قانون سازی کے اختیارات
مصنف سپریم کورٹ کے وکیل ہیں، 1980ء سے دہشت گردی کے ساتھ ہیروئن کی تجارت کے تعلق
کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
پاکستان میں قانون ساز اپنے قانون سازی کے اختیارات اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین سے حاصل کرتے ہیں۔ کسی صوبائی اسمبلی کی طرف سے کسی بھی قسم قانون سازی جس میں کسی طرح کی لیوی، ٹیکس، ڈیوٹی، فیس، سیس وغیرہ کا نفاذ شامل ہو اور جس کا اطلاق صوبے کی جغرافیائی حدود سے باہر ہوتا ہو، اور جس میں ان اداروں کو شامل کیا جائے جو بین الصوبائی سطح پر کام کر رہے ہیں، صریحاً آئین کے آرٹیکل 141 کے خلاف ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی یا سینیٹ کی جانب سے صوبوں کے حقوق کو متاثر کرنے والی کوئی بھی قانون سازی، آئین کے آرٹیکل 142 سے متصادم اور اعلی ترین ملکی قوانین کے خلاف، اور اپنی ابتدا ہی سے غیرموثر ہوگی۔
اٹھارویں ترمیم کے تناظر میں سندھ ورکرز ویلفیئر فنڈ ایکٹ 2014 ؛ پنجاب ورکرز ویلفیئر فنڈ ایکٹ 2019؛ خیبر پختونخوا ورکرز کمپنسیشن ایکٹ 2013؛ اور کسی بھی صوبائی اسمبلی کی طرف سے کسی بھی دوسرے قانون کا نفاذ جو اس صوبے کی جغرافیائی حدود سے باہر ہو، اس پر آئین کے آرٹیکل 141 کی روشنی میں نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ آرٹیکل کے مطابق: ’’آئین کے تابع، مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) پاکستان کے پورے یا کسی بھی حصے کے لیے قوانین (بشمول ماورائے علاقائی آپریشن کے قوانین) بنا سکتی ہے، اور ایک صوبائی اسمبلی صوبے یا اس کے کسی حصے کے لیے قانون بنا سکتی ہے۔‘‘
میسرز سوئی سدرن گیس لمیٹڈ و دیگر بخلاف فیڈریشن آف پاکستان و دیگر 2018 ایس سی ایم آر 802 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق اور وفاقی اکائیوں کی قانون سازی کی اہلیت کے بارے میں وضاحت کی۔ اس نے کہا کہ :’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک جمہوری ریاست (وفاق) ہے جس کی وفاقی اکائیاں (صوبے) ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین، 1973 (آئین) وفاق کے اختیارات اور صوبوں کی خودمختاری کو تسلیم کرتا اور ان کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔کانسٹیٹیوشن ایکٹ2010ء کے ذریعے منظور ہونے والی اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کی خودمختاری کو تحفظ دیا گیا ہے۔
آئین میں اس ترمیم کے ذریعے کنکرنٹ لیجسلیٹو لسٹ (سی ایل ایل) کو حذف کرکے ، دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ صوبوں کے قانونی سازی کے اختیارات وسیع کردیے گئے ہیں جب کہ پہلے پارلیمنٹ اور صوبائی مقننہ دونوں اس فہرست میں درج مضامین پر قانون سازی کر سکتے تھے۔ سی ایل ایل کو حذف کرنے سے ، آئین میں صرف ایک قانون سازی کی فہرست رہ گئی ہے جس میں خصوصی طور پر ایسے مضامین کی فہرست دی گئی ہے جن پر صرف پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی ہے، اور آئین کے آرٹیکل 142(c) کی وجہ سے ان دو فہرستوں میں جو مضمون شامل نہ ہو، آئین کے تحت اس پر قانون سازی صوبوں کے دائرہ اختیار میں ہوگی۔‘‘
سپریم کورٹ نے مندرجہ بالا فیصلے میں واضح طور پر کہا کہ ’’…. آئین کے آرٹیکل 141 کے مطابق، ایک صوبائی مقننہ، صوبے کی حدود سے باہر قانون سازی کی اہلیت نہیں رکھتی اور اس لیے وہ کسی ایسے موضوع کے حوالے سے قانون سازی نہیں کر سکتی جس کا اطلاق صوبائی حدود سے تجاوز کرتا ہو۔‘‘
صوبوں کو تفویض کردہ یا منتقل کیے گئے کسی بھی موضوع سے نمٹتے ہوئے، ماورائے حدود اور صوبائی اسٹیبلشمنٹ سے متعلق، سپریم کورٹ نے دو چیزوں کا مشاہدہ کیا۔ ایک، ’’وفاقی مقننہ کو ماورائےحدود اختیار حاصل ہے لیکن ایسا کوئی ماورائے حدود اختیار آئین نے صوبائی مقننہ کو نہیں دیا ہے۔’’دوسرا، ‘‘ وفاقی مقننہ کے پاس بین الصوبائی سطح پر کام کرنے والی ٹریڈ یونینوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قانون سازی کرنے کا اختیار ہے لیکن صوبائی مقننہ کے پاس اس سلسلے میں قانون سازی کی اہلیت نہیں ہے۔‘‘
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ: ’’ہم ہائی کورٹ کی اس آبزرویشن سے متفق ہیں کہ اگرچہ وفاقی نظام میں، صوبائی خودمختاری کا مطلب کسی صوبے کی وفاقی حکومت یا وفاقی مقننہ کی مداخلت کے بغیر اپنی جغرافیائی حدود میں حکومت کرنے کا اختیار یا اہلیت ہے، مگر چونکہ صوبائی مقننہ کے پاس صوبے کی حدود سے باہر قانون سازی کا اختیار نہیں ہے ، اس لیے وہ صوبے کی علاقائی حدود سے باہر کام کرنے والے اداروں کے بارے میں قانون سازی نہیں کر سکتی۔‘‘
آئین کے آرٹیکل 189 کے مطابق، سپریم کورٹ کی طرف سے طے شدہ مندرجہ بالا اصول، بشمول اس سے متعلق عدالت کی جانب سے کیا گیا کوئی بھی ضمنی اظہار ، جیسا کہ شاہد پرویز بخلاف اعجاز احمد و دیگر 2017 SCMR 206 میں وضاحت کی گئی ہے، ریاست کے تمام اداروں کو نافذ کرنا ہے، بشمول صوبائی اسمبلیاں لہٰذا، صوبائی اسمبلیاں کوئی ایسا قانون نافذ نہیں کر سکتیں جس کا اطلاق صوبے کی علاقائی حدود سے باہر کیا جانا مقصود ہو، مثال کے طور پر لیبر سے متعلق فائدہ مند قوانین یا خدمات پر سیلز ٹیکس عائد کرنا، اسی طرح بین الصوبائی دائرہ کار کے حامل اداروں پر ، اور علاوہ ازیں ان خدمات پر جو صوبے کی علاقائی حدود میں انجام نہیں دی جاتیں یا پیش نہیں کی جاتیں۔ اپنے قیام کے بعد سے ہی سندھ ریونیو بورڈ (SRB)، پنجاب ریونیو اتھارٹی (PRA)، خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی (KPRA) اور بلوچستان ریونیو اتھارٹی (BRA) کے خدمات کے آغاز و اختتام اور بین الصوبائی سطح پر سرگرم عمل اداروں ٹیکس عائد کرنے والے غیر آئینی قوانین موجود ہیں۔
2018 SCMR 802 میں سپریم کورٹ کے قائم کردہ اصول (اصولوں) کو لاگو کرتے ہوئے، انٹری 49، وفاقی قانون سازی کی فہرست، حصہ اول ، آئین کے فورتھ شیڈول کے لحاظ سے خدمات پر سیلز ٹیکس کی وصولی، جو کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی اسمبلیوں کے دائرہ کار میں ہے، کسی صوبے کی علاقائی حدود سے باہر پیش کی جانے والی یا انجام دی جانے والی خدمات کے سلسلے میں نہیں ہو سکتی۔ اور اسی طرح بین الصوبائی سطح پر کام کرنے والے کسی بھی ادارے پر اس کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
لہٰذا، تمام صوبوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قوانین سےتمام شقوں کو ، جو کسی بھی موضوع سے متعلق ہوں، ہٹا دیں جو مذکورہ بالا سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ اس طرح کی تمام دفعات، اگر برقرار رہتی ہیں تو، متعلقہ ہائی کورٹس میں انہیں بین الصوبائی سطح پر کام کرنے والے اداروں اور/یا ان اداروں کی طرف سے چیلنج کیا جا سکتا ہے جو کسی صوبے کے اندر خدمات انجام نہیں دے رہے جو ان سے خدمات کے آغاز و اختتام پر ٹیکس طلب کررہا ہے جس کی وجہ سے اس قانون کا ماورائے علاقائی حدود اثر ہورہا ہے، جو آرٹیکل 141 اور 2018 SCMR 802 میں موجود دیگر وجوہات کے بالکل خلاف ہے۔
چونکہ بین الصوبائی سطح پر کام کرنے والے ٹیکس دہندگان کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور صوبائی ریونیو اتھارٹیز (SRB، PRA، KPRA اور BRA) سے لیبر سے متعلقہ قوانین، اور خدمات کے حوالے سے نوٹس موصول ہوتے رہتے ہیں، لہذا یہ ضروری ہے کہ تمام حکومتیں اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جائیں، کیونکہ عدالت عظمی کو آئین کے آرٹیکل 184(1) اور (2) کے تحت اس معاملے میں خصوصی دائرہ اختیار حاصل ہے۔ آرٹیکل 184 (1) کے مطابق: ’’سپریم کورٹ، ہر دوسری عدالت کو چھوڑ کر، کسی بھی دو یا دو سے زیادہ حکومتوں کے درمیان کسی بھی تنازع میں اصل دائرہ اختیار رکھتی ہے۔‘‘ اس شق میں ’’حکومتوں‘‘ سے مراد وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہیں۔
آرٹیکل 184 (2) کے مطابق: ’’شق (1) کے ذریعہ اسے عطا کردہ دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے ، سپریم کورٹ صرف اعلانیہ فیصلے سنائے گی۔‘‘
اس معاملے میں سپریم کورٹ کا بااختیار اعلانیہ فیصلہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان موجودہ کشمکش کو طے کرے گا، اور ٹیکس دہندگان کے لیے یہ طے کردے گا کہ انہیں اپنا ٹیکس کہاں ادا کرنا ہے، اور ریونیو حکام کے لیے بھی اعلی ترین ملکی قانون کے تحت نوٹس جاری کرنے کے لیے حدود کا تعین ہوجائے گا۔






