عندلیب عباسی

25th Sep, 2022. 09:00 am

بے سمت خارجہ پالیسی

دوست ممالک پاکستان سےمنہ موڑ رہے ہیں، پڑوسی پریشان ہیں۔عالمی مسائل توجہ حاصل کرنے کے لیے چیخ رہے ہیں۔ یہ وہ مقام نہیں جہاں پاکستان چھ ماہ قبل تھا۔ تب یہ افغانستان میں تبدیلی کی قیادت کرنے والا ملک تھا۔ یہ او آئی سی کے لیے مشاورت کا مرکز بن گیا تھا اوروسطی ایشیائی رابطے کے لیے ایک رہنما کے طورپرابھرا تھا۔ لیکن اب چھ ماہ بعد ہمارے دوست بھی ہم سے گریزاں ہیں۔ اوریہ بات کسی اور نے نہیں بلکہ وزیراعظم نے خود بتائی ہے۔ چھ ماہ میں افغانستان جیسے پڑوسیوں نے ہم پرڈبل گیم کھیلنے کا الزام لگانا شروع کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ او آئی سی کے وعدے دم توڑچکے ہیں،اور وسط ایشیائی رابطوں کے اقدامات واپس معمول کی بات چیت اورمفاہمت کی یادداشتوں تک محدود ہوگئے ہیں۔

حالیہ ایس سی او(شنگھائی تعاون تنظیم) کا سربراہی اجلاس پاکستان کے لیے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کا ایک اچھا موقع تھا۔ ویژن، ایک ٹھوس منصوبے اورکچھ سمجھداری سے تیار کردہ دو طرفہ اورکثیرجہتی ترغیبات کے ساتھ متعدد اہم عالمی کھلاڑیوں سے رابطہ کرنے کا بہت اچھا موقع تھا۔ تاہم، اسے محض کچھ ٹوکن مصافحوں اورملاقاتوں میں کچھ حاصل کیے بنا ضائع کردیا گیا۔وزیر اعظم نے کچھ توجہ حاصل کی،لیکن کسی قابل فخر وجہ سے نہیں۔ طنزو مزاح کے معروف جمی فالن شو کی وجہ سے ان کی ایک ویڈیو وائرل ہو گئی جس میں وزیراعظم کومرکز نگاہ بنایا گیا تھا، جس میں پاکستانی وزیر اعظم کا روسی صدر پیوٹن کے ساتھ ملاقات میں اپنے ایئرفون کے ساتھ اناڑی طریقے سے الجھنے پر مذاق اڑایا تھا۔یہ مضحکہ خیز توہوسکتا تھا، لیکن اس سے ریاست کی غیر اہمیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔اس دورے کے بعد وزیر اعظم یا وزیر خارجہ کی جانب سے کوئی ٹھوس بیان سامنے نہ آنے سے اس تاثر کو مزید تقویت ملی۔ اور یہ ایسے وقت میں ہوا، جب پاکستان کوعالمی توجہ، ہمدردی، مشغولیت کی اشد ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک اسٹریٹجک فریم ورک تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ بین الاقوامی مقام کو کیسے بحال کیا جائے۔

1-خارجہ پالیسی کے تسلسل کو حاصل کریں، لیکن تمام رہنما خارجہ پالیسی کی سوجھ بوجھ کے حامل نہیں ہیں۔ تمام رہنما اس پیچیدہ ڈومین کو سمجھنے اوراس پرعمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ذوالفقارعلی بھٹو ایک غیرمعمولی لیڈرتھے۔ ایک آمر ہونے کے باوجود صدر مشرف کے پاس بین الاقوامی توجہ اورحمایت حاصل کرنے کی مہارت تھی۔ بدقسمتی سے ملک پرچاربارحکومت کرنے کے باوجود زرداری اورشریف برادران نے اس انتہائی اہم شعبے کے حوالے سے غیرمعمولی عدم دلچسپی اورتوجہ کا فقدان ظاہر کیا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان خارجہ پالیسی کے حوالے سے بہت پرجوش تھے اوران کی خصوصی قیادت میں پاکستان کا قد بین الاقوامی میدان میں بلند ہوا۔ بلاول بھٹو کی بطور وزیر خارجہ تعیناتی قبل از وقت ہونے کی عکاسی کرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے خارجہ پالیسی کی قیادت کرنے کے بجائے پچھلی نشستوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یا تو ہم ان کے طرزعمل میں مکمل تبدیلی کا مشاہدہ کریں، یا وزیر مملکت حنا ربانی کھرکو وزارت خارجہ کا عہدہ دے دیا جائے، یا پھرانہیں آگے بڑھنے اورکھوئے ہوئے وقت اورقد کو بحال کرنے کی کوئی حقیقی کوشش کرنے کا اختیار دیا جائے۔

2-پالیسی کی سمت پراتفاق رائے حاصل کریں۔گزشتہ تین برسوں میں کی جانے والی کلیدی کوششوں میں سے ایک تمام اسٹیک ہولڈرز کی مدد سے خارجہ پالیسی پر زیادہ توجہ دینے کیلئے قومی سلامتی دستاویز تیار کرنا تھا۔اس مقصد کے لیے دفتر خارجہ نے قومی سلامتی کے مشیر کے ساتھ مل کر اسٹریٹجک کمیونیکیشن اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں سکیورٹی ایجنسیاں، دفتر خارجہ اورمتعلقہ وزارتیں شامل تھیں۔ان سب نے اپنی نوعیت کی اس پہلی دستاویزکی تخلیق میں اپنا حصہ ڈالا جسے ایک سیکورٹی ڈائیلاگ کانفرنس میں شروع کیا گیا تھا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس بین الاقوامی مسائل کے حوالے سے کوئی سمت دکھائی نہیں دیتی۔ان کے بیانات کا ٹھوس الفاظ میں کوئی مطلب نہیں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ علاقائی یا عالمی سطح پر آگے بڑھنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

سیکورٹی ڈائیلاگ کانفرنس میں تمام اسٹیک ہولڈرزکی جانب سے جس اہم تبدیلی پر زور دیا گیا وہ یہ تھی کہ پاکستان جیوپولیٹکس سے جیواکنامکس کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان صرف سیاسی مصلحتوں سے ہم آہنگ ہونے کی بجائے ملک کی معاشی ترقی کے لیے موزوں فیصلے کرے گا۔ دوسرے ممالک کے ذریعہ علاقائی سطح پرپیدا ہونے والے تنازعات میں ملوث ہونے سے گریز کی ضرورت کا خصوصی ذکر کیا گیا۔ اسی لیے بین الاقوامی سطح پرتیل کی قیمتیں بڑھنے پراس پالیسی کے تحت ایک مشترکہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ سستا تیل، گیس اورگندم خریدنے کے لیے روس سے رجوع کریں۔

Advertisement

نئی حکومت کے اس اقدام کو مسترد کردیا ہے اوراس کے نتیجے میں پٹرولیم کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے بہت بڑا معاشی دباؤ پیدا کردیا ہے۔ وزیراعظم نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پرروسی صدرسے ملاقات کی لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ روس سے تیل اور گیس کی خریداری کی حکمت عملی کیا ہے -اگرکوئی حکمت عملی ہے تو۔اس غیر یقینی صورتحال کو دور کرنے کے لیے خارجہ پالیسی کی سابقہ سمت کی واضح توثیق،کم ازکم اس سلسلے میں،کی فوری ضرورت ہے۔ اگرحکومت ایک مختلف راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے، تو اس ابہام کو دور کرنے کے لیے اس نئی سمت کا واضح نقشہ بنانے اورتمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ شیئر کرنے کی ضرورت ہے۔

3-ان ممالک اورسفارت خانوں کو شامل کریں جن سے ہمیں زیادہ فائدہ مل سکتا ہے،نظم و نسق کے آخری منصوبے کے تحت خارجہ پالیسی کی یادداشت میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ توجہ امداد سے تجارت پر منتقل کی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سفارت خانے نہ صرف سرکاری اہلکاروں کے غیرملکی دوروں کو سہولت فراہم کریں گے بلکہ تجارت کو فروغ دینے میں فعال کردار ادا کریں گے۔برآمدات اس وقت بڑی مشکلات کا شکار ہے کیونکہ ٹیکسٹائل ملوں کو بڑھتی ہوئی لاگت کی وجہ سے سخت مسابقت کا سامنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو اپنے سفارت خانوں کو جلدازجلد فعال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تجارت کی اس سست روی کا مقابلہ کرنے کے لیے مارکیٹنگ کے جارحانہ منصوبے تیار کیے جاسکیں۔ حکومت کو ان اہم ممالک کی نشاندہی کرنی چاہیے جن پر توجہ مرکوز کی جائے۔ کورونا بحران نے سفارت خانوں کا کردار بہت اہم بنا دیا۔ 2020ء میں تاریخ میں پہلی بار اہم سفارت خانوں کے سفیروں اورعملے کو تربیت دی گئی کہ وہ پاکستانی مصنوعات کے لیے مارکیٹ میں طلب پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے متحرک برانڈ مینیجرزکے لیے اپنی ذہنیت کو صرف رسمی سجاوٹ میں مصروف سفارتی سفیر بننے سے تبدیل کریں۔اسے مزید سختی کے ساتھ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری مصنوعات اور خدمات کو فروغ دینے کے لیے سفارت خانوں کو مخصوص اہداف دینے کی ضرورت ہے۔ اوراس بات کو یقینی بنانے کے لیے باقاعدہ نگرانی اور تشخیص کی ضرورت ہے کہ مقرر کردہ اہداف کو فعال طورپرحاصل کیا جا رہا ہے۔

   4-حمایت کے لیے ایک لابنگ مہم چلائیں، پاکستان نہ صرف وسطی ایشیائی منڈیوں بلکہ اسلامی دنیا میں بھی ایک رہنما کے طورپرابھررہا تھا۔ 2022ء کی پہلی سہ ماہی میں 15 سال کے وقفے کے بعد منعقد ہونے والے او آئی سی کے دو سربراہی اجلاس مسلم دنیا میں پاکستان کی آواز کو اہمیت دے رہے تھے۔ پاکستان کی کوششوں کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی جانب سے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا ڈے کے طور پر تسلیم کرنا اس حیثیت کی تصدیق تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ اچانک یہ جوش ختم ہو گیا ہے۔ اسلامی ممالک کو کالز کا سلسلہ جاری ہے، لیکن یہ خارجہ پالیسی کے معاملات پر بحث کرنے سے زیادہ مالی امداد حاصل کرنے کے لیے کی جارہی ہیں۔ وزیراعظم اوروزیرخارجہ خارجہ پالیسی کے معاملات کوپس منظر میں نہ جانے دیں۔اگر پاکستان کو کشمیر،فلسطین وغیرہ کے مسائل پر رہنمائی کے لیے نہیں دیکھا گیا توعالم اسلام پاکستان کو معمولی اہمیت بھی نہیں دے گا۔ اس لیے خارجہ پالیسی کے مشیروں کا ایک گروپ بنانے کی ضرورت ہے جو اہم علاقائی، اسلامی اورعالمی معاملات پرایک ٹھوس اور فعال منصوبہ اورسمت کا تعین کرے۔

دنیا ان کا بہت کم احترام کرتی ہے جو اپنی پوزیشنزقائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں،اپنا ایک موقف اختیار کریں اوراہم عالمی مسائل کے لئے لڑیں.اپنے پڑوسی ممالک کی نگرانی سے سبق ملتا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی صحیح یا غلط ہے۔ ہم نے افغانستان جیسی کئی قوموں کو مصائب کا سامنا کرتے دیکھا ہے، کیونکہ ان کی قیادت نےکوئی واضح موقف نہیں اپنایا جب کہ ان کےعوام غیرملکی تسلط کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ دوسری جانب ایران، چین اوریہاں تک کہ بھارت جیسے ممالک نے بین الاقوامی اورعالمی سطح پرسمجھداری سے اقدام کیے ہیں، ہر وہ طریقہ اختیار کیا اور تمام موقف اختیار کیے جس سے ان کو فائدہ پہنچ سکتا ہیں۔ امریکی ناراضگی اورپابندیوں کے باوجود ان ممالک نے اپنے ملک کے جیو اکنامک فائدے کی قیمت پرسپر پاورلائن کی راہ اپنانے والوں سے بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اگر کسی ملک کو دنیا کے لیے اہمیت کی ضرورت ہے، اگر وہ اپنا بین الاقوامی مقام دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہے، تو اسے’’غیر ملکی‘‘ پالیسی کو ایک ایسی پالیسی کے طور پرتسلیم کرنا بند کرنا ہوگا جو’’غیر ملکی‘‘ طاقتوں کے زیرانحصار، قیادت اور ہدایت پرمبنی ہے۔

مصنفہ کالم نگار، کنسلٹنٹ،کوچ اورتجزیہ کار ہیں،  ان سے [email protected] اورAndleebAbbas پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

Advertisement

Next OPED