لتھونیا تائیوان اور شطرنج کی بساط
تاریخ شاہد ہے کہ جس ملک نےبھی عوامی حمایت کے بغیرچین کو سائیڈ لائن کیا وہ سفارتی تنہائی کا شکارہوا ہے.
ایسا لگتا ہے جیسے لتھوانیا کی قیادت نے علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی یا علیحدگی پسندی کی حمایت کرنے کے بارے میں سبق نہیں سیکھا ہے۔ تائیوان پر اس کی مسلسل مہم خود کو ایک اشتعال انگیز کے طور پر بے نقاب کرتی نظرآتی ہے جو علیحدگی پسندوں کے وفود کو مدعو کرکے اور علیحدگی پسند دفاتر قائم کرکے بار بار ’ون چائنا اصول‘ کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ایسی پالیسیوں کے نتیجے میں، لتھونیا چین کے ساتھ 1991ء کے معاہدے کے باوجود امن میں خلل ڈالنے والا ہے جو کہ ون چائنا کے اصول کو تسلیم کرتا ہے۔
اس کا تازہ ترین اقدام ستمبر 2022ء میں تائیوان میں ایک تجارتی دفترکھولنا ہے جو کہ ایک بدنام زمانہ علیحدگی پسند یو سی کون کو لتھونیا کا دورہ کرنے کی دعوت دینے پر چین کی طرف سے مذمت کے بعد سامنے آیا ہے۔
بدنام زمانہ علیحدگی پسندوں کو سرکاری دوروں پر مدعو کرنا چین لیتھونیا دو طرفہ تعلقات کے مفادات کو نظراندازکرتا ہے، پھربھی ولنیئس اس بات پرقائم ہے کہ چین کی ریاستی خودمختاری اور بین الاقوامی تعلقات کو کنٹرول کرنے والے اصولوں کو مجروح کرنا درست اقدام ہے۔ نوٹ کریں کہ کس طرح ون چائنا پالیسی کی پابندی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر2758 میں موجود بین الاقوامی اتفاق رائے پرمبنی ہے جوبیجنگ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات استوارکرنے کی سیاسی بنیاد قائم کرتی ہے۔ دوسری طرف لتھونیا نے علیحدگی پسندی کی حمایت کرتے ہوئے ایسی سیاسی بنیادوں کو ڈھٹائی اوربے دلی سے چیلنج کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس طرح کے اقدامات نہ صرف چینی خودمختاری پرحملہ کرتے ہیں بلکہ لتھونیا کی پالیسی سازی میں نظریہ اورعمل کے درمیان تعلق کوبھی ظاہرکرتے ہیں۔
بین الاقوامی معاہدوں اوروعدوں کوبرقراررکھنےکے دعوے کے باوجود، لتھونیا نے کہا ہے کہ وہ ایک خودمختارریاست کے طورپرجس بھی قیادت کا فیصلہ کرے گا، اس کے ساتھ دوطرفہ تعلقات قائم کرتا رہے گا۔
اس کے باوجود لتھونیائی باشندوں کی بھاری اکثریت اپنے ملک کی چین کی پالیسی کو ناپسند کرتی ہے جہاں 2022 میں لتھونیا کی وزارت خارجہ کی طرف سے کرائے گئےایک آزاد سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ صرف 13 فیصد لتھونین بیجنگ کے بارے میں اپنی حکومت کی پالیسی سے اتفاق کرتے ہیں۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ بین الاقوامی معاہدوں کوبرقراررکھنا، ملکی رائے کو پورا کرنا یا دو طرفہ وعدوں کی قدر کرنا ولنیئس میں قیادت کے لیے ثانوی تحفظات ہیں۔
سیماس (لتھوانیا کی پارلیمنٹ) کے اسپیکر، کیمی لیٹ نیلسن نے ایک علیحدگی پسند وفد کی میزبانی کرتے ہوئے اس طرح کے مداخلت کرنے والے اقدامات پر چین کے جائزاحتجاج کوکم کرنے کی کوشش کی۔ تاہم یہ اس صریح نظراندازی کوظاہرکرتا ہے جولتھونیا کی قیادت دو طرفہ تعلقات، خیرسگالی یا اعتماد سازی کے اقدامات کے لیے رکھتی ہے۔
یہ پہلی بارنہیں ہوا ہے کہ لتھونیا نے چین کے ساتھ معاہدوں یا بین الاقوامی روایات کی خلاف ورزی کی ہے۔ 2021ء میں، ولنیئس نے تائیوان کی قیادت کو اپنے ساحلوں پرایک ڈی فیکٹو سفارت خانہ قائم کرنے کی اجازت دی تھی اس طرح چین اور لتھونیا کےدو طرفہ تعلقات میں کمی واقع ہوئی جس کا نتیجہ چین سے تجارتی معطلی کی صورت میں سامنے آیا۔
اگرچہ لتھونیا امتیازی تجارتی برتاؤپرسراپا احتجاج توہے لیکن اس کا یہ رونا دھونا ایک دھوکہ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ وہ خود ایسے اقدامات کررہا ہے جس سے تناؤبڑھ رہا ہے۔
مثال کے طورپرقانون سازی کے اسپیکریوسی کن نے کیمی لیٹ نیلسن کو تائیوان کا دورہ ستمبر یا اکتوبر 2022 کے لیے دعوت دی ہے، جب کہ چین کی جانب سے لتھونیا کی ریاستی خودمختاری کومجروح کرنے کی بار بارتنبہ کے باوجود، تائیوان میں تجارتی دفترقائم کرنے کے معاہدے پرجولائی 2021 میں دستخط کیے گئے تھے اور ساتھ ہی ایک دوسرے کے دارالحکومت میں باہمی ڈی فیکٹو سفارتخانے بھی کھولے گئے تھے۔ لہذا، نومبر 2021 میں ولنیئس میں تائیوان کے نمائندے کے دفتر کے افتتاح پر چین کا ردعمل مکمل طور پر جائز تھا۔
لتھوانیا کی مظلومیت کی حمایت کرنے والوں کی طرف سے پروان چڑھائے جانے والے افسانے کے برعکس، چین کی طرف سے لتھونیا کے خلاف کوئی اقتصادی جبر نہیں کیا گیا ، بلکہ یہ تائیوان میں علیحدگی پسندی کو فروغ دینے والی پالیسیوں کا متناسب جواب ہے۔
واضح رہے کہ فروری 2022 میں گائے کے گوشت کی درآمدات کو معطل کرنا ایک مناسب عمل تھا کیونکہ یہ لتھوانیا میں ڈی فیکٹو تائیوان کے سفارت خانے کے کھلنے کے بعد سامنے آیا تھا۔ لہٰذا، برطانیہ، ریاستہائے متحدہ امریکا، آسٹریلیا اور کینیڈا کے یہ دعوے کہ چین لتھوانیا کے خلاف امتیازی تجارتی طریقوں کو بروئے کار لا رہا ہے غلط ہے کیونکہ اس طرح کے واضح بیانات ایسے عوامل کو مدنظر نہیں رکھتے جو ہدف شدہ ریاست کی طرف سے سخت کارروائی کا اشارہ دیتے ہیں۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جس بھی ملک نے علاقائی بلاکس یا رائے عامہ کے حوالے سے عوامی حمایت کے بغیر چین کو سائیڈ لائن کرنے کی کوشش کی وہ سنگین سفارتی تنہائی کا شکار ہوا ہے۔
لتھوانیا کے پاس تائیوان کے بارے میں اپنی پالیسی کی حمایت کرنے والے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جب کہ دوسری طرف امریکہ نے بھی کھلے عام تائی پے کی آزادی کا مطالبہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ ایسا کرنے کی کسی بھی سازش کا چین کی جانب سے مناسب جواب دیا جائے گا اور اس کی مذمت کی جائے گی۔ اگر اس طرح کی ریڈ لائنز کو ایک ڈی فیکٹو سپر پاور سمجھتا ہے، تو لتھونیا ایک ایسے ملک کے طور پر جو یورپ میں جمہوریت اور یورپی یکجہتی کو فروغ دینے میں تعمیری کردار ادا کرنے کے علاوہ یورپ میں محدود اثر و رسوخ رکھتا ہے۔
سفارتی تعلقات کی تنزلی اور تجارت پر عائد پابندیاں صرف اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر ولنیئس میں قیادت اپنا راستہ نہیں بدلتی، توحالات قابوسے باہرہوسکتے ہیں۔
بین الاقوامی برادری کے لیے اب وقت آگیا ہے کہ ایسے مسائل پر بات کرنے اورانہیں چھیڑے بغیر مضبوط دوطرفہ تعلقات کو ترجیح دے جو بیجنگ کے لیے حساس ہیں۔
تاہم جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ تائیوان پر لتھوانیا کے اقدامات مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں اور بین الاقوامی برادری کو عالمی اصولوں کو پامال کرنے، علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی اور تنازعات کو ہوا دینے کی کوششوں کے ان اقدامات کو پہچاننا چاہئے۔ تائیوان پراستعمال کی گئی حکمت عملی علیحدگی پسندی کی حمایت کے مترادف ہے اور چین کو متناسب طریقے سے اس طرح کے مذموم عزائم کا جواب دینے کا پورا حق حاصل ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ چین ان اقدامات کا تجارت اور تعاون کے ساتھ جواب دے، نہ کہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے۔
مصنف ایک کالم نگار، مشیر، کوچ اور تجزیہ کار ہیں.