امریکا کی قلابازی ۔۔ یا کُچھ اور؟
مُصنّفہ MITE کی ریکٹر ہیں۔
’’پاک امریکا تعلّقات سیاسی حقیقت پسندی کی درسی کتاب جیسے ہیں۔‘‘ 1947 کے بعد سے پاکستان اور امریکا کے درمیان ہم آہنگی کی تشکیل مُبہم ہی رہی ہے۔ دونوں جانب سے تعاون بڑی حد تک مجبوری پر مبنی ہیں۔ ایک سے زائد مواقع پر دونوں ریاستوں نے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے کے مفادات کو سبوتاژ کرنے کے لیے مختلف مفادات کی راہ اپنائی ہے۔ “جدید بین الاقوامی تعلّقات کے عجیب و غریب فریقین کا مُشکل تعلّق” ایسے ہی رشتے کو کہا جاتا ہے۔ نشیب و فراز پر مُشتمل یہ اتّحاد مشترکا خطرے کے ادراک کی کمی کا براہ راست نتیجہ ہے۔ پاکستان امریکا کے لیے بہترین شراکت دار ہے، اور تھا تاہم جب افادیت ختم ہو جاتی ہے تو رشتہ بھی رُک جاتا ہے۔
حال ہی میں امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک انتہائی نامناسب وقت پر پاکستان کے خلاف بلاجواز عوامی تنقید کی۔ انہوں نے پاکستان کو “دنیا کی خطرناک ترین قوموں میں سے ایک” قرار دیا اور اس کے جوہری اثاثوں کے تحفّظ کے اقدامات (پروٹوکول) پر تشویش کا اظہار کیا۔ یہ بیان کیلیفورنیا میں ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے فنڈ جمع کرنے کی ایک نجی تقریب کے دوران امریکی خارجہ پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے دیا گیا تھا۔ اگر وائٹ ہاؤس نے اُن کے تبصروں کا ایک تحریری بیان (ٹرانسکرپٹ) شائع نہ کیا ہوتا تو اس پر کسی کا دھیان نہ جاتا۔ تاہم کچھ طور سے یہ اِس بات کا تسلسل تھا کہ بائیڈن نے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلّقات آگے نہیں بڑھ رہے ہیں کیونکہ مبصرین کا خیال ہے کہ افغانستان سے نکلنے کے بعد امریکی ترجیحات میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کو بدنام زمانہ فون کال کبھی نہیں ہوئی۔ اکتوبر 2021ء میں امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین کا صدر بائیڈن کی انتظامیہ کے تحت پہلا اعلیٰ سرکاری دورہ بھی زیادہ خوشگوار نہیں تھا جس دوران انہوں نے بھارت میں واضح طور پر کہا تھا کہ پاکستان کا دورہ ایک “انتہائی مخصوص اور مشکل مقصد” کے لیے تھا۔
بائیڈن کے حالیہ تبصرے کے خلاف پاکستان بھر میں غم و غصہ تھا۔ جوہری اثاثے پاکستان کا اہم ترین اور حساس ترین معاملہ ہیں۔ غیر ضروری تبصرے کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو طلب کیا تھا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ بائیڈن کے بیان پر “حیران” ہیں۔ “میرا ماننا ہے کہ یہ بالکل اِسی قسم کی غلط فہمی ہے جو اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب روابط کی کمی ہوتی ہے”، انہوں نے مزید کہا۔
جس چیز نے اِس خاص تبصرے کو غالباً زیادہ تکلیف دہ بنا دیا وہ یہ سمجھنا تھا کہ تعلّقات شاید کافی وقفے کے بعد ٹھیک ہو رہے ہیں۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ ایک ہفتہ طویل دورہء واشنگٹن کو بہت سے لوگوں نے تعلّقات میں بہتری کی طرف اشارے کے طور پر دیکھا۔ اس سے پیشتر امریکا کے فراہم کردہ F-16 طیاروں کی دیکھ بھال اور پرزہ جات کی فروخت کا معاملہ طے پایا تھا جس کے بعد اسلام آباد میں امریکی سفیر نے آزاد کشمیر کا دورہ کیا۔ طیاروں کی دیکھ بھال پر بھارتی اعتراضات کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا، “یہ ایک موجودہ پروگرام کو برقرار رکھنے کا معاملہ ہے نا کہ کسی نئے پروگرام میں شامل کرنے کا، ایسا کرنا ہماری ذمے داری ہے۔” اُنہوں نے مزید کہا کہ پاکستان سے امریکی تعلّقات بھارت سے تعلّقات سے آزاد ہیں۔ یہ شاید پاکستان کی جانب سے امریکا کو الظواہری کو نشانہ بنانے کے لیے اپنی فضائی حدود فراہم کرنے کا اعتراف تھا، کیونکہ یہ افواہ گرم ہے کہ آئی ایس آئی نے اِس کے لیے خفیہ معلومات فراہم کیں۔ دوسرا یہ کہ پاکستان یوکرین کو 122 ایم ایم فوجی گولہ بارود فراہم کرنے کے حوالے سے برطانیہ سے تعاون کر رہا تھا۔
وسطی اور مغربی ایشیا، چین، ایران اور افغانستان سے مُتّصل پاکستان کا تزویراتی مقام امریکا کے لیے مُستقل کشش رکھتا ہے۔ اس طرح پاک امریکا سفارتی روابط میں مختلف اُتار چڑھاؤ کے باوجود تعلّقات کبھی بھی اُس نہج پر نہیں پہنچتے جہاں رابطہ بالکل ہی ختم ہو جاتا ہے کیونکہ تعلّقات کو مکمل طور پر ٹوٹنے سے بچانے کے لیے جلد یا بدیر کچھ تدبیری اقدامات کر لیے جاتے ہیں۔ اِس بار بھی صدر بائیڈن کے غیر سفارتی تبصرے اور پاکستان کی جانب سے شدید احتجاج کے بعد ایسا ہی ہوا۔ ہم نے پاکستان کے حق میں کچھ تبصرے دیکھے، کچھ اسے امریکا کی قلابازی بھی کہہ رہے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے واشنگٹن میں ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ، “امریکا کو پاکستان کے عزم اور اپنے جوہری ہتھیاروں کو محفوظ بنانے کی صلاحیّت پر بھروسہ ہے۔”
یقیناً اس سے اس حقیقت کی نفی نہیں ہوتی کہ امریکا میں پاکستان کے حوالے سے شدید شکوک و شبہات موجود ہیں۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جسے صبر سے زیادہ برداشت کیا جاتا ہے۔ تزویری دستاویز 2021ء اور 2022ء میں پاکستان کا بطور اتّحادی بھی ذکر تک نہیں ہے۔ افغانستان کے جس حوالے سے پاکستان کو دیکھا جاتا رہے گا، وہ پاکستان کی چین اور روس دونوں سے تزویراتی ہم آہنگی کے باعث پیچیدہ ہو چکا ہے۔ اب سات دہائیوں پر مُحیط ہمارا امریکا سے محبت اور نفرت کا رشتہ ہے جس کی پاکستان کے لیے قیمت بہت زیادہ رہی ہے۔
امریکا کھلے دل سے اِسے تسلیم کرے یا نہ کرے، وہ خطے میں اپنے تمام تزویراتی اہداف پاکستان کی مدد سے ہی حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے، جس میں اِس کا افغانستان سے حالیہ غیر رسمی، تاہم محفوظ انخلاء بھی شامل ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے افغان انخلاء سے پہلے اور بعد پاکستان سے روابط تقریباً بالخصوص افغانستان پر مرکوز رہے ہیں۔ تاہم پاکستان چاہتا ہے کہ تعلّقات کی مزید وسیع تر وضاحت کی جائے جس کی بنیاد جغرافیائی اقتصادی (جیو اکنامکس)، تجارت، سرمایہ کاری اور رابطے پر ہو۔ امریکا پاکستان کی جغرافیائی اقتصادی صُورت کو قبول نہیں کر رہا۔ امریکا کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشی اور اِسے قربانی کا بکرا بنائے چلے جانا نہ زمینی صورتحال میں بہتری لا رہا ہے اور نہ ہی تعلّقات میں۔
پاکستان کی طرف سے بھی کچھ حقائق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، امریکا پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے اور یہ گزشتہ 20 برسوں سے ایک سرکردہ سرمایہ کار بھی چلا آ رہا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی فیصلہ ساز اشرافیہ انتہائی امریکا نواز ہے۔
پاکستان کو واشنگٹن سے اپنے تعلّقات کی اہمیت کا احساس ہے لیکن ساتھ ہی اِس کے پاس اب وہ پالیسی اختیارات (آپشنز) موجود ہیں جو ماضی میں کبھی نہیں تھے، جس کی وجہ سے وہ امریکا سے اپنے تعلّقات پر نظرثانی کر سکتا ہے۔ اگست 2017ء میں بھی پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’’پاکستان امریکا سے مادی یا مالی امداد نہیں چاہتا بلکہ اپنے ساتھ اعتماد اور احترام سے پیش آنے کا خواہش مند ہے۔ “
فی الحال پاک امریکا تعلّق ایک سرپرست فریق جیسا ہے، اِسے ایسی شراکت داری کی جانب بڑھنا چاہیے جو فطرتاً زیادہ جامع ہو۔ پاکستان کی جانب سے جغرافیائی سیاسیات (جیو پولیٹکس) سے جغرافیائی اقتصادیات (جیو اکنامکس) کی تبدیلی کو واشنگٹن کی طرف سے مثبت پذیرائی ملنی چاہیے، فی الحال اِس کا تعلّقات میں بالکل بھی کردار نہیں۔ قصور پاکستان کا بھی ہے جس نے اِس تبدیلی کے حقیقی اِدراک کے لیے مطلوبہ ڈھانچہ تشکیل نہیں دیا۔






