ایڈز کے بحران پر قابو پانے کی جنگ
وادیء سندھ کی تہذیب کے گڑھ لاڑکانہ پر ایک بار پھر صحت کو لاحق خطرے، ایڈز کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ 2019ء میں آنے والی خبروں میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 500 کے قریب بچے متاثرہ ہیں کیونکہ ان کے ٹیسٹ کے نتائج مثبت آئے تھے۔ اس بیماری کا اس قدر خطرناک حد تک پھیلاؤ، صحت عامہ کے نظام کی جانب سے اُن پابندیوں کا متقاضی ہے جو شہر میں کبھی نافذ نہیں کی گئیں۔
دسمبر 2019ء میں”پاکستان کے ضلع لاڑکانہ میں بچوں میں ایچ آئی وی انفیکشن سے منسلک عوامل: ایک مماثل کیس کنٹرول اسٹڈی” کے عنوان سے کی گئی تحقیق کے مطابق، 21 ہزار 9 سو 62 بچوں میں سے 8 سو 81 (صفر اعشاریہ 4 فیصد) کے ایچ آئی وی ٹیسٹ کے نتائج مثبت آئے تھے۔ اسی تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ ایچ آئی وی وائرس کی مُنتقلی کے ذرائع غالباً انجیکشن کا غیرمحفوظ استعمال اور خون کی حفاظت کے ناقص طریقے تھے، تاہم بیماری کے پھیلاؤ کا غالب ذریعہ موروثی ہی تھا۔
ماہرینِ صحت اور ڈاکٹروں کو نہ صرف ایڈز کو پھیلنے سے روکنے کی جنگ کے لیے بلکہ پاکستان سے اس خطرے کے مُکمل خاتمے کے لیے بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا چاہیے۔ اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی وضع کی جانی چاہیے۔ پاکستان بھر کے ڈاکٹروں کو انجیکشن کے کم استعمال اور صرف ضروری صُورت میں محفوظ انجیکشن اور ٹرانسفیوژن کی فراہمی کی تربیت اور نظام کی جانب سے مدد کی ضرورت ہے۔
دنیا بھر میں ایچ آئی وی / ایڈز کے کیسز میں کمی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں 2010ء سے 2020ء تک کیسز میں 84 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹس کے مطابق اِس وقت تقریباً 2 لاکھ ایچ آئی وی / ایڈز کے کیسز موجود ہیں جبکہ اِن میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اپریل 2019ء میں والدین کی جانب سے بچوں میں وقفے وقفے سے بُخار کی اطلاعات ملنا شروع ہوئیں۔ اپریل کے وسط تک تقریباً پندرہ بچوں کا ایچ آئی وی ٹیسٹ کیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ، محمد نعمان صدیق کے مطابق، “مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے مقامی حکام نے اس کے فوری بعد ایک ہیلتھ کیئر کیمپ لگایا جہاں بچوں اور ان کے والدین میں وائرس کی جانچ کی جا سکتی تھی۔ ابتدائی چند دنوں میں کی جانے والی جانچ کے نتائج چونکا دینے والے تھے۔ ٹیسٹ کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ ایچ آئی وی مثبت بچوں کے والدین ایچ آئی وی منفی تھے جس سے یہ سوالات پیدا ہوئے کہ اتنے بچے کیسے متاثر ہو گئے۔”
وبا کے پھیلاؤ کے بعد عالمی ادارہء صحت (ڈبلیو ایچ او) نے یو این ایڈزاور یونیسیف کے اشتراک سے لاڑکانہ میں ایک رسپانس یونٹ تیار کرنے کے لیے کام کیا۔ اس یونٹ میں مفت ٹیسٹ اور خطرناک وائرس کے پھیلاؤ میں ملوث کلینکس کے خلاف کارروائی شامل تھی۔
پاکستان میں یو این ایڈز کی کنٹری ڈائریکٹر ماریا ایلینا ایف بورومیو کے مطابق،”ہمیں قومی اور بین الاقوامی شراکت داروں (اسٹیک ہولڈرز) کے ساتھ مُسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئے ایچ آئی وی انفیکشن کی روک تھام میں موجود اہم خلا کو مؤثر طریقے سے دور کیا جا سکے اور پاکستان میں ایچ آئی وی سے متاثرہ تمام مریضوں کی صحت اور بہبود کی ضمانت دی جا سکے تاکہ ملک ایڈز کے خاتمے کی کوششوں میں پیچھے نہ رہ جائے۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق، لاڑکانہ میں ایچ آئی وی / ایڈز سے متاثرہ افراد کی اکثریت جسم فروشی کے علاقوں (ریڈ لائٹ ایریا) میں کام کرنے والے کارکنان یا منشیات کا استعمال کرنے والوں پر مشتمل ہے۔ مہران ویلفیئر ٹرسٹ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 200 سے 250 خواجہ سرا، 200 مرد اور 100 ایسی متاثرہ خواتین موجود ہیں۔ منشیات استعمال کرنے والے تقریباً 500 دیگر افراد بھی ہیں جو خود کو انجیکشن لگاتے ہیں۔ اعداد و شمار سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جسم فروشی کے علاقوں میں تقریباً 15 فیصد خواجہ سرا اور 18 فیصد استعمال شدہ سرنج سے نشہ کرنے والے افراد یا تو ایچ آئی وی سے متاثرہ ہیں یا ایڈز کا شکار ہیں۔
پیشہ ورانہ مہارت کی کمی بھی اس بیماری کے پھیلاؤ کا سبب ہے۔ اگرچہ ملک کے میٹروپولیٹن شہروں میں نجی اور سرکاری ہسپتال، کلینک اور طبی مراکز طبی آلات استعمال کرتے وقت احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں، تاہم دُور دراز علاقوں میں کام کرنے والوں کے لیے یہ دعویٰ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جب جراثیم سے پاک طبی آلات استعمال کرنے کی بات آتی ہے تو ڈاکٹر اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے افراد احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کرتے۔ آلودہ طبی آلات کے استعمال سے ہیپاٹائٹس بی اور سی سمیت خون سے پیدا ہونے والی بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔
صوبائی وزارت صحت نے اس کے تدارک کے لیے خصوصی ٹاسک فورس قائم کی ہے۔ سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن (ایس ایچ سی سی) نے عالمی ادارہء صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ٹیموں کے ساتھ غیر مجاز طبی سرگرمیاں انجام دینے والے ڈاکٹروں کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اس حوالے سے ایک ہیلتھ سیمینار کے دوران درست آگاہی فراہم کی گئی جہاں ماہرین نے دعویٰ کیا کہ ایچ آئی وی / ایڈز کے تقریباً 65 فیصد مریض اپنا علاج جاری رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے صحت کی سہولیات فراہم کرنے والوں کے پیچیدہ رویے کو اِس کی بنیادی وجہ قرار دیا۔
کسی بھی طبی مسئلے سے نمٹنے کے لیے تعلیم اور آگاہی غالباً سب سے اہم پہلو ہیں۔ عوام کو ایچ آئی وی / ایڈز کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے قومی سطح پر ایک آگاہی مہم شروع کی جانی چاہیے۔ یہ مرض کیسے لاحق ہوتا ہے، اس کی علامات اور علاج وغیرہ، اِس آگاہی مہم سے اُس شرمندگی کا اثر کم ہوگا جو بیماری سے جڑی ہے۔ لوگوں میں کسی بیماری کے بارے میں کھُل کر بات کرنے کا رجحان بھی نہیں پایا جاتا۔ ڈاکٹر سے بھی ایچ آئی وی / ایڈز کے بارے میں بات کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ اس تاثر کو بدلنا چاہیے تاکہ ڈاکٹر اور مریض کے باہمی تعامل کو فروغ ملے جو تعمیری فیصلہ سازی کا باعث بنے۔
طبی ایمرجنسی کسی بھی وقت پیدا ہو سکتی ہے۔ شہر میں رہائش پذیر افراد کلینک اور ہسپتالوں کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔ تاہم قصبوں اور دیہات کے رہائشیوں کو طبی سہولت پر پہنچنے سے پہلے طویل فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ دور دراز علاقوں میں طبی مراکز قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ کسی بھی طبی ہنگامی صورتحال سے بچاؤ کے لیے طبی عملے کی موجودگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ بڑے شہروں اور ان کے مضافات میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ایک واضح حکمت عملی بھی ضروری ہے۔ ڈاکٹروں کو تربیت یافتہ ہونا چاہیے تاکہ وہ تندہی سے اپنے فرائض سرانجام دے سکیں۔ حکام کو چاہیے کہ وہ انہیں مناسب طبی آلات مہیا کریں جو بڑی مقدار میں دستیاب ہوں تاکہ ہر ضروری شے بشمول سرنج، وائپس، دستانے، ماسک، ٹشوز وغیرہ کو ایک بار استعمال کرنے کے بعد ضائع کر دیا جائے۔
مصنف ایک افسانہ نگار اور کالم نویس ہیں