حنان آر حسین

18th Sep, 2022. 09:00 am

عراق، عدم استحکام کے خاتمے کی کوششیں

اُس تنازع کا جو کبھی فرقہ وارانہ اثر و رسوخ سے بری طرح متاثر تھا، عراق کی تاریخ میں ایک مُشکل ترین باب بننے کا خطرہ ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حریف شیعہ گروپ ایک ایسے ملک میں اثر و رسوخ، طاقت اور ملکیت کے لیے لڑ رہے ہیں جس نے اِن سب کے بہت شدید اور جزوی طور پر واشنگٹن کے دہائیوں پرانے قبضے کے نتائج بھگتے ہیں۔ مشرقِ وُسطیٰ میں پائیدار امن کی تلاش جاری ہے۔

بغداد میں حریف عراقی افواج کے درمیان تیزی سے بڑھتی مہلک کشیدگی میں پورے خطے کو چوکنا رہنا چاہیے جس کے نتیجے میں دو درجن سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ عراق کی حالیہ پُرتشدد جھڑپوں کے بنیادی محرکات میں دہائیوں پرانے امریکی ہتھکنڈے شامل ہیں جنہوں نے ملیشیا کی وفاداریوں کو تقسیم کر کے عراق کو شیعہ فرقے کی اندرونی دشمنی کے مرکز میں تبدیل کر دیا۔ اب وہی دشمنی بڑھتی ہوئی خانہ جنگی کے خدشات کا مرکز ہے جس سے عراق کے قریبی پڑوسی ملکوں کو خطرہ ہے۔ یہ اقتصادی اور سیاسی استحکام کے فروغ میں واشنگٹن کے کردار کو بھی سامنے لاتا ہے جس نے اِس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ملک کبھی بھی بحران سے نہ نکل پائے، سیاسی موقع پرستوں کو سازگار ماحول فراہم کیا۔

ایک روشن مثال پر غور کیجیے۔ مقتدیٰ الصدر، شعلہ بیاں شیعہ عالم جس کے استعفے نے پُرتشدد واقعات کو ہوا دی، عراق میں امریکی مداخلت سے فائدہ اٹھانے والا ایک معروف کردار ہے۔ مقتدیٰ الصدر کی تفرقہ انگیز طاقت، عراق میں آزاد حکومت کی تشکیل میں رکاوٹ، اور انتخابات کے بعد استحکام کی پرتشدد مُسابقت، یہ سب امریکی قبضے کے بعد کی بے امنی کے نتائج ہیں۔ اِس میں مضبوطی سے رکھی گئی صدری فرقے کی بنیاد شامل ہے جس کا عراق کے موجودہ سیاسی بحران میں قابلِ غور کردار ہے۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ یہ وہی صدری بنیاد ہے جو آبادی کے اُن حصوں پر مرکوز ہے جنہیں خود امریکا نے اپنے فوجی قبضے کے ذریعے برسوں نشانہ بنایا، بے اختیار کیا اور پسماندہ رکھا۔ جب تنازعات اور بے امنی کے محرکات اتنے واضح ہوں تو استحکام کا نقطہ آغاز کیسے تلاش کیا جا سکتا ہے؟

ملک کے بڑھتے ہنگاموں کی ذمے داری لینے سے واشنگٹن کا واضح انکار اور ایک مستحکم اور خودمختار عراق کے لیے امریکا کی جعلی حمایت، بغداد کے لیے امریکی “عزائم” کے ایک گھناؤنے فرد جرم پر مُنتج ہوتی ہے۔ کئی امریکی حکام نے تشدد کے درمیان بات کی ہے مگر اپنی حمایت کو ملک میں متعلقہ امریکی شہریوں تک ہی محدود رکھا ہے۔ کئی دہائیوں کی جنگ کے بعد عراقی شہری اب بھی بعد کی سوچ سمجھے جاتے ہیں۔

یہ بات کافی حد تک واضح ہے کہ عراق میں پُرتشدد شورشوں کی حمایت کرنے کے امریکی رُجحان نے غیرمعروف تحریکوں کو مُسابقتی سماجی و سیاسی اتحادوں میں بدلنے میں مدد کی ہے۔ اِن میں وہی اتحاد شامل ہیں جن کی قیمت اب عام عراقیوں کو اُن کی فعال اور مربوط حکومت کی صورت میں دینا پڑ رہی ہے۔ “کوآرڈینیشن فریم ورک” اتحاد جیسے کچھ مخل عوامل کو اب بھی امریکی تزویراتی ماہرین کے بعض حلقے مُقتدیٰ الصدر کو ممکنہ طور پر عدالت میں پیش کرنے کی مناسب وُجوہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ عراق پر گہری نظر رکھنے والے کچھ مبصرین نے اِس امر سے آگاہ کیا ہے۔ اس طرح امریکا بحران زدہ عراق میں مزید تفرقہ انگیز، فرقہ وارانہ اتحادوں کا فائدہ اٹھا سکتا ہے اور دور بیٹھ کر مداخلت پسندانہ طرزعمل کی حمایت کر سکتا ہے۔ انتخابات کے بعد پُرتشدد نتائج کو روکنے میں عراق کو مدد دینے کی بجائے یہی منطقی دلیل ہے۔

Advertisement

یاد رہے کہ امریکا کا عراق میں اپنی واضح مداخلت کو ختم کرنے سے غیر اعلانیہ انکار اور بطور جغرافیائی سیاسی مفاد شیعہ فرقے کی اندرونی دشمنی سے دانستہ رجوع ایک خطرناک خانہ جنگی کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔ بالآخر یہ دیکھنا باقی ہے کہ امریکا عراق کے استحکام کی حمایت کے لیے کیا کرے گا، خاص طور پر اگر موجودہ خانہ جنگی میں اضافہ بلا روک ٹوک جاری رہتا ہے۔ جب قول و فعل کا تضاد تیزی سے بڑھ رہا ہو تو امن کی جعلی ضمانتیں اس میں کمی کا امکان نہیں رکھتیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جب حریف اتحاد اپنے متضاد مؤقف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیتے ہیں تو امریکی اقدامات زیادہ تر مُنہ کے فائر ہی ثابت ہوتے ہیں، خاص طور پر جب بات عراق میں قیامِ امن کی ہو تو۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے “مذاکرات” کے کھوکھلے مطالبات اور موجودہ پُرتشدد صورتحال کو محض “پریشان کن” قرار دیے جانے کو سنجیدگی سے مت لیجیے۔ مشرقِ وسطیٰ کے لیے یہ کیسی یقین دہانی ہے؟

یہ دونوں زبانی باتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں کیونکہ یہ مذاکرات اور حکومت سازی کا نظریہ ہے جس کے باعث گروہوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے ہیں نہ کہ “مذاکرات” کا نہ ہونا۔ لہٰذا یہ امریکا اور اس کے شراکت داروں کے مفاد میں ہے کہ وہ عدم استحکام کے محرکات سے نمٹیں، بجائے اس کے کہ مبہم “مذاکرات” کی تشہیر کو ہی تمام مسائل کا حل سمجھ لیا جائے۔

دوم، یہ امریکا ہی ہے نہ کہ عراق جس نے اُن عناصر کے مابین ملیشیاؤں کے اندرونی تنازعات کو بڑھاوا دینے میں معاونت کی ہے جو کبھی بہت متحد ہوا کرتے تھے۔ اِس سے آج کے بغداد میں خونی جھڑپوں اور شدید تصادم کو جگہ ملی ہے جس کی قیادت امریکی قبضے کی پُشت پناہی سے بنے ایک کڑے حفاظتی علاقے “گرین زون” میں بڑھتا سیاسی درجہ حرارت کر رہا ہے۔

عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد الحلبوسی نے 2020ء میں ملک سے امریکا کی زیرقیادت اتحادی افواج کو نکالنے کے لیے تاریخی رائے شماری کے بعد کہا، “حکومت (عراق) کو تمام غیر ملکی افواج کی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔” یاد رہے کہ امریکا نے اب بھی کتائب حزب اللہ اور مُقتدیٰ الصدر کی ملیشیا تحریک کے حامیوں کی تنقید کو دعوت دیتے ہوئے، فوجی حمایت کے ذریعے مُداخلت جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان واضح امریکی خلاف ورزیوں نے بحران زدہ عراق میں مزید مزاحمت کو ہوا دی ہے، یہ ایک ایسا مُحرک ہے جس کے سبب موجودہ سیاسی بحران میں پائیدار استحکام کے خواب کو اب بھی خطرہ ہے۔

واشنگٹن کا اپنا فوجی قبضہ تو ختم ہو چکا ہے لیکن عراقی شیعہ گروہ کی طاقت کی کشمکش کو بڑھانے میں اس کا بدنام کردار کئی چیلنجوں کا مرکز ہے۔ اِن میں حکومت کا نہ ہونا، فوری اخراجات اور عوامی خدمات کی فراہمی کے لیے بجٹ کی عدم موجودگی اور ہزاروں شہریوں کی نقد رقم سے محرومی کے بڑے چیلنج ہیں۔ اِن چیلنجوں میں مُنتخب عناصر کے ساتھ ایک نئی خانہ جنگی کی شروعات بھی شامل ہے جنہیں امریکا نے عراق میں قومی اتحاد کی قیمت پر تقسیم اور لڑائے رکھنے کی کوشش میں برسوں صرف کیے۔

Advertisement

مُصنف خارجہ اُمور کے مبصر اور فل برائٹ ایوارڈ یافتہ ہیں۔

Advertisement

Next OPED