سفر بلا منزل
مصّنفہ ایک کالم نگار، مشیر، کوچ اور تجزیہ کار ہیں۔
وزیر خزانہ کے خلاف چارج شیٹ، معیشت کو کس طرح منظم کیا جا رہا ہے اس پر سخت تنقید، اور جوابی کارروائی… اس طرح کے الزامات اور جوابی الزامات اس وقت معمول کی بات ہے جب کوئی اپوزیشن موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کر رہی ہو۔ لیکن یہ الزامات یقینی طور پر اس صورتحال کی برابری نہیں کرسکتے جب ایک حکمران جماعت کے دو ارکان – اس معاملے میں، موجودہ حکومت کے حالیہ اور سابق وزیر خزانہ – اس بات پر جھگڑنے لگیں کہ اس خرابی کا ذمہ دار کون ہے۔ حکومتی معاملات کی یہ تو حالت ہے۔ پہلے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک روزنامے میں مضمون لکھا جس میں معیشت کو درپیش خطرات پر روشنی ڈالی گئی، جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ موجودہ معاشی ٹیم اس صورتحال کی ذمہ دار ہے۔ پھر، اس کے بعد انٹرویوز میں، موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مفتاح اسماعیل کے الزامات کی تردید کی اور ان پر جوابی الزام لگا دیا۔
یہ شاید شہباز شریف کی کچن کیبنٹ کے ارکان کی ناکامی کا واضح ترین اعتراف ہے۔یہ اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ حکومت کتنی بے خبر ہے، یہ معیشت کے آزادانہ زوال کی طرف بھی اشارہ ہے، جو، معلوم ہوتا ہے کہ ، جلد یا بدیر ملک کو تقریباً ناگزیر دکھائی دینے والے دیوالیہ پن سے دوچار کردے گا ۔
مخلوط حکومتوں کو سنبھالنا اور کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ پی ڈی ایم سب کا نہیں صرف ان چند جماعتوں کا نیٹ ورک ہے جو اہمیت رکھتی ہیں۔ 13 فریقین کو راضی کرنا، خوش رکھنا، اور خدمت کرنا مشکل اور بہت مہنگا ہے۔ اس پیچیدگی میں اضافہ یہ حقیقت ہے کہ مرکزی حکمران جماعت خود دو خاندانی تقسیموں میں بٹی ہوئی ہے۔ یہ بات اب کھل کر سامنے آچکی ہے کہ مسلم لیگ (ن) لندن اور مسلم لیگ (ن) پاکستان بہت سے معاملات پر یکساں موقف نہیں رکھتیں۔ پارٹی امور کے حوالے سے بالادستی قائم کرنے کے لیے جاری رسہ کشی ہمیشہ سے واضح رہی ہے۔ لیکن دور دراز کے ساحلوں سے پالیسیوں پر حکومت کرنے کی جنگ اب رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے جو پروسس کو عملی طور پر غیر فعال بنا رہی ہیں۔ ملک کی معاشی بدانتظامی سے زیادہ نقصان کا اندازہ اور کہیں نہیں ہوتا۔ اس سے حکومت میں شامل تمام 13 پارٹیاں متاثر ہوئی ہیں اور ہوں گی۔ اور اس کا اثر ن لیگ کے سیاسی سرمائے پر بھی پڑے گا۔ اگرچہ یہ نوشتہ دیوار ہے، مگر اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) بظاہر وہی کرنا چاہتی ہے جو وہ کرتی رہی ہے – یعنی مرتے دم تک سیاست کرکے اتحادیوں کا حصہ بنتی ہے۔
شہباز شریف حکومت کے اپنے یقینی زوال کی طرف بڑھنے کی وجوہات کئی عوامل کی مرہون منت ہیں۔
اقتصادی اشارے پیش گوئیوں پر مبنی ہیں۔ پیش گوئی رجحانات اور قیاس آرائیوں پر مبنی ہوتی ہے۔ جیسے جیسے رجحانات جنم لیتے ہیں اور معیشت کی مستقبل کی شکل کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہوتی ہیں، معیشتیں ڈگمگاتی ہیں اور زمین بوس ہوجاتی ہیں۔ کووڈ 19 طلب اور رسد کی بندش اور پھر قیمتوں میں ایک ناگزیر اضافے کا سیدھا سادہ معاملہ تھا۔ اس کی وجہ سے دنیا بھر کی معیشتوں پر بڑا دباؤ پڑا۔ پاکستان نے بہت سے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا کیونکہ 2020ء-2021ء میں اس جی ڈی پی کی شرح نمو 5اعشاریہ74 فیصد ریکارڈ ہوئی، جو 2021ء-2022ء میں بڑھ کر 6 فیصد ہو گئی۔
تو، کووڈ کے زوال کے ساتھ، 2022ء-2023ء میں شرح نمو 1 فیصد سے کم کیوں ہو گئی؟وجہ سیاسی بے یقینی ہے۔ حکومت کی تبدیلی اچانک، غیر مقبول اور متنازعہ تھی۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے امنی اور حزب مخالف اور پاکستانی عوام کے ردعمل نے مستقبل کو غیر یقینی اور غیر متوقع بنا دیا ہے۔ حکومت ایسی معاشی پالیسیاں بنانے میں ناکام رہی ہے جو ملک میں معاشی بحالی یا سماجی بہبود کی کوئی ضمانت فراہم کرتی ہوں۔ فِچ، موڈیز اور ایس پی جیسی بڑی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی ریٹنگ منفی کردی ہے۔ آئی ایم ایف نے ہمیں مزید قرض دینے سے انکار کر دیا ہے۔ جب آئی ایم ایف ہاتھ کھینچ لیتا ہے تو دوسرے قرض دینے والے ادارے بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں روپے پر دباؤ پڑا ہے اور مزید پڑے گا اور اس کی قدر میں مزید کمی آئے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ افراط زر اور زرمبادلہ کے ذخائر وغیرہ پر بھی اس کا اثر ہوگا۔ اس کے نتیجے میں سیاسی بے چینی بڑھے گی ، جس سے مزید غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گی، اور معیشت اور زیادہ زوال کا شکار ہوگی۔ اگر ہم نے زندہ رہنا ہے تو اس شیطانی چکر کو ختم کرنا ہوگا۔ حکومت کسی معجزے کی امید کر رہی ہے۔ کچھ معجزاتی صورتحال پیدا ہوبھی چکی ہے جیسے کہ تیل کی قیمت 80 امریکی ڈالر سے نیچے آگئی، لیکن حکومت عوام کو کوئی ریلیف دینے سے قاصر ہے ، اور دوسری جانب مقامی اور عالمی دونوں طرح کے سرمایہ کار اور قرض دہندگان گریز اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اور پھر بھی، محصولات میں تقریباً کوئی اضافہ نہ ہونے اور غیر ترقیاتی اخراجات میں بہت زیادہ اضافے کے ساتھ، اس خسارے کا واحد علاج مزید قرض لینا ہے۔ اور اس طرح، قرض لینے کے لیے دوسرے ذرائع کی تلاش کرنا ہے۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے لیے امداد ایک ایسا شعبہ ہے جہاں حکومت سرگرم عمل ہے۔ اس نے ایک تخمینہ آئی ایم ایف کو بھیجا جسے غیر مصدقہ ہونے کی بنیاد پر فوری طور پر مسترد کر دیا گیا۔ وزیر اعظم کی دنیا بھر کے ممالک اور ایجنسیوں سے اپیلیں مسلسل پریشانی میں مبتلا لڑکی کی یاد تازہ کر رہی ہیں۔ اور اگر انہیں فنڈز مل جاتے ہیں، تو حکومت اس امداد کا اعلان ایک بڑی اقتصادی کامیابی کے طور پر کرتی ہے جو انہوں نے حاصل کیا ہے۔ مثال کے طور پر، COP 27 میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کے لیے عالمی” Loss and Damage Fund ”کے قیام پر خوشی۔ یہ بلاشبہ ایک اچھا قدم تھا، لیکن دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ شجرکاری )موسمی تغیر کے اثرات کم کرنے کی (وہ طویل مدتی تخفیفی حکمت عملی ہے جس پر ہمیں توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی بجٹ میں 30 فیصد کمی کرکے، حکومت نے حقیقت میں ایک واضح اشارہ دیا ہے کہ اس کے پاس کوئی اندرونی موسمیاتی حکمت عملی نہیں ہے، اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اس کا انحصار صرف بیرونی فنڈ حاصل کرنے کی پالیسی پر ہے۔ اس کے نتیجے میں عطیہ دہندگان کنارہ کش ہوگئے ہیں اور ہوتے رہیں گے، جب کہ قرض دینے والے ادارے بھی ہاتھ تھامنے سے گریزاں ہیں اور ان کا یہ گریز باقی رہے گا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا، اس سے مفتاح اسماعیل ہمیں پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں: یعنی بالآخر دیوالیہ پن۔
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی انجنیئرنگ اسٹیبلشمنٹ نے کی۔ اس نے ایم کیو ایم، بی اے پی اور ان ) عمران خان (کی دیگر حامی جماعتوں کو حکومت سے الگ کرکے 13 جماعتی اتحاد، پی ڈی ایم میں شامل کردیا جس کی اب حکومت ہے۔ اس اتحاد کی نوعیت ایسی تھی کہ اس کے آغاز ہی سے انتشار پھیلنا اور احتساب کے فقدان کا ہونا یقینی تھا۔ اس بات کو یقینی سمجھیں کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی حکومت کے تسلسل کو یقینی بنائے گی۔ موجودہ حکمرانوں کی توجہ صرف اور صرف اس قانون سازی پر مرکوز رہی ہے جس کا مقصد عوام کے بجائے خود انہیں ریلیف فراہم کرنا ہے ۔ نیب قوانین میں اس طرح ترمیم کی گئی کہ ان کے خلاف تمام ریفرنسز خارج ہو گئے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کا حق کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں، انہیں یقین ہے کہ انہوں نے اپنی نشستیں پکی کر لی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اس حقیقت کو نظرانداز چکے ہیں کہ انہیں کم از کم کسی حد تک کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ انتخابات جلد یا بدیر ہو ہی جائیں گے، اور امکان ہے کہ انتخابات جیتنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ پر ان کا انحصار کام نہیں آئے گا جیسا کہ 17 جولائی اور 16 اکتوبر کے انتخابات میں ثابت ہوچکا ہے۔
حکومت کی سب سے زیادہ دل چسپی اس بارے میں ہے کہ کسی طرح عمران خان سے جان چھوٹ جائے ۔ ان کے اجلاسوں، کانفرنسوں، بیانات، پریس کانفرنسوں، ٹاک شوز وغیرہ سب کا مقصد مائنس عمران حکمت عملی کو جائز قرار دینے کے طریقے وضع کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اب انہوں نے اسے تکنیکی بنیادوں پر کسی نہ کسی طرح نااہل قرار دینے کے لیے قانونی جادوگری شروع کر دی ہے۔ اس مقصد کے لیے ای سی پی، ایف آئی اے اور نیب جیسے اداروں کو ایسے کیسز/ریفرنس کی تیاری میں مشغول کرنے پر زیادہ وقت صرف کیا جارہا ہے جو عمران خان کو نااہل کرواسکیں۔
آخر کار یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ اس حکومت کی قسمت اور اس ملک کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے سابق سربراہ کی طرف سے کیے گئے فیصلے انہی پر بھاری پڑ گئے۔ عمران خان کی مقبولیت اور عوامی ردعمل کے حوالے سے لگائے گئے غلط اندازوں سے ناگوار جھٹکا لگا۔ لیکن غلطی کو سدھارنے میں بہت دیر ہو چکی تھی۔ تاہم اس حقیقت کا ادراک کیا جاچکا ہے ، اور بند دروازوں کے پیچھے اس پر بحث کی گئی ہے، جیسا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ارکان نے انکشاف کیا۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ اصلاح کیوں نہیں کی گئی؟
سب کی نظریں اب سیاسی بساط، حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان کھیل پر ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ پہلے کون پسپا ہوتا ہے۔






