آصف درانی

11th Dec, 2022. 09:00 am

بنگلہ دیش ۔۔ معافی کا سوال

مُصنف سابق سفیر ہیں اور فی الحال اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بطور سینیئر ریسرچ فیلو کام کر رہے ہیں

سینٹر فار گورننس اسٹڈیز (سی جی ایس) بنگلہ دیش کے زیراہتمام “خلیج بنگال مباحثے” (21-23 نومبر) میں شرکت نے پہلی بار ڈھاکا کے دورے کا نادر موقع فراہم کیا۔ اس کیفیّت سے پہلے گزرنے اور پچھتاوے کے ملے جلے جذبات کے ساتھ یہ ایک پُرجوش تجربہ تھا۔ میری عمر 13 سال تھی جب سابق مشرقی پاکستان ایک خونریز جنگ کے بعد بنگلہ دیش بنا۔ اسّی کی دہائی کے اوائل میں کوئٹہ کا دورہ کرنے والے ایک بنگالی سفارت کار سے ملاقات اور جب تک کہ میں صحافی نہیں بن گیا، میرا کسی بنگالی ساتھی سے کوئی واسطہ نہیں پڑا تھا، بنگلہ دیش یا بنگالیوں کے بارے میں میرا علم “وٹنیس ٹو سرینڈر” جیسی کتابوں یا فورمز پر کچھ عجیب و غریب مُباحثوں میں ڈھاکا کی شکست کے تجزیات تک محدود تھا۔ کوئی بھی شخص پاکستانی علماء یا سیاست دانوں کی طرف سے احساسِ جرم کا اندازہ لگا سکتا تھا۔ اس طرح کی باتیں تند و تیز دلائل کو جنم دیتی تھیں، لیکن آخر میں ہر کوئی احساسِ زیاں کے ساتھ ایک شکست خوردہ شخص کی طرح مُنتشر ہو جاتا۔

تاہم جب میں فارن سروس میں داخل ہوا تو بنگلہ دیشی دوستوں سے میرے روابط میں اضافہ ہوا۔ میں نے کئی بنگلہ دیشی سفارت کاروں سے ملاقاتیں کیں جنہیں میں نے نرم گُفتار اور نفیس پایا۔ چند مواقع ایسے بھی آئے جب بنگلہ دیشی سفارتی ساتھیوں نے ون آن ون ملاقاتوں کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ کون کس سے ملا، بنگالی دوستوں کی طرف سے بار بار دہرائی جانے والی بات مغربی پاکستانی حکام کے بنگالی آبادی پر کیے جانے والے مظالم تھے۔ وہ فوج اور سول بیوروکریسی کو موردِ الزام ٹھہراتے جو مشرقی پاکستان کو اپنی کالونی یا دوسرے درجے کے شہری سمجھتے تھے۔

پاکستان کے نقطہء نظر سے، خاص طور پر 1971ء کے بعد کی نسلوں کے لیے بنگلہ دیش ایک برادر ملک رہا ہے جس کی پاکستان سے علیحدگی اگرچہ تکلیف دہ تھی لیکن اسے قبول کیا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں فوجی آمریت علیحدگی کے عمل کا سبب بنی ہو تاہم سیاست دانوں پر بھی اپنے بنگالی ہم منصبوں سے اختلافات کو بالغ نظری سے حل کرنے کی برابر کی ذمے داری عائد ہوتی تھی۔ بنگلہ دیش بھلے ہی ایک آزاد ملک رہا ہو لیکن اس کا سیاسی منظر بھارتی عنصر کی وجہ سے منقسم سماج کی تصویر کشی کرتا ہے۔ عوامی لیگ کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں بھارتی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔

2009ء سے اقتدار میں موجود شیخ حسینہ پاکستان کے خلاف نفرت کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ گزشتہ 14 برسوں کے دوران اُنہوں نے اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کو مضبوط کیا ہے۔ حزب اختلاف بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) بقا کی جنگ لڑ رہی ہے کیونکہ اس کی رہنما بیگم خالدہ ضیاء کی حالت کمزور ہے اور وہ گزشتہ کئی برسوں سے گھر میں نظر بند ہیں۔ اُن کا بیٹا لندن میں رہتا ہے اور شیخ حسینہ کی حکومت نے اسے مفرور قرار دیا ہوا ہے۔ سرِدست شیخ حسینہ کو اپنے سیاسی حریفوں سے بہت کم مُسابقت کا سامنا ہے۔

Advertisement

چونکہ پاکستان نے بھارتی تسلّط کے خلاف مزاحمت کی ہے، مؤخرالذکر نے پاکستان کو جنوبی ایشیا میں تنہا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت نے 2016ء سے پاکستان میں سارک سربراہی اجلاس کی میزبانی کو روک رکھا ہے۔ خلیج بنگال مُباحثے (21-23 نومبر) میں شرکت کرنے والے بھارتی صحافیوں اور اسکالرز نے سارک کو مردہ قرار دیا۔ عوامی لیگ کے ماتحت بنگلہ دیش کو سارک کو تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالنے میں کوئی عار نہیں ہوگی کیونکہ یہ سابق صدر ضیاء الرحمان کی میراث ہے۔ خلیج بنگال انیشیئیٹو فار ملٹی سیکٹرل ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن (بی آئی ایم ایس ٹی ای سی) سارک کا متبادل معلوم ہوتا ہے کیونکہ آٹھ ممالک میں سے پانچ (بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، نیپال اور سری لنکا) سارک کے رکن ہیں۔

بنگلہ دیشی میزبانوں نے “خلیج بنگال مُباحثے” میں پاکستان مخالف کوئی بات نہیں کی۔ تقریب میں بنیادی طور پر انڈو پیسیفک اتّحاد پر توجہ مرکوز کی گئی جس میں شامل ہونے کے لیے بنگلہ دیش پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ انڈو پیسیفک الائنس کے لیے وقف ایک خصوصی سیشن سے امریکا اور جاپان کے سفیروں اور برطانیہ اور آسٹریلیا کے ہائی کمشنروں نے خطاب کیا جس میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایسے اتّحاد کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تقریب میں چین شریک نہیں تھا جس کی وجہ سے پوری تقریب یک طرفہ تھی۔ بنگلہ دیش کے لیے یہ ایک مشکل مطالبہ ہو سکتا ہے کیونکہ وہ چین سے تعلّقات کو خراب نہیں کرنا چاہے گا جس نے ملک میں قیمتی سرمایہ کاری کی ہے۔ بنگلہ دیش چین اور بھارت کے درمیان کس طرح توازن برقرار رکھتا ہے، یہ اس کی سفارت کاری کا امتحان ہوگا۔

پاک بنگلہ دیش تعلّقات کے حوالے سے بنگلہ دیشی مذاکرات کاروں نے نجی طور پر معافی کا معاملہ اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے معافی مانگنے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلّقات بہتر ہو سکتے ہیں۔ چونکہ بنگلہ دیش میں دسمبر 2023ء تک عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اس لیے پاکستان کی جانب سے معافی کو عوامی لیگ اپنی فتح تصور کرے گی۔ اس سے دوستانہ تعلقات کی راہ ہموار ہوگی۔

تاہم جب اُن تاریخی حقائق کی یاد دہانی کروائی گئی جس کے تحت اپریل 1974ء میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے وزرائے خارجہ کے درمیان نئی دہلی میں سہ فریقی معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد معافی کا معاملہ طے پایا تھا تو بنگلہ دیشی مذاکرات کاروں نے موضوع بدل دیا۔ اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ شیخ مجیب الرحمان نے حکومتی ترجمان کی طرح صاف صاف بیان دیا کہ “وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ماضی کو بھول جائیں اور ایک نئی شروعات کریں اور یہ کہ بنگلہ دیش کے لوگ معاف کرنا جانتے ہیں”۔ تاہم یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ شیخ مجیب کے اعلان کو عوامی لیگ کی قیادت نے نظرانداز کر دیا ہے جو پاکستان مخالف بیانات جاری رکھے ہوئے ہے۔

کیا کسی کو اِس بات سے حیرانی ہوتی ہے کہ معافی کے الفاظ سے شیخ حسینہ کی انا کی تسکین ہوتی ہے؟ کیا پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بات چیت ہونی چاہیے اور تعلقات میں گرم جوشی کو واپس لانا چاہیے؟ جولائی 2002ء میں بنگلہ دیش کے دورے کے دوران صدر پرویز مشرف نے ڈھاکا کے مضافات میں واقع شہداء کی یادگار ساور میں 1971ء کے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے اسی بات کو وزیراعظم خالدہ ضیاء کی طرف سے دی گئی ضیافت میں دہرایا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا بنگلہ دیش مکتی باہنی کے ہاتھوں غیر بنگالیوں کے قتل پر پاکستان کی معافی کا بدلہ دے گا، بنگلہ دیشی دوست غیر وابستگی کا اظہار کر رہے تھے۔ بنگلہ دیش کی تاریخ کے ساتھ ایک اور مسئلہ ہے۔ عوامی لیگ کا دعویٰ ہے کہ “جنگ آزادی” کے دوران تیس لاکھ سے زیادہ بنگالی مارے گئے جبکہ سرمیلا بوس جیسی تنقیدی مفکّر نے اس دعوے کو بڑی مبالغہ آرائی قرار دیا۔

فی الحال پاکستان کو یہ مؤقف اختیار کرنا پڑے گا کہ جغرافیائی سیاسی لحاظ سے بھارت کا بنگلہ دیش پر کافی اثر و رسوخ ہے۔ یہ احساس بنگلہ دیشی اقتدار کی راہداریوں اور فکری حلقوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے تعلّقات کو بہتر بنانے کی کسی بھی کوشش کو بنگلہ دیش کی جانب سے زیادہ سے زیادہ مزاحمت یا کم از کم ہچکچاہٹ کا سامنا کرنا پڑے گا جب تک کہ پاک بھارت تعلّقات بہتر نہیں ہوتے۔ لہٰذا سمجھداری “انتظار کرو اور دیکھو” کے نقطہء نظر کا تقاضا کرتی ہے۔

Advertisement

Next OPED