رؤف حسن

01st Jan, 2023. 09:00 am

شروعات ۔۔ مگر کہاں سے؟

مُصنّف سیاسی و سلامتی کی حکمت عملیوں کے ماہر اور اسلام آباد میں قائم ایک آزاد تھنک ٹینک، علاقائی امن انسٹیٹیوٹ کے بانی ہیں۔ ٹوئٹر: @RaoofHasan

جب سے بول نیوز کے مُدیر نے مجھے فون کرکے کہا ہے کہ اخبار کا اگلا ایڈیشن 2023ء کے دوران پاکستان کے امکانات پر مرکوز ہوگا، اور مجھے بھی اِسی نکتے پر لکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، میں اُن تمام مثبت پہلوؤں کے بارے میں سوچ رہا ہوں جن پر میں لکھ سکتا ہوں۔ موجودہ حالات میں یہ سب سے زیادہ مشکل چیلنج رہا ہے جو میں قبول کر سکتا تھا۔ ایسے حالات میں فیض کا خیال ذہن میں آتا ہے جنہوں نے قیامِ پاکستان کے ابتدائی دور میں ہی نوزائیدہ ریاست کے لیے ایک انتہائی مایوس کن نقطہء نظر پیش کیا تھا۔

میں نے خود سے پوچھا کہ کہاں سے شروع کروں؟ کیا میں اپنے وطن کی تخلیق کے اُس وعدے سے آغاز کروں جس کا قائد نے 11 اگست کو پہلی دستور ساز اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران انتہائی مناسب طور سے احاطہ کیا تھا، جس میں اُنہوں نے ہم وطنوں کو مساوی حقوق، مراعات اور ذمے داریوں کے ساتھ ریاست کے پہلے، دوسرے اور آخری شہری بننے کے لیے “رنگ، ذات اور نسل” کی تمام پابندیوں سے آزاد قرار دیا تھا؟ کیا میں اُن کے اِس اعلان سے شروع کروں کہ لوگ اپنے مندروں، اپنی مساجد یا کسی اور عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں اور اُن کے عقیدے کا ریاستی اُمور سے کوئی تعلّق نہیں ہے؟ کیا میں یہ کہتے ہوئے شروع کروں کہ وہ اِس ایک بنیادی اُصول پر گہری نظر رکھتے تھے کہ ہم سب شہری ہیں، ایک ریاست کے مساوی شہری؟

کیا میں یہ بیان کروں کہ قائد کو خراب ایمبولینس میں سڑک کنارے مرنے کے لیے کیسے چھوڑ دیا گیا؟ کیا مجھے یہ بتاتے ہوئے شروع کرنا چاہیے کہ وہ اُس وقت ایک مسودے کی شکل میں موجود قراردادِ مقاصد کے بارے میں کیا سوچتے تھے اور اِس نے تمام شہریوں کے درمیان مساوات کے قائد کے خواب کو کس طرح متاثر کیا؟ کیا مجھے مُلّا کلچر کے عُروج اور اِس سازباز کو وسیع کرنے کی خاطر حلقے بنانے کے لیے کی گئی سودے بازی کے بارے میں بات شروع کرنی چاہیے؟ کیا مجھے قوم کی زندگی کے پہلے 11 برسوں کے دوران کھیلی جانے والی میوزیکل چیئرز اور اِن کے نتیجے میں اقتدار پر فوج کی گرفت شامل ہونے اور اِس کے پروان چڑھنے کے بارے میں بات کرنی چاہیے؟ کیا مجھے پہلے مارشل لاء کے نفاذ اور اِس کے مُلکی وحدت پر پڑنے والے تباہ کن اثرات کے بارے میں بات سے ابتدا کرنی چاہیے، جس کے نتیجے میں 1971ء میں یہ ملک ٹوٹنے کا سبب بن گیا؟ کیا مجھے اِس کے بعد کے مارشل لا اور اُن کی پیدا کردہ تقسیم جس نے عملی طور پر پورے سماجی تانے بانے کو اُدھیڑ کر رکھ دیا، سے شروع کرنا چاہیے؟

کیا میں اس گھناؤنے ڈرامے کے بارے میں بات کروں جس نے آئین کے مسودے کو گھیر رکھا تھا اور کیوں 1956ء کا آئین نافذ نہیں ہونے دیا گیا؟ کیا میں اُس حقیقت کے بارے میں بات کروں کہ پہلا آئین آخرکار 1973ء میں منظور کیا گیا تھا جب ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور اس کا بڑا نصف بنگلہ دیش بن گیا تھا؟ کیا میں وہ حالات بیان کروں جن میں ایک غیر مُنقسم ملک کے وزیراعظم کے طور پر مجیب الرحمان کے ساتھ حکومت بنانے کے لیے سابق مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والی اکثریتی آبادی کے جمہوری حق سے انکار کر دیا گیا تھا، اور کس طرح بھٹو نے پاکستان کو متحد رکھنے کے امکانات کو ناکام کرنے کے لیے ایک فوجی آمر سے، جو اُس وقت برسراقتدار تھا، ملی بھگت کرکے حکومت بنائی؟

Advertisement

کیا میں فوج کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والی سویلین قیادت، خاص طور پر بھٹو، شریف، فضل اور الطاف ٹولے، اِن کے اقتدار میں آنے اور ملک میں جرائم اور بدعنوانی کے کلچر کی آمد کی کہانی پر بات کروں ؟ کیا میں اِن مجرموں کی لوٹ مار کے سلسلے سے آغاز کروں؟ کیا میں ریاست اور اس کے بنیادی مفادات کی قیمت پر حکمراں اشرافیہ کی اپنی تجوریاں بھرنے کی گھٹیا اور مذموم کہانی بیان کروں؟ کیا میں دن بھر میں ایک وقت کے تھوڑے سے کھانے پر بمشکل زندہ کمزور اور غریب طبقات کے خون میں لتھڑی طاقتور مافیاز کے ریاست پر مجازی قبضے کو بیان کرتے شروع کروں؟ کیا میں اس بات سے آغاز کروں کہ کس طرح فریب اور دغابازی کے کلچر کو پروان چڑھایا گیا اور کیسے صحیح و غلط کی تمیز مٹائی گئی؟

کیا میں ملک کے حکمراں طبقے کے مابین ایک معاہدے کے نفاذ کی وضاحت سے ابتدا کروں کہ بدعنوانی جرم نہیں ہے، اور اسے بے نقاب کرنے کے لیے ریاستی وسائل لگانے کا کوئی فائدہ نہیں، اور اس تناظر میں شیطانی فعل پر مٹی ڈالنے کے لیے تمام قوانین کو یکسر تبدیل یا ختم کر دیا جانا چاہیے؟ تو کیا میں ریاست کو گنہگاروں، مجرموں اور مفروروں کے گروہ کی گود میں ڈال کر پورے ادارہ جاتی نیٹ ورک کو اُن سے ملی بھگت کے اظہار کے طور پر دم ہلاتے ہوئے ریاست کی حتمی رسوائی کو بیان کرنا شروع کروں؟ کیا مجھے اُس بدمعاش ٹولے کے ہاتھوں میں موجود جج، جیوری اور جلاد کے اختیارات کے بارے میں بات کرنی چاہیے جو اُس کی خواہشات کے مطابق کام کرتے ہیں؟

تو، میں کہاں سے شروع کروں؟ ملک کی ابتر حالت کے بارے میں فیض کی نوحہ خوانی مکمل طور پر اُمید سے خالی نہیں تھی، مگر وہ اُس قیمت سے بھی واقف تھے جو اِس کی حالت کو سنوارنے کے لیے ادا کرنا پڑتی ہے، اِس کا ذکر اُن کے ایک اور انمول جوہر میں بھی موجود ہے؛

میری مایوسی کو درگزر کیجیے لیکن میں خود کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ اس ملک کو مجرموں اور ان کے سہولت کاروں اور کارندوں کے شکنجے سے نکالنا نجات کی جانب پہلا قدم ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جسے لڑنا اور جیتنا ہوگا۔ یہ تب ہوگا جب ہمیں یقین ہو جائے گا کہ ہم اِس میں مُتّحد ہیں اور یہ ایک اجتماعی اور ٹھوس کوشش سے ہی ممکن ہے جسے ہم منزل تک پہنچائیں گے۔

یہ تب ہی ہو پائے گا جب پاکستان کے مُستقبل کے بارے میں میری اُمید اِس کے عوام کی طرف سے حتمی قربانی دینے کی تیاری سے دوبارہ زندہ ہوگی اور میں اپنے ملک کی کہانی لکھنا شروع کروں گا۔ یہ وہی دن ہوگا جس کی صُبح کا میں بے چینی سے انتظار کرتا ہوں۔

Advertisement

Next OPED