ڈاکٹر اکرام الحق

01st Jan, 2023. 09:00 am

خوشحالی کا روڈ میپ

مصنف سپریم کورٹ کے وکیل ہیں، 1980ء سے دہشت گردی کے ساتھ ہیروئن کی تجارت کے تعلق کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور صوبائی ٹیکس ایجنسیوں کی ٹیکس کے بڑے فرق کو ختم کرنے میں قابل رحم کارکردگی اوروفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے غیرضروری اخراجات مالیاتی منظر نامے کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ ایک طرف، وفاقی حکومت قرضوں کے جال میں ہے، اور دوسری طرف، صوبے، جو نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے تحت رقوم کی منقلی پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، کو بجٹ سے کم رقم مل رہی ہے۔ صوبے غیرحاضر )زمین ٹھیکے پر دے کر کہیں اور رہنے والے  (زمینداروں سے واجب الادا زرعی انکم ٹیکس وصول کرنے میں بھی بری طرح ناکام رہے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے پانچ مہینوں میں قرضوں کی فراہمی اور دفاع پر مجموعی اخراجات 2اعشاریہ 2 ٹریلین روپے رہے جو وفاقی حکومت کی خالص آمدنی کے 107 فیصد کے برابر ہے۔ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ان کے حصےکی ادائیگی کے بعد وفاقی حکومت کی خالص آمدنی 2اعشاریہ04 ٹریلین روپے تھی۔ اس سے وفاق کو درپیش حقیقی مخمصے کی تصدیق ہوتی ہے، جس پر اسی اخبار کی  25 دسمبر 2022 ء  کی اشاعت میں شائع ہونے والے میرے گزشتہ ہفتے کے کالم ‘نئے سال کے چیلنجز’ میں روشنی ڈالی گئی تھی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ہمیشہ کی طرح، ایف بی آر کو 3اعشاریہ65 ٹریلین روپے کے اپنے ششماہی ہدف میں کم از کم 250 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے جمع کیے جانے والے ٹیکسوں  کا بڑا حصہ ودہولڈنگ ٹیکسوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق: ’’ایف بی آر نے جولائی سے نومبر کے دوران انکم ٹیکس کی مد میں جو 1اعشاریہ1 ٹریلین روپے اکٹھے کیے، ان میں سے 734 ارب روپے ان لوگوں نے جمع کیے جو ایف بی آر کے ملازم نہیں ہیں۔ ٹیکس دہندگان کے ذریعے ایڈوانس انکم ٹیکس کے طور پر ادا کی گئی رقم اس وصولی سے زیادہ ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنی  کنٹری  رپورٹ نمبر 19/380 میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ، پاکستان میں کل ٹیکس ریونیو کا 40 فیصد سے زیادہ درآمدی مرحلے پر اکٹھا کیا جاتا ہے۔‘‘

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) جیسے بہت سے مصنفین اور ادارے مختلف تحقیقی مقالوں میں جابرانہ اور  محدود دائرہ کار کے ٹیکس نافذ کرنے کی برائیوں کو اجاگر کرتے رہے ہیں۔ اسے منصفانہ اور وسیع البنیاد بنانے کے لیے قابل عمل حل بھی پیش کیے گئے لیکن ایف بی آر نے کبھی کوئی توجہ نہیں دی۔

Advertisement

مندرجہ ذیل پر میکرو لیول پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس کی شرح بشمول سپر ٹیکس وغیرہ 20 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ انکم ٹیکس کی شرح کو 100 ملین روپے سے زیادہ کی خالص دولت پر دو فیصد کے متبادل ٹیکس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ 10 فیصد تک کم کیا جائے، یا جو بھی زیادہ ہو۔ مزید برآں، تمام افراد کو سادہ انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی سہولت فراہم کی جانی چاہیے [کوئی ویلتھ اسٹیٹمنٹ نہیں] – قابل ٹیکس حد سے کم آمدنی والوں کو انکم سپورٹ [منفی ٹیکس] ادا کیا جانا چاہیے۔ ایک صفحے  پر مشتمل ریٹرن فارم انگریزی، اردو اور تمام علاقائی زبانوں میں ہونا چاہیے۔ سب کی طرف سے حقیقی آمدنی کی معلومات دینے سے تمام گھرانوں کا قومی سطح پر ڈیٹا بینک بنانے میں مدد ملے گی۔ ان کی کمائی کی سطح اس بات کا تعین کرے گی کہ کس کو ادائیگی کرنے کی ضرورت ہے اور کس کو سماجی فوائد کا حقدار ہونا چاہیے اور غربت کے جال کو ختم کرنے کے لیے سماجی اور اقتصادی نقل و حرکت کو کیسے بہتر بنایا جائے۔

مزید برآں، ریاست کو مطمئن کرنے کے کلچر کو ختم کرنا ہوگا- ایمان داری کی قیمت پر بے ایمانوں کو مزید معافی یا مراعات نہیں دی جائیں گی۔ جن لوگوں نے ریٹرن فائل کیا، لیکن ان کو کم معاوضہ دیا گیا، انہیں بغیر کسی تعزیری کارروائی کے واجب الادا ٹیکس ادا کر کے کمی کو پورا کرنے کی پیشکش کی جانی چاہیے۔ اس سے ایف بی آر کے 7اعشاریہ47 ٹریلین روپے کے ہدف سے کہیں زیادہ حاصل ہو گا۔ مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کی 4 فیصد کی سطح تک کم کرنے کے لیے سب سے پہلے غیر پیداواری اور غیرضروری اخراجات کو 30 فیصد تک کم کرنا ضروری ہے۔ قیمتی سرکاری زمینوں اور اثاثوں کو لیز پر دے کر غیر ٹیکس محصولات میں اضافہ کریں، مثال کے طور پر محلاتی سرکاری مکانات، عوامی نیلامی کے ذریعے اور مخصوص سرگرمیوں کے لیے روزگار پیدا کرنے اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے؛ وفاقی، صوبائی اور مقامی ہر سطح پر ٹیکسوں کو آسان، کم شرح، وسیع البنیاد اور آسانی کے ساتھ قابل ادائیگی بنایا جائے۔

مزید برآں، کاروباروں پر بھاری ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کے بجائے، ‘کاروبار کرنے میں آسانی’ کے تمام اشاریہ جات کو بہتر بنا کر، اور ‘کاروبار کرنے کی لاگت’ کو کم کرکے انہیں سہولت فراہم کی جانی چاہیے۔ ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ، اور ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ (آر اینڈ ڈی) میں سرمایہ کاری کے لیے ٹیکس کریڈٹ ہونا چاہیے تاکہ تمام شعبوں میں اہل افرادی قوت موجود ہو۔ اس کے لیے سب کو روزگار فراہم کیا جائے اور انھیں آئین کے آرٹیکل 3 کے مطابق ادائیگی کی جائے۔ اختراع کرنے والوں، خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایس ایم ایز) کو ترقی اور پیداوار پر توجہ دینے کے لیے تمام ممکنہ سہولیات اور مراعات فراہم کی جانی چاہئیں۔ بینکاری شعبے  کو ایس ایم ایز اور بڑے کاروباروں کو قرض دینے کے لیے فعال ہونا چاہیے۔ بینک حکومت کو قرض دینے کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہوئے سرکاری قرضوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ تنازعات کو جلد نمٹانے کے لیے بینکاری قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے جیسا کہ بہت سے ممالک میں کیا جاتا ہے۔

اسی طرح، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو طویل مدتی ویزا اور/یا شہریت دے کر سہولت فراہم کی جانی چاہیے۔ بہت سے افغان اور ایرانی پاکستان میں سرمایہ کاری کے خواہشمند ہیں۔ تمام شہریوں کے اعداد و شمار کو ان کی معاشی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے مرکزی حیثیت دی جانی چاہیے، جب کہ  ضرورت مندوں کے لیے یونیورسل پنشن اور سماجی تحفظ کا نظام ہونا چاہیے، لیکن ساتھ ہی ساتھ انھیں غربت کے جال سے نکلنے میں بھی سہولت فراہم کی جائے۔ ایک نیشنل ٹیکس ایجنسی (این ٹی اے) اور آل پاکستان یونیفائیڈ ٹیکس سروسز، جو تمام متعلقہ شعبوں میں پیشہ ورانہ مہارت رکھتی ہیں، قائم کی جائیں۔ این ٹی اے تمام شہریوں کو بتا سکتا ہے کہ ان کی آمدنی/خرچ کی سطح کیا ہے۔ اس سے ٹیکس کے درست واجبات اور ریاست کی طرف سے سماجی مدد کے حقیقی حق کا تعین ہوگا۔

تمام قومی اور صوبائی قانون سازوں کو سادہ، متوقع اور کم شرح والے ٹیکس لگانے چاہئیں – زرعی آمدنی سمیت تمام آمدنیوں پر انکم ٹیکس وفاقی حکومت کے خصوصی ڈومین کے تحت ہونا چاہیے، جب کہ اشیا اور خدمات پر ہم آہنگ سیلز ٹیکس  تیار کردہ اور فراہم کردہ سامان کی بنیاد، اور ان کے علاقوں میں فراہم کی جانے والی خدمات کی بنیاد پر  خصوصی طور پر صوبوں کو جانا چاہیے۔ اس سے  مالیاتی استحکام یقینی بنے گا اور ملک خود کفیل ہوگا۔ مزید برآں، متعدد ٹیکسوں کو ختم کرنا چاہیے اور مقامی ٹیکسوں کو جمع کرنا چاہیے، مثال کے طور پر پراپرٹی، گاڑیوں کے ٹیکس وغیرہ وغیرہ۔

ہمیں صحت کی خدمات، تعلیم، ہر قسم کی شہری سہولیات کے ساتھ ساتھ تفریح وغیرہ فراہم کرنے کے لیے مقامی حکومتوں  کے لیے  فنڈز مختص کرکے مقامی باشندوں کی ضروریات کو پورا کرنا چاہیے۔

Advertisement

جی ڈی پی کا کم از کم 4 فیصد تعلیم کے لیے مختص کیا جانا چاہیے، اور اضافی 2 فیصد تحقیق و ترقی کے لیے، تمام شہریوں اور دیگر اداروں کو ایک موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ نقد لیکویڈٹی کے مسائل پر قابو پانے کے لیے کسی بھی گزشتہ سال کے، اندرون یا بیرون ملک  واقع تمام غیر ٹیکس شدہ اثاثوں کو ظا ہر کرکے واجب الادا ٹیکس یکمشت یا قسطوں میں ادا کریں، یقیناً رعایتی مدت کے لیے ان سے اضافی ٹیکس لیا جائے۔ حتمی تاریخ کے گزر جانے کے بعد، قانون کے تحت سخت کارروائی کی جانی چاہیے، بشمول جائیداد کی ضبطی، جرمانہ اور/یا قید۔

چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور ایف بی آر دونوں نے وفاقی اور صوبائی سطحوں پر 14 ٹریلین روپے اکٹھے کرنے کے لیے ‘ٹیکس اصلاحات: ایجنڈا فار سیلف سسٹینبلٹی’ میں دی گئی تجاویز کو نظر انداز کر دیا ہے، جو  پاکستان کو مالیاتی خسارے پر قابو پانے، تازہ قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنے، تیز رفتار اقتصادی ترقی  حاصل کرنے اور تمام شہریوں کو سماجی خدمات فراہم کرنے کے قابل بنانے کے لیے دی گئی تھیں۔ ان بنیادی اصلاحات میں ناکامی ہی اصل مسئلہ ہے۔ موجودہ معاشی بحران سے نکلنے اور تمام شہریوں کو انتہائی ضروری اور طویل التوا کے فوائد فراہم کرنے کے لیے وفاق آسانی سے وفاقی سطح پر 12 ٹریلین روپے اور صوبائی سطح پر 2 ٹریلین روپے ٹیکس جمع کر سکتا ہے۔ ساتھ ہی تجارت اور صنعت کو ریلیف فراہم  کیا جاسکتا ہے۔ ٹیکسوں کی مندرجہ بالا سطحوں کو حاصل کرنے کے لیے، ہماری توجہ پائیدار ترقی پر مرکوز ہونی چاہیے جو ٹیکسوں کے ضمنی پروڈکٹ ہونے کی حیثیت سے ان میں اضافے کا باعث بنے گی- سخت ٹیکس کا نفاذ نہ صرف  توسیع کو روکتا ہے بلکہ موجودہ اور نئے کاروبار میں سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔

کیا اقتدار میں رہنے والے سیاست دان اصلاحی اقدامات کرنے کا خیال رکھیں گے؟ آئیے دعا کریں کہ 2023 ء پاکستان کے لیے خوشحالی اور تمام شہریوں کے لیے یکساں مواقع اور عالمی حقوق کی ضمانت لائے جیسا کہ آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔

Advertisement

Next OPED