بڑھتی قیمت، کم مقدار
افراطِ سُکڑاؤ (Shrinkflation) ہمارے ارد گرد ہر جگہ موجود ہے لیکن ہم عام طور پر اِس کا ادراک یا مشاہدہ نہیں کرتے۔ اسلام آباد کے نیول اینکریج ایریا میں گھر میں بنی نہاری فروخت کرنے والے ایک شخص نے حال ہی میں بتایا کہ وہ ایک کلو نہاری میں 100 گرام گائے کا گوشت دیتے ہیں۔ تاہم نہاری کی مشہور دکانیں اپنے صارفین کو ایک کلو نہاری میں صرف 750 گرام گائے کا گوشت ہی فراہم کرتی ہیں۔
اسی طرح بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (IIU) کے ہاسٹل یا اسلام آباد کی کسی عام سپر مارکیٹ سے روٹی خریدتے وقت بھی کوئی فرق دیکھ سکتا ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ہاسٹل کی روٹی سپر مارکیٹ کی روٹی سے زیادہ موٹی اور بھاری ہوتی ہے۔ یونیورسٹی کیفے کے مینیجر سے وجہ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ فرق خالص وزن میں ہے۔ ان کی روٹی کا وزن 250 گرام ہے جبکہ بازار میں فروخت ہونے والی روٹی 100 سے 200 گرام کے درمیان وزن کی ہوتی ہے۔
مزید برآں، تقریباً ہر بار شیمپو خریدتے وقت یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بوتل ٹھیک سے کنارے تک نہیں بھری گئی ہے۔ مشہور برانڈز کے صابن میں گہرے منحنی خطوط ہوتے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان کی مقدار ماضی کے مقابلے میں کم ہے۔ یہی معاملہ عام لوگوں کے لیے استعمال کی جانے والی ہر چیز کا ہے، بشمول وہ اینٹیں جو وہ مختلف بھٹوں سے خریدتے ہیں کیونکہ ان کا حجم مختلف ہو سکتا ہے۔
شے کے حجم، معیار یا مقدار کو سُکیڑ کر اس کی قیمت کو برقرار رکھتے ہوئے یا بعض اوقات اس میں اضافہ کرنے کے اس کاروباری عمل کو افراطِ سُکڑاؤ (Shrinkflation) کہتے ہیں۔ یہ اصطلاح 2009ء میں برطانوی ماہر اقتصادیات پیپا مالمگرین (Pippa Malmgren) نے وضع کی تھی۔ برائن دومترووِک (Brian Domitrovic) نے بھی اپنی 2009ء کی کتاب Econoclasts: The Rebels Who Sparked the Supply-side Revolution and Restored American Prosperity میں افراطِ سُکڑاؤ کو افراطِ جمود کے برعکس استعمال کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں، “دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے افراطِ جمود کی شدید مدت کے لیے ڈپریشن کا کاروبار کیا۔ درحقیقت، یہ “افراطِ سُکڑاؤ” تھا جس میں قیمتوں میں اضافے کے ساتھ معیشت سُکڑ رہی تھی۔”
ہمیں اس استعمال کے حالیہ شواہد نہیں ملے ہیں، یہ مالمگرین کا استعمال ہے جو پچھلے دو سالوں میں بڑھا ہے۔ کمپنیاں معیاری سائز کے لیے قیمتیں بڑھانے کی بجائے اپنی مصنوعات کے حجم کو کم کرتی رہتی ہیں۔
ایک تازہ ترین تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کسی مصنوعات (پروڈکٹ) کو خریدنے کا فیصلہ کرتے وقت صارفین سب سے پہلے جس چیز پر غور کرتے ہیں وہ اس کی قیمت اور معیار ہے۔ مختلف تجربات کے ذریعے یہ بات قائم کی گئی ہے کہ پیک شدہ سامان کی صورت میں زیادہ تر صارفین اس وقت تک حجم کی پیمائش کرنے یا اشیاء کی تعداد کو گننے کی زحمت نہیں کرتے جب تک کہ اس میں کوئی خاص فرق نہ پڑ جائے۔ برطانیہ میں دفتر قومی شماریات نے 2012ء سے 2017ء تک افراطِ سُکڑاؤ کے 2500 سے زیادہ واقعات کی اطلاع دی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کی مارکیٹوں پر ایک نظر یہ ظاہر کرتی ہے کہ صارفین افراطِ سُکڑاؤ کے بارے میں انتہائی باخبر ہیں اور یہاں تک کہ اس حوالے سے عالمی کمپنیوں پر بھاری نقصانات کے لیے مقدمات بھی دائر کرتے ہیں۔ حال ہی میں امریکا میں ایک صارف نے میکڈونلڈز پر یہ کہتے ہوئے مقدمہ دائر کیا کہ وہ جو برگر بیچتے ہیں وہ اتنا بڑا اور رسیلا نہیں جتنا اشتہار میں دکھایا گیا ہے۔ وہ 50 ملین ڈالر ہرجانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اگر کمپنیاں صارفین کو واضح طور پر بتا دیتیں کہ وہ اپنی مصنوعات کی مقدار کم کرنے جا رہی ہیں تو حالات مختلف ہوتے۔ صارفین سے حقائق چھپانا دھوکا دہی کے زمرے میں آتا ہے جو کہ ناقابل قبول ہے۔ اگرچہ یہ عمل بین الاقوامی سطح پر عام ہے لیکن پاکستان میں اس کے بارے میں بہت کم آگاہی ہے۔
پاکستان میں اس تصور کو سب سے زیادہ نظرانداز کیا جاتا ہے اور بدترین طور سے چھپا دیا جاتا ہے۔ ایک سرکاری ادارہ، ڈائریکٹوریٹ آف کنزیومر پروٹیکشن کونسل کی ویب سائٹ کی جانچ سے پتا چلتا ہے کہ اس میں اصطلاح “افراطِ سُکڑاؤ” کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اسی طرح جب کسی بڑے شہر کے ڈپٹی کمشنر سے حکومت کی جانب سے افراطِ سُکڑاؤ کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ “افراطِ سُکڑاؤ کیا ہے؟”
کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر اشیاء کی قیمتیں مقرر کرنا شہری انتظامیہ کا روزمرہ کا معمول ہے۔ اس کے بعد نوجوان اسسٹنٹ کمشنر بازاروں میں جا کر ان قیمتوں کو نافذ کرتے ہیں تاکہ ان قیمتوں کو برقرار رکھا جائے۔ تاہم دکانداروں کے لیے ایسا کرنا مشکل ہے کیونکہ انہیں یہ قیمتیں غیر حقیقی لگتی ہیں۔ مثال کے طور پر گوشت کے معاملے میں دکاندار صحت مند بکرے کی اصل قیمت سے کم قیمت پر گوشت کیسے بیچ سکتے ہیں؟ اسی طرح اگر گندم کی قیمت میں اکثر اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے تو تاجر اسے مقررہ قیمت پر کیسے بیچ سکتے ہیں؟ تاجر افراطِ سُکڑاؤ کا سہارا لیتے ہیں جو ان کے منافع کی بھی حفاظت کرتی ہے اور قیمتوں پر کڑی نظر رکھتے صارف کو بھی مطمئن کرتی ہے۔ مارکیٹ مینیجرز بار بار مصنوعات کی مقدار اور معیار کا بے ترتیبی سے تجزیہ کرتے ہیں اور ان لوگوں کا پتا لگاتے ہیں جو افراطِ سُکڑاؤ میں ملوث ہیں۔
اس مسئلے کے حل کا ایک حصہ بازار پر عائد قوانین کو ہٹانا (ڈی ریگولیٹ) ہے۔ قدرتی طور پر یہ اپنا توازن بحال کرے گا اور معیشت اپنی خرابیوں کو ٹھیک کر لے گی۔ ورنہ بہت سی چیزیں غریب لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گی جو ہمارے معاشرے کا پچاس فیصد سے زیادہ ہیں۔
اس وقت حکومت ادویات کی قیمتیں نہ بڑھنے دینے پر بضد ہے۔ یہ سننے میں اچھا لگتا ہے لیکن حقیقت پسندانہ انداز نہیں ہے کیونکہ پچھلی حکومت کو یہ کہتے ہوئے قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا تھا کہ اگر ان کی قیمتیں نہ بڑھائی گئیں تو ادویات مارکیٹ سے غائب ہو جائیں گی۔
عالمی منڈی میں اس وقت خام مال کی قیمتیں بڑھی ہوئی ہیں اور پاکستانی صنعت کا انحصار درآمدات پر ہے۔ بھارت میں حکومت نے پیٹنٹ کے قوانین میں نرمی کی ہے اور اب اسے ترقی پذیر دنیا کی فارمیسی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ تاہم پاکستان اب بھی سخت برانڈنگ قوانین پر عمل پیرا ہے جس کے خلاف دنیا بھر میں انسانی حقوق کے کارکنان مشتعل ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ جان بچانے والی ادویات سب کے لیے دستیاب ہونی چاہئیں۔ لیکن چونکہ افراطِ زر کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا اس لیے ہماری مارکیٹ افراطِ سُکڑاؤ کی مزید گہرائی میں ڈوب جائے گی۔
یہ واضح ہے کہ اگر افراطِ سُکڑاؤ اور افراطِ زر ہی دستیاب اختیارات ہیں تو صارفین افراطِ سُکڑاؤ کی طرف جا سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اب یہی صورتحال ہے۔ کچھ متعلقہ معلومات اکٹھی کرنے کے لیے میں نے نیسلے سے رابطہ کیا اور ان سے افراطِ سُکڑاؤ کے تناظر میں پیکجنگ کے طریقہ کار کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ دفتری اوقات میں جواب دیں گے۔ تاہم تب سے کئی دفتری اوقات گزر چکے ہیں اور مجھے ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا۔ نیسلے پلاسٹک کی بوتلوں اور پیک شدہ مصنوعات کے سب سے بڑے پیداواری اداروں میں سے ایک ہے لیکن وہ عوام کو افراطِ سُکڑاؤ کے بارے میں آگاہ نہیں کرنا چاہتے۔ میڈیا بھی اس معمول کے عمل پر بات کرنے سے انکاری ہے۔ صحافی محض ماہرین بن کر رہ گئے ہیں جو سیاسی بیان بازی سے خوش ہیں۔ ان کے سامعین بھی جو کچھ وہ بیچتے ہیں اسے کھا کر خوش ہوتے ہیں۔
یہ معمول ایک ایسی کھائی پیدا کرتا ہے جس میں صنعت کار اپنے منافع کو بڑھانے کے لیے بے تابی سے افراطِ سُکڑاؤ میں مشغول رہتے ہیں۔ اسی طرح عوام کو پیک شدہ اور کھلی مصنوعات کی پیمائش کے طریقوں کے بارے میں آگاہی دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مارکیٹ کے کھلاڑیوں کے دھوکے میں نہ آئیں۔ حکومت کو اس معمول کو سختی سے روکنے کے لیے اختیارات کے ساتھ ایک ادارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی اپنی مصنوعات کا حجم کم کر رہا ہے تو اسے اپنے صارفین کو اس کے بارے میں جامع انداز میں آگاہ کرنا چاہیے۔ جب صارفین تعلیم یافتہ ہوں گے تو اُس چیز کے حصول میں جس کی وہ ادائیگی کرتے ہیں، باخبر انتخاب کے قابل ہو جائیں گے۔
اس لیے یہ منطقی ہے کہ چھوٹی صنعتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے کیونکہ وہ افراطِ سُکڑاؤ سے بچ کر فرق پیدا کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں۔






