حنان آر حسین

26th Feb, 2023. 09:00 am

حقیقت سے انکار

مُصنّف خارجہ اُمور کے مُبصر اور فُل برائٹ

ایوارڈ یافتہ ہیں۔

بھارت کی دائیں بازو کی سخت گیر ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنے غیر قانونی قبضے کے حقائق کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچنے سے روکنے کے لیے بڑا زور لگا رہی ہے۔

اس کریک ڈاؤن کی تازہ ترین مثال کشمیر کے بارے میں انتہائی حساس دستاویزات کو افشا ہونے سے روکنے کے لیے ایک مربوط مہم ہے۔ بوچر پیپرز (Bucher Papers) کہلائے جانے والے ان دستاویزات کی ملکی سماجی کارکنوں اور غیر ملکی طاقتوں دونوں کے لیے دستیابی کو پہلے ہی مقبوضہ جموں و کشمیر میں استحکام کے جھوٹے بھارتی بیانیے کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ بھارتی قانون کے مطابق اِن دستاویزات کی تمام تر شفافیت کے پیش نظر ان کا افشا ہونا افسانے سے حقیقت کو تقویت دینے کے لیے اہم ہے۔

بی جے پی کی اِن دستاویزات کے جاری کیے جانے کو روکنے کی مہم اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کی مہم کی علامت ہے۔ مراعات یافتہ ذرائع بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کو ملوث کرتے ہوئے اس بات کے ناقابلِ تردید ثبوت سامنے لا سکتے ہیں کہ نئی دہلی 1947ء سے کشمیریوں کی خودمختاری کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادانہ جانچ پڑتال کو پسِ پشت ڈالنے کے لیے کی گئی چال بازیوں کو دیکھتے ہوئے دستاویزات کا اجراء روکنے کے لیے قانون توڑے جانے کی فوری شدید مذمت کی جانی چاہیے۔ یہ امکان کہ خطوط کشمیر پر نئے فوجی اور سیاسی دلائل قائم کریں گے، نئی دہلی کے اس غلط اصرار کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے کہ بھارت مسئلہء کشمیر کو کسی نہ کسی طرح درست سمجھتا ہے اور یہ کہ علاقائی قبضے کی کوئی بھی دستاویز من گھڑت ہے۔

Advertisement

دلچسپ بات یہ ہے کہ بوچر پیپرز 1948ء اور 1949ء کے درمیان بھارتی فوج کے سیکنڈ کمانڈر انچیف کے ساتھ ساتھ نہرو سمیت سرکاری عہدیداروں کے درمیان غیر معمولی خط و کتابت پر بھی توجہ مرکوز کراتے ہیں۔ ان نکات پر غور کرتے ہوئے یہ خطوط بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے کھلواڑ کرنے کے لیے فوجی اور سیاسی مشینری کے استعمال پر گہری نظر فراہم کرتے ہیں۔ ان محرکات پر گہری نظر اس طرز کو سمجھنے کے لیے اہم ہے جس نے بی جے پی حکومت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی میں اہم کردار ادا کیا۔ اُسی وقت جب کشمیر میں بھارت کے تاریخی کردار کے بارے میں مغرب کے مفروضے کمزور پڑتے ہیں، تو یہ قبضے کا احتساب کرنے کے مقدمے کو مضبوط کر سکتا ہے۔

دستاویزات کو ہر قیمت پر عام کرنے سے معلومات تک رسائی کی آزادی کو بھی تقویت حاصل ہوگی۔ مودی حکومت کی گہری پریشانیوں کو دیکھیں کیونکہ اندیشہ ہے کہ دستاویزات کا اجراء بھارت کے خارجہ تعلقات میں بگاڑ پیدا کر سکتا ہے اور اس کے کچھ قریبی شراکت داروں میں بحث چھڑ سکتی ہے۔ کشمیر کی اصل تاریخ، اس کی خودمختاری کا تعین کرنے والوں اور بھارت کے کردار کے پسِ پردہ حقائق کو مسخ کرنے کی مذموم کوششوں کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ بی جے پی کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو غیر قانونی بھارتی ریاستی استحقاق کے طور پر سمجھے جانے کے لیے محض سیاسی سرمایہ جمع کرنے کی خاطر اس خودمختاری کی خلاف ورزی کے لیے ان گنت من گھڑت بیانیے تیار کیے گئے ہیں۔ بوچر پیپرز دنیا کو صرف آئینہ دکھاتے ہیں کہ نہرو وہی رہنما ہیں جنہوں نے کشمیریوں کی خود مختاری کے ساتھ کھڑے ہونے کا ڈراما محض فوجی حمایت سے فائدہ اٹھانے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ریاستی ہیرا پھیری کا معاملہ قرار دینے کے لیے رچایا تھا۔

یہ بات بھی ہے کہ دستاویزات کا افشا ہر نقاب کو ہٹانے کے لیے اہم ہے، خاص طور پر جب بی جے پی مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنی جبری آبادیاتی تبدیلیوں کو متنوع بنانے کی کوششیں کرتی ہے۔ دستاویزات کے اجراء کو روکنے کی مہم کی طرح ان غیر قانونی تبدیلیوں کو ریاستی پالیسی کے طور پر برتا جا رہا ہے۔ اس طرح نئی جانچ پڑتال کے ذریعے نہرو کا ابتدائی اثر و رسوخ، حکمتِ عملی اور فوجی سازشوں کا اوّلین ثبوت بھارت کے مستقل قبضے کو خطرے میں ڈالنے کے لیے اہم ہیں۔

ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی مقبوضہ کشمیر میں سچائی کو پُرتشدد ہتھکنڈوں سے دبا کر ہی فوائد سمیٹ رہی ہے۔ ایک توجیہہ یہ ہے کہ ابتدائی رہنماؤں کی مُستند مواصلت اِس وقت ہچکچاہٹ کے شکار حکومتی رہنماؤں پر مقامی طور پر کچھ ذمے داریاں لینے کا دباؤ ڈال سکتی ہے۔ مودی کے 2002ء کے گجرات قتل عام کی برطانوی خفیہ تحقیقات کے ذلت آمیز نتائج کو ہی دیکھ لیجیے۔ اِن کی مزاحمت اِس لیے کی گئی کیونکہ شواہد نے بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو رد کر دیا تھا کہ مودی کبھی بھی مسلم مخالف قتلِ عام کے مجرم نہیں رہے۔

سچائی کا یہی بم بی جے پی کی بوچر پیپرز کے اجراء سے انکار کی موجودہ مہم میں کار فرما ہے۔ یہ دستاویزات کشمیر کی خودمختاری اور اس کے نتیجے میں ہونے والی خلاف ورزیوں پر بھارت کے کھیل میں یکساں طور پر مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔ آخر یہ ایک حقیقت ہے کہ بہت سے بھارتی سماجی کارکنوں نے اِن خطوط تک رسائی حاصل کرنے کے لیے دنیا کی سب سے بڑی خود ساختہ جمہوریت پر سخت دباؤ ڈالا ہے۔ تاہم 2021ء کے بعد اُمید کی کسی کرن کی عدم موجودگی نے واضح کیا ہے کہ ملک کا انفارمیشن کمشنر بھی اوپر سے نیچے آنے والے مطلق آمرانہ دباؤ کے پیش نظر بوچر دستاویزات کے اجراء کا حکم جاری نہیں کر سکتا۔

جدید دور کے بھارت میں اس طرح کے استثنیٰ کے ماحول کا اندازہ لگانے کے لیے ایک لمحے کو سوچیں۔ کشمیر پر بھارتی حکومت کی تاریخی سوچ کو بے نقاب کرنے والی اہم دستاویزات کو عوام کے سامنے ایک نازک مسئلے کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ اور اب بھی مودی کی دائیں بازو کی سخت گیر حکومت اس تصور پر کام کر رہی ہے کہ وہ ثبوتوں کو دبا کر غیر قانونی قبضے کو معتبر ثابت کر سکتی ہے۔

Advertisement

کوئی غلطی مت کیجیے! بی جے پی کے پاس ایسا کوئی بیانیہ نہیں جو بھارت کے سب سے مشہور رہنما سے متعلق دستاویزی مواصلات پر اور کشمیریوں اور ان کی خودمختاری کے خلاف وسیع ملکی سازشوں پر پردہ ڈال سکے۔

Advertisement

Next OPED