بھارت ۔ ایشیاء کا بگڑا ہوا لڑکا
لکھاری ایک فری لانس تجزیہ کار ہیں اور بین الاقوامی اور خطے کے مسائل پر لکھتے ہیں۔
بین الاقوامی برادری میں بھارت کے رویے کی وجہ سے اس کا جو تصور پایا جاتا ہے جس کی بنا پر ہندوستان کو اکثر ’’ایشیا کا بگڑا ہوا لڑکا‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہندوستان اس ’خطاب‘ کا اہل بھی ہے۔ کیونکہ ہندوستان کی دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے معاملات میں متکبرانہ اور اپنے تئیں حق پر سمجھنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اگر بات کا آغاز کیا جائے تو بھارت خود کو جنوبی ایشیائی خطے کے قدرتی رہنما کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس کی وجہ سے اس کا اپنے ہمسایوں خاص طور پر پاکستان اور چین کے ساتھ تنازعہ پیدا ہوا ہے، کیونکہ بھارت نے خطے پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے نتیجے میں کئی علاقائی قضیے اور تنازعات جنم لے چکے ہیں، جن میں جموں و کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے پر جاری تنازعہ بھی شامل ہے، جو کئی دہائیوں سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے۔
مزید برآں، بین الاقوامی فورمز پر ہندوستان کے رویے کو اکثر متکبرانہ اور خود پرستی کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ اس سے ہندوستان کی بین الاقوامی برادری میں ساکھ ’’غارت گر‘‘ یا ’’بگاڑ پیدا کرنے والے‘‘ کے طور پر مستحکم ہوگئی ہے۔ ہندوستان کا خود کو حقدار سمجھنے کا رویہ اس کا یہ اصرار ہے کہ اسے ایک خصوصی کیس سمجھا جائے۔ وہ طویل عرصے سے بین الاقوامی برادری سے خاص طور پر اپنی اقتصادی اور تجارتی پالیسیوں کے حوالے سے خصوصی سلوک اور مراعات کا مطالبہ کرتا آرہا ہے۔ اس کی وجہ سے اس پر منافقت کے الزامات عائد ہوتے ہیں، کیونکہ بھارت اکثر وہی رعایتیں دینے کو تیار نہیں رہا جس کی وہ اپنے لیے دوسرے ممالک سے توقع کرتا ہے۔
علاوہ ازیں ، ہندوستان کو کئی اہم ملکی مسائل، جیسے وسیع پیمانے پر غربت، صنفی عدم مساوات، اور مذہبی امتیاز کو دور کرنے میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے، ہندوستان نے اکثر خود کو ایک عالمی طاقت کے طور پر پیش کرنے اور اپنے مفادات کے تحفظ پر توجہ مرکوز کی ہے، یہاں تک کہ اپنے عوام کی قیمت پر بھی۔
ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کے طور پر، ہندوستان پر اکثر علاقائی معاملات میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ اس سے مراد دوسرے ممالک یا علاقائی تنظیموں کے مقاصد کے حصول کی کوششوں میں، اکثر اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کی خاطر رکاوٹ ڈالنے کا ہندوستان کا رجحان ہے۔ اگرچہ ممالک کے لیے اپنے مفادات کو ترجیح دینا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، لیکن ایک ‘ غارت گر’ کے طور پر بھارت کے رویے کو اکثر غیرپیداواری رویے کے طور پر دیکھا گیا ہے، کیونکہ یہ رویہ دوسرے ممالک کے ساتھ تناؤ اور تنازعات کا باعث اور اہم مسائل کے حل میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
غارت گر کے طور پر بھارت کے کردار کی ایک مثال پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کی ایک طویل تاریخ ہے، اور بھارت نے اکثر اپنی اقتصادی اور فوجی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر اثر و رسوخ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر، بھارت نے اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی اداروں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے )ان اداروں میں (مزید حمایت یا شناخت حاصل کرنے کی کوششوں کو روکا ہے۔ مزید برآں، بھارت نے اپنی اقتصادی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے تجارتی پابندیاں لگا کر اور سرمایہ کاری اور عوام سے عوام کے رابطوں کو محدود کر کے پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہندوستان کے غیر قانونی طور پر زیرقبضہ جموں اور کشمیر پر ایک طویل عرصے سے علاقائی تنازعہ ہے، اور اس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان متعدد بار تصادم ہوچکا ہے اور کشیدگی پیدا ہوتی رہی ہے۔ لائن آف کنٹرول کے ساتھ اس کی فوجی کارروائیوں اور پاکستان اور چین کے خلاف اقتصادی تخریب کاری سمیت پاکستان کے خلاف بھارت کے جارحانہ موقف نے چین سے حمایت حاصل کرنے کے پاکستان کے عزم کو مضبوط ہی کیا ہے۔
اپنے اختلافات کو دور کرنے کے طریقے تلاش کرنے کے بجائے، بھارت اور پاکستان دشمنی اور بداعتمادی کے چکر میں جکڑے ہوئے ہیں، دونوں فریق ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے کشمیر جیسے مسائل پر پیش رفت کا فقدان ہے، جو دونوں ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں سے کشیدگی کا ایک بڑا ذریعہ رہا ہے۔
چین کے ساتھ تعلقات میں بھی بھارت کا کردار غارت گر کے طور پر واضح ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پیچیدہ اور زیادہ تر متنازعہ ہیں۔ ان کے درمیان ایک دیرینہ سرحدی تنازعہ اور خطے میں مسابقتی مفادات ہیں۔ ہندوستان نے اکثر دوسرے ممالک جیسے امریکہ اور جاپان کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرکے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، ان کوششوں کو اکثر حد سے بڑھی ہوئی کوششوں کے طور پر دیکھا گیا ہے، کیونکہ ان کی وجہ سے بھارت اور چین کے درمیان مزید کشیدگی اور عدم اعتماد پیدا ہوا ہے۔
پاکستان اور چین کے ساتھ اس کے تعلقات کے علاوہ، بھارت پر یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) جیسی علاقائی تنظیموں میں بھی بگاڑ پیدا کرنے والے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ تنظیم، جو جنوبی ایشیا کے ممالک پر مشتمل ہے، علاقائی تعاون اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے قائم کی گئی تھی۔
چین پاکستان اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے اہم پہلوؤں میں سے ایک اقتصادی جہت ہے۔ چین پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اور دونوں ممالک نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) سمیت بنیادی انفرا اسٹرکچر کے کئی بڑے منصوبوں پر مل کر کام کیا ہے۔ اس اہم منصوبے کا مقصد پاکستان میں گوادر کی بندرگاہ کو سڑکوں، ریلوے اور تیل کی پائپ لائنوں کے نیٹ ورک کے ذریعے چین کے سنکیانگ کے علاقے سے جوڑنا ہے۔
توقع ہے کہ CPEC سے پاکستان کی معیشت کو بڑا فروغ ملے گا اور یہ منصوبہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) میں ایک کلیدی کڑی کے طور پر بھی کام کرے گا، جس کا مقصد بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے وسیع نیٹ ورک کے ذریعے ایشیا، یورپ اور افریقہ کو باہم منسلک کرنا ہے۔ دونوں ممالک کے اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ دیرینہ علاقائی تنازعات ہیں، اور انہوں نے ان مسائل کو حل کرنے اور اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے مل کر کام کیا ہے۔ چین نے پاکستان کو اہم فوجی امداد فراہم کی ہے، اس کی مسلح افواج کو جدید اور دفاعی صلاحیتوں کو بہتر بنایا ہے۔
ان اقتصادی اور سیکیورٹی تحفظات کے علاوہ، چین پاکستان اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے لیے سیاسی اور نظریاتی اقدار سے مشترکہ وابستگی بھی محرک کی حیثیت رکھتی ہے۔ دونوں ممالک استحکام اور قومی اتحاد کو ترجیح دیتے ہیں، اور انہوں نے مشرق وسطیٰ میں مغربی مداخلت کی مخالفت اور ترقی پذیر ممالک کے حقوق کی حمایت سمیت متعدد بین الاقوامی مسائل پر ایک دوسرے کی حمایت کی ہے۔
چین پاکستان تزویراتی شراکت داری (اسٹریٹجک پارٹنرشپ) کی ایک طویل تاریخ ہے، جو 1950 ء کی دہائی سے شروع ہوتی ہے جب دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، شراکت داری مضبوط اور گہری ہوئی ہے، چین پاکستان کو فوجی امداد، اقتصادی اور سیاسی مدد فراہم کرتا ہے۔ اس شراکت داری کا ایک اہم محرک ہندوستان کی طرف سے سمجھا جانے والا خطرہ رہا ہے۔ چین اور پاکستان دونوں ہی بھارت کو ایک علاقائی حریف کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس کے نتیجے میں انہوں نے بھارت کے اثر و رسوخ اور طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اسٹریٹجک اتحاد بنایا ہے۔ علاقائی سفارت کاری میں بگاڑ پیدا کرنے والے ملک کے طور پر ہندوستان کے کردار نے اس اتحاد کو مزید تقویت دی ہے۔
امریکہ کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اور فوجی تعلقات کو بھی چین اور پاکستان دونوں کی طرف سے خطرے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ امریکہ چین کا کلیدی حریف ہے، اور امریکہ کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے اتحاد نے چین کے خدشات میں اضافہ ہی کیا ہے۔ اس کی وجہ سے چین نے پاکستان کے ساتھ اپنی اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط کیا ہے، تاکہ بھارت اور امریکہ کے خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے۔
مزید برآں، علاقائی معاملات میں ہندوستان کی بڑھتی ہوئی جارحیت کو بھی چین کے مفادات کے لیے ایک چیلنج کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ بھارت بحر ہند میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھا رہا ہے اور اس سے بیجنگ میں بھارت کے ارادوں کے بارے میں تشویش پیدا ہو گئی ہے۔ اس کے جواب میں چین نے پاکستان کے ساتھ اپنے فوجی تعلقات کو مضبوط کیا ہے جس میں پاکستان کو جدید ہتھیاروں کے نظام اور فوجی تربیت فراہم کرنا شامل ہے۔
علاقائی سفارت کاری کے غارت گر کے طور پر ہندوستان کے کردار نے چین پاکستان اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو مضبوط ہی کیا ہے۔ پاکستان کے خلاف ہندوستان کے جارحانہ موقف اور امریکہ کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے اتحاد کو چین اور پاکستان دونوں کی طرف سے خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور اشتراک میں اضافہ ہوا ہے۔ نتیجتاً، چین پاکستان اسٹریٹجک پارٹنرشپ ہندوستان کے اقدامات کی وجہ سے مزید مضبوط ہوئی ہے۔ مجموعی طور پر، بین الاقوامی برادری میں ہندوستان کے رویے کی بنا پر اس کی ساکھ ایک مشکل اور ناقابل بھروسہ ساتھی کی ہوگئی ہے۔