین کا یہ بیان کہ اُنہیں ان کے ڈائریکٹر جنرل نے 10 اپریل کو، جس دن شہباز شریف اور حمزہ شہباز بالترتیب وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھال رہے تھے، اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے مقدمات میں فردِ جرم عائد کرنے کے لیے عدالت میں پیش نہ ہونے کا حکم دیا تھا جو فرض سے سنگین غفلت اور جرائم میں ملوث ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ خود اعترافی مجرم اور مفرور اسحاق ڈار جسے اُس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے سرکاری طیارے میں ملک سے باہر جانے میں مدد دی تھی، ملک کے وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے کے لیے دھوم دھام سے واپس لایا گیا ہے جو اِس سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ کسی عدالت میں کوئی ہل جُل نہیں ہوئی، کوئی توہین کا نوٹس نہیں دیا گیا ہے۔

احتساب عمران خان کی جماعت کے منشور کے بنیادی ستونوں میں سے ایک تھا۔ جب وہ اقتدار میں آئے تو اُنہوں نے اس پر عمل درآمد کے لیے دلیرانہ اقدامات کیے قطع نظر کہ کسی کے پاس کتنی بھی طاقت یا کالا پیسہ ہو۔ وہ چاہتے تھے کہ ہر ایک کو قانون کے دائرے میں لایا جائے اور وہ اُن جرائم کے لیے جوابدہ ہوں جو اُنہوں نے برسوں اقتدار کے دوران کیے ہوں۔ جب اُنہوں نے اِس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تو ریاست اور اس کے ادارے اسے روکنے کے لیے کود پڑے۔ کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دیا، کوئی عملی اقدام نظر نہیں آرہا تھا۔

بہت بعد میں اس کی وجوہات واضح ہو گئیں۔ یہ خان نہیں تھے جو ملک کے منتخب وزیر اعظم کے طور پر اقتدار میں تھے۔ اس اختیار کو نادیدہ قوتیں استعمال کر رہی تھیں جو سائے میں چھپنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ مجرم نواز شریف کو ملک سے باہر لے جانے کے لیے فرضی میڈیکل سرٹیفکیٹ بنانے سے لے کر اُن کی بیٹی کو اپنے نام نہاد بیمار باپ کی دیکھ بھال کے لیے عبوری ضمانت دینے اور بعد کے سالوں میں واپس نہ لینے تک، شریف اور زرداری گروہ اور اُن کے حواریوں سے متعلق متعدد مقدمات کی سماعت میں تاخیر تک، اِن قومی مجرموں کو چھڑانے کے لیے تقریباً ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ اِن اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود خان نے ہار ماننے سے انکار کر دیا چنانچہ وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی گُنجائش کم ہوتی چلی گئی۔

چونکہ وہ پاکستان کی آزادی کو بحال کرنے اور ریاست اور اس کے عوام کے فائدے کے لیے اس کے اختیار پر زور دینے کے دائرہء اثر میں بھی داخل ہو چکے تھے، اس لیے اُن کی موجودگی اُس غیر ملکی آقا کے لیے بھی پریشان کن ہو گئی تھی جو طویل عرصے سے یہ حکم دے رہا تھا کہ پاکستان کیا کر سکتا ہے یا کیا نہیں کر سکتا۔ اس فروخت کا آغاز آزادی کے فوری بعد ہی کر دیا گیا تھا جس نے آنے والی دہائیوں کے دوران پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت متعین کی تھی جس میں سابق سوویت یونین اور دہشت گردی کے خلاف جنگوں میں بہت بڑا جانی و مالی نقصان اٹھانا شامل تھا۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ملک پر روایتی طرزِ حکمرانی خان کی موجودگی میں مزید ممکن نہیں رہا، غیر ملکی آقا اور اُس کے مقامی ساتھیوں نے عدم اعتماد کا ووٹ لے کر انہیں بے دخل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس سلسلے میں امریکا میں پاکستانی سفیر نے میزبان ملک کے ایک سینیئر اہلکار کی طرف سے دیا جانے والا سائفر جس میں تفصیل سے خطرے کی نشاندہی کی گئی تھی، بھیجا تھا۔

Advertisement

خان کو ایک ووٹ کے ذریعے معزول کیا گیا تھا جو پی ٹی آئی کے کچھ غیر اہم اراکین کو زبردست لالچ دے کر ممکن ہوا تھا۔ ملک کا پورا ادارہ جاتی جال خان کی قانونی، جمہوری اور آئینی حکومت کو ختم کرنے اور اس کی جگہ ملزموں، مجرموں اور مفروروں کو حکومت میں لانے کی سازش کا حصہ تھا جو فوری طور پر خود کو سنگین جرائم کی بہتات سے مستقل نجات دلانے کے لیے نکل پڑے۔ اس طرح پاکستان نے ایک اور مشکوک انفرادیت حاصل کی، یہ واحد ملک بن گیا جہاں بااثر مجرم پہلے اقتدار سنبھالنے کے لیے ہتھکنڈے استعمال کر سکتے ہیں اور پھر جج کے طور پر اپنے مقدمات کو عدالتوں سے باہر پھینکنے کے لیے اس عہدے کا استحصال کرتے ہیں۔

ملک کے بڑے میڈیا اداروں نے اس دلخراش صورتحال کے نفاذ میں جو کردار ادا کیا ہے وہ قابلِ مذمت ہے۔ سرکردہ اداروں اور ان کے ایجنڈے پر چلنے والے کارندوں نے جعلی خبروں کا ایک خوفناک حملہ کیا تاکہ لوگوں کو واضح طور پر جھوٹی باتوں کا یقین دلایا جا سکے۔ مجرم گروہوں کی حمایت میں ایک بیانیے کو فروغ دینے کے لیے من گھڑت خبریں بھی تراشی گئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نظام کو اس طرح سے تیار کیا گیا ہے کہ اِس میں ہر عامل کو اپنے کیے کا حصہ مل جاتا ہے جو اُنہیں خاموش رکھتا ہے۔ یہ نظام ایک وسیع اور زہریلے جرائم پیشہ گروہ کی تشکیل کرتا ہے جس نے ہر انتظامی شعبے میں اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں۔

کہاں ہیں وہ انصاف دینے والی عدالتیں؟ کہاں ہے وہ افسرِ شاہی (بیوروکریسی) جسے حکمرانوں کی نہیں، ریاست کی خدمت کرنی ہے؟ کہاں ہیں وہ ادارے جن کا فرض حکمرانی کے تمام پہلوؤں میں شفافیت کو یقینی بنانا ہے؟ کہاں ہے وہ میڈیا جو خود کو ریاست کا چوتھا ستون کہتا ہے؟ کہاں ہیں وہ قانون ساز جنہوں نے اپنا ضمیر بیچنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح اپنے عہدے کے حلف کی خلاف ورزی کی؟ یہ عوام کی عدالت میں برہنہ کھڑے ہیں۔ انہوں نے ریاست کو بھی جرائم کا لبادہ اوڑھنے پر مجبور کر دیا ہے۔

لیکن وقت بدل چکا ہے۔ عوام نے جرائم کے اِس گھٹیا تماشے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کی آواز دنیا بھر میں گونج رہی ہے۔ یہ ایک ہلچل، ایک مُتحرّک تحریک کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ مُشکل یہ نہیں کہ خان کو دوبارہ اقتدار میں کیسے لایا جائے، مُشکل یہ ہے کہ ایسا پُرامن ذرائع سے کیسے کیا جائے۔

پاکستان کو ایک ایسے ہی لمحے کا سامنا ہے، یہ ایک عظیم لمحہ ہے۔

Advertisement

Next OPED