پولیو کے خاتمے کی جدّوجہد
مُصنّف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
جنگ زدہ، نقدی کی تنگی کے شکار، غربت زدہ افغانستان کے ہمسائے ملک پاکستان کو پھیلتے پولیو وائرس سے متاثرہ باقی ماندہ خطوں میں سے ایک ہونے کے باعث عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا ہے۔ پولیو کے واقعات سے جو اعصابی نظام کو معذور کر سکتے ہیں اور سنگین صورتوں میں مُستقل فالج کا سبب بن سکتے ہیں، موجودہ اور آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لیے قومی ہنگامی صورتحال کے طور پر نمٹا جانا چاہیے۔ شہباز شریف حکومت کی جانب سے پولیو کے خاتمے کی تین روزہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ وائرس کے خاتمے کی افادیت کا آزمائشی امتحان ہوگا۔ پانچ سال سے کم عمر کے 4 کروڑ 40 لاکھ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کا کام مکمل ہونا چاہیے۔
سال 2023ء میں یہ پاکستان کی پہلی ملک گیر مہم ہے اور اِس کا ہدف ملک بھر کے 150 اضلاع ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف، جنہیں اندرونِ ملک شدید سیاسی دباؤ کا سامنا ہے، نے مہم کا افتتاح کیا اور اِس یقین کا اظہار کیا کہ وفاقی دارالحکومت کے ساتھ ساتھ تمام صوبائی حکومتیں کمزور کرنے والی اس بیماری کے خاتمے کے لیے تعاون جاری رکھیں گی۔ پاکستانی سیاست دانوں کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اِس سے قبل نافذ کردہ طرزِ حکمرانی اور حکمتِ عملیوں پر اختلافات کے باوجود زیادہ مواقع پیدا کریں اور ایسے اقدام کی حمایت کریں۔ مرکزِ بحث یہ بات ہونی چاہیے کہ آیا موجودہ مہم کارگر ثابت ہوگی اور گفتگو صرف پولیو متاثرین کے بارے میں ہونی چاہیے۔
سیاست کو ایک طرف رکھتے ہوئے اِس میں کوئی شک نہیں کہ پولیو وائرس کا دوبارہ سر اٹھانا عالمی تشویش کا سبب ہے۔ عالمی ادارہء صحت (ڈبلیو ایچ او) اور شراکت داروں نے پاکستان سمیت چند ممالک تک محدود پولیو وائرس کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم شہباز یہ حقیقت بیان کر سکتے ہیں کہ اُن کے بھائی نواز شریف کے دور میں، جو اِس وقت سپریم کورٹ کے مطابق مفرور ہیں، پولیو کے چند کیسز کا بھی مکمل طور پر خاتمہ کر دیا گیا تھا، تاہم اِس کی معمولی سی موجودگی بھی ملک کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ اِس لیے ضروری ہے کہ اس معاملے پر سیاست نہ کی جائے اور بڑے پیمانے پر عوام کی بہتری کے لیے بامقصد اور مرکوز حکمتِ عملی اپنائی جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2021ء میں پاکستان میں پولیو کا صرف ایک نیا کیس سامنے آیا۔ اِس سے امید پیدا ہوئی کہ حکام کی مشترکا کوششوں سے اس کمزور کرنے والی بیماری کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ تاہم 2022ء میں یہ تعداد خطرناک حد تک بڑھ کر 20 ہوگئی، عین اُسی سال جب ملک کا بیشتر حصہ سیلاب کی زد میں آ گیا تھا۔ تاہم سیلابی صورتحال اور پولیو کے واقعات کے درمیان تعلّق ابھی تک واضح نہیں ہے کیونکہ تمام 20 کیسز شمالی صوبے خیبر پختونخواہ (کے پی) میں رپورٹ ہوئے تھے۔ ان میں سے کم از کم 17 وزیرستان سے جبکہ باقی تین لکی مروت سے ملے ہیں۔
بین الاقوامی برادری کی طرف سے ملک کو باضابطہ طور پر پولیو سے پاک تسلیم کرنے کے لیے پاکستان کو کم از کم مسلسل تین سال تک پولیو وائرس کی مُنتقلی کی عدم موجودگی دکھانا ہوگی۔ یہ معیار یا ہدف پولیو کے خاتمے کے عالمی اقدام نے خود عالمی ادارہء صحت کی قیادت میں قائم کیا ہے۔ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے مطابق پاکستان کی اس بیماری کے خاتمے کی کوششوں میں سیلابی صورتحال کی وجہ سے رکاوٹیں آئیں جس سے طبی کارکنان (ہیلتھ ورکرز)، ویکسین کے منتظمین اور اِس کی عالمی سطح پر دستیابی کے بہت زیادہ مسائل پیش آئے۔
سیلاب کی صورتحال آہستہ آہستہ کم ہونے کے بعد پولیو کے خاتمے کے پروگرام کا مقصد ساڑھے 3 لاکھ سے زائد طبی کارکنان کو استعمال کرنا ہے جو پولیو کے قطروں کے ساتھ وٹامن اے کی خوراک پلانے جیسے کام انجام دیں گے۔ تاہم چیلنج اِس سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ قبائلی پٹی کی گہری قدامت پسند نوعیت اور مذہبی جنونیوں اور انتہا پسند گروہوں کی مزاحمت جو اس طرح کی مہم کو “مغربی سازشوں” کے طور پر دیکھتے ہیں، ثقافتی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ اثرات اور نتائج کو یقینی بنانے کے لیے دور دراز کے علاقوں میں پولیو سے متعلق آگاہی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ حیران کن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ملک بھر میں 100 سے زائد افراد پولیو ویکسین مہم کے دوران جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جنوری میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والا ایک حملہ جس میں انسدادِ پولیو مہم کے دوران چار پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے، اِس مسئلے کی سنگینی کو واضح کرتا ہے۔
بلاشبہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ پولیو کے خاتمے کی کوششیں تعطل کا شکار رہیں گی کیونکہ بین الاقوامی امداد کا بہترین استعمال کرنے کے لیے سیلاب کے بعد بحالی کی مہمات کو فعال کیا جانا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب سے ملک بھر میں 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے جبکہ 1700 ہلاک ہو چکے ہیں۔ بہت سے پاکستانی جن میں بچے بھی شامل ہیں، اُن بیماریوں سے جاں بحق ہو چکے ہیں جو ٹھہرے ہوئے سیلابی پانی سے پیدا ہوتی ہیں۔ کم وسائل کے ساتھ ترجیحات میں توازن اور مناسب پالیسی منصوبہ سازی اِس حکومت کے لیے اہم چیلنج ہوگا۔
پولیو مہم کو کامیابی سے مکمل نہ کرنے کی سیاسی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔ 2023ء انتخابی سال ہونے، پنجاب اسمبلی کی تحلیل اور سیاسی تعطل پاکستان کے شورش زدہ منظر نامے کی خصوصیت کے ساتھ، پی ڈی ایم حکومت کی اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت اِس کی انتخابی کامیابی کا تعین کرے گی جس کا بہت زیادہ انحصار حلقے کی سیاست پر ہے۔ اِن کی پیشرو پی ٹی آئی حکومت نے فلاحی ریاست کے لیے اپنی وابستگی کے ثبوت کے طور پر صحت کارڈ کے کامیاب نفاذ کے لیے بڑے پیمانے پر تعریف سمیٹی۔
کمزور نظامِ صحت اور تنازعات کا براہِ راست اثر بیماریوں کے پھیلاؤ اور معاشروں کی فلاح و بہبود پر بھی پڑتا ہے۔ پاکستان کو اِس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ اثر انداز ہونے کے مقصد سے خاص طور پر قبائلی / دیہی علاقوں میں ہسپتالوں کو جدید بنانے کے لیے اہم مالی معاونت کی جائے۔ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی لعنت سے نمٹنا شہریوں کے لیے سلامتی کی بہتر صورتحال کو بھی یقینی بنائے گا۔ بحیرہ روم کے خطے میں پولیو کے خاتمے کے لیے عالمی ادارہء صحت کے ڈائریکٹر حامد جعفری کے مطابق تنازعات کا شکار ممالک سے اِس وائرس کی برآمد کا خطرہ ہے جو صحت کی عالمی کوششوں کو پیچیدہ بناتا ہے۔
سچ یہ ہے کہ پاکستان کی انسدادِ پولیو پروفائل کی کامیابی 2023ء کی تازہ ترین مہم پر منحصر ہے جس میں ناکامی کی کوئی گنجائش نہیں۔