سیاسی عدم استحکام کی قیمت
مزید انتشار اور افراتفری کے ماحول میں ملکی معیشت مسلسل زوال کا شکار ہے
مُصنّف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ قابل ذکر ہے۔ ایک طرف سیاسی تبدیلی کا نعرہ لگایا جا رہا ہے تو دوسری طرف ایک ہٹ دھرم حکومت ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ عوامی دباؤ کے سامنے جھکنا اس کی شکست کو یقینی بنادے گا۔
گہرے اختلافات کا شکار، شکستہ اور منقسم معاشرے میں، انتشار اور افراتفری کے درمیان پاکستان کی معیشت بدستور زوال پذیر ہے۔ ہر اوسط پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ اگر اس طرح کی سیاسی ہٹ دھرمی معمول بن گئی تو کیا معیشت ٹھیک ہو جائے گی؟ بدقسمتی سے، اس سوال کا کوئی حتمی جواب نہیں ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کا نظام کے خلاف اور موجودہ حکومت کو قبل از وقت انتخابات کرانے پر مجبور کرنے کے لیے لوگوں کو جمع کرنے کا اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان دیوالیہ ہونے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
سرکاری قرضہ تناسب سے بڑھ گیا ہے اور تباہ کن سیلابوں کے نتیجے میں زرعی تقریباً دائمی غذائی عدم تحفظ کے قریب پہنچ کر جمود کا شکار ہورہا ہے۔
مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور ملک میں بدامنی شاید پی ٹی آئی کی حکمران اتحاد کا تختہ الٹنے کی کوششوں تک محدود نہ رہے۔ کسان، مزدور، اجرت کمانے والے، نیم ہنر مند پیشہ ور اور جو کبھی متحرک متوسط طبقہ تھا، موجودہ حکومت کی معاشی کارکردگی سے یکساں طور پر مایوس ہیں۔
یہ سب عوامل پی ٹی آئی کی مہم کو توانائی فراہم کریں گے۔
جب سے شریف حکومت تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے، پارلیمان نے معیشت کی بحالی یااس کی بہتری کے لیے عوام کی سہولیات پر مبنی پالیسیاں اپنانے کے لیے ایک بھی قانون سازی نہیں کی۔
حکومت صرف اتحادی رہنماؤں کو بدعنوانی کے ان مقدمات سے محفوظ راستہ فراہم کرنے کا جنون رکھتی ہے جس نے سیاسی منظر نامے میں جگہ بنانے کی ان کی صلاحیت کو متاثر کیا تھا۔ عمران خان کی بھرپور مہم عوام کی نظروں کے سامنے اتحاد کو ناجائز قرار دیتے ہوئے ان سیاسی حیلوں کا حوالہ دیتی ہے۔
جین جیک روسو کا پیش کردہ سماجی معاہدے کے نظریہ کا پورا تصور مقبول خودمختاری پر منحصر ہے جہاں حکمران جماعت کا تعین عوامی مرضی سے کیا جانا ہے۔
عوامی جذبات پر پورا اترنے میں شریف حکومت کی نااہلی نے اس پورے سماجی معاہدے کو مجروح کر دیا ہے جو پاکستان کے عوام اور حکمران اشرافیہ کے درمیان موجود ہے یا موجود تھا۔
1990 ء کی دہائی اور 2013 ء کے بعد سے مسلم لیگ (ن) کی شاندار کارکردگی کے بلند و بالا بیانات یا ماضی کے تجزیے میں بیان کی جانے والی معاشی پالیسیاں ٹھوس نتائج میں نہیں ڈھل پارہیں۔
مثال کے طور پر زر مبادلہ کی شرح پاکستان کے برآمدات پر مبنی معیشت بننے کے پورے وژن پر مسلسل دباؤ ڈال رہی ہے۔
ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت عالمی وبا کی وجہ سے رسد کو لگنے والے دھچکے اور اور بین الاقوامی صارفین کی طلب میں کمی کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے، جس کی ایک وجہ چین کی جانب سے کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے کیے گئے سخت اقدامات ہیں۔
اوپیک پلس کا پیٹرولیم میں کٹوتیوں کو لاگو کرنے کا فیصلہ، جو تیل کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنا، اور امریکی فیڈرل ریزرو کی جانب سے شرح سود میں اضافے کا فیصلہ، ان سب کے عالمگیر اثرات ہیں۔
ان پیش رفتوں نے دنیا کے غریب ترین ممالک کو نقصان پہنچایا، جن میں سے اکثر سیاسی عدم استحکام کا سامنا کر رہے ہیں۔
کوئی کینیا، سینیگال، نائیجیریا اور یمن کو دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کے طور پر تصور میں لاسکتا ہے۔ تاہم پاکستان میں بھی افراتفری پھیل رہی ہے اور اسلام آباد پر بھی مایوسی و ناامیدی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
معاشی تعمیر نو پر مکالمے کی مکمل عدم موجودگی اور سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے پُرکشش پالیسیوں پر انحصار قومی معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
ڈاکٹر عشرت حسین سمیت کئی ممتاز ماہرین اقتصادیات نے معاشی بحالی کے لیے مختلف طریقہ ہائے کار کی یکجائی کے ذریعے جامع اصلاحاتی پیکجز اور پائیدار ترقی پر زور دیا ہے۔
جی ڈی پی کی شرح نمو کو بڑھانے پر صرف توجہ مرکوز کرنا کافی نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان کے مسائل زیادہ تر ساختی ہیں۔ پروفیسر حفیظ پاشا کے مطابق، پاکستان کا معاشی پروفائل ساکھ اور مالی استحکام کے بین الاقوامی پیمانے پر مستحکم سے منفی تک گر گیا ہے۔
ملک سرکاری قرضوں کے خطرے میں بھی چوتھے نمبر پر ہے جو بذات خود ایک ناگوار فرد جرم ہے۔
اگرچہ حکمران اتحاد یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام ایک نامناسب وقت پر آیا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ معاشی بحران کو سنبھالنے میں ان کی نااہلی نے موجودہ بدحالی میں کردار ادا کیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور اس کے حکمران اتحادیوں نے اقتدار سنبھالتے وقت پی ٹی آئی انتظامیہ کی خرابیوں کو دور کرنے کے دعوے کیے تھے جس کے نتیجے میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو کچھ عوامی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
تاہم، عمران خان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا کیونکہ نئی حکومت کی قانون سازی حکمران اشرافیہ کے حق میں یک طرفہ رہی اور معیشت بدستور زبوں حالی کا شکار رہی۔ اس لیے حکمران اتحاد کو پی ٹی آئی کو تنہا کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے خود کو شرمندگی سے بچانے کے لیے آپشنز پر غور کرنا چاہیے۔
سیاسی بحران مسلم لیگ (ن) کے زیرقیادت حکومت کی بے حسی اور سیاسی مصلحت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے نہ کہ عمران خان کے نام نہاد تخریبی اثر و رسوخ کی وجہ سے۔
حکمران اتحاد کردار کشی کے ذریعے سابق وزیر اعظم کو بدنام کرنے پر مُصر ہے جس سے ان کی دیگر اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کی ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔
تنقید کے ذریعے رائے عامہ کو متاثر کرنے کی کوششیں صرف اس تحریک کی مقبولیت میں اضافہ کریں گی جو قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرتی ہے۔ شریف حکومت کے پاس اس بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راستہ روکنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
پاکستان کے لیے یہ خطرناک وقت ہے۔ متوسط طبقے – جو کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے – کا خاتمہ آمدنی کے تفاوت کو بڑھارہا ہے۔
حکمران طبقہ عام آدمیوں کی پریشانیوں سے بڑی حد تک بے خبر ہے، جو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں یا تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شریف حکومت کی طرف سے پیدا کیا گیا سیاسی عدم استحکام مسئلے کو مزید بڑھا رہا ہے اور اس کا تباہ کن نقصان آنے والے سالوں میں محسوس کیا جائے گا۔






