حمزہ حسین

18th Dec, 2022. 09:00 am

2022ء کا ریاض اعلامیہ

مُصنّف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔

ریاض میں عرب چین سربراہی اجلاس کے اختتام پر جاری کردہ 2022ء کا ریاض اعلامیہ پائیدار امن، پائیدار ترقی کو فروغ دینے اور سیکیورٹی کے تمام بقایا مسائل کو حل کرنے کا خاکہ فراہم کرتا ہے۔

چین اور عرب لیگ دونوں کی طرف سے پہلی چین،عرب ریاستوں کے سربراہی اجلاس کے اختتام پر جاری کردہ 2022ء کا ریاض اعلامیہ دونوں فریقوں کی طرف سے اس بات کا واضح اعلان ہے کہ موجودہ تزویراتی تعاون کو بڑھانا اور عالمی امن کے حصول کے لیے کام جاری ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چینی صدر شی جن پھینگ کے مشرق وسطیٰ کے کامیاب دورے کے نتیجے میں چین اور عرب لیگ دونوں کی جانب سے علاقائی خوشحالی کو فروغ دینے اور تنازعات کے حل کے لیے جامع حل وضع کرنے کے لیے یکساں خصوصیات ، معاہدے اور اصولی موقف سامنے آئے ۔ حالیہ اعلامیہ اس حوالے سے بہت سارے نکات فراہم کرتا ہے جس سے علاقائی اور بین الاقوامی امن کا دائرہ مزید وسیع ہوتا ہے۔

سب سے پہلے، دونوں اطراف کی قیادتوں نے پہلی بار چائنا عرب اسٹیٹس کوآپریشن فورم کے موجودہ فریم ورک سے فائدہ اٹھانے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا۔ عرب لیگ نے 2004ء میں کسی بھی ریاست کے ساتھ تعاون کا فورم قائم کیا۔چائنا عرب اسٹیٹس کوآپریشن فورم (سی اے ایس سی ایف )کے ذریعے متعدد ممالک بحیرہ مردار کے منصوبوں، ریلوے منصوبوں اور جوہری توانائی کی ترقی کے لیے گفت و شنید کر سکتے ہیں جو بیلٹ اینڈ روڈاقدام کے تحت آتے ہیں جیسا کہ چین نے اسے 2018ء میں مناسب طریقے سے تیار کیا تھا۔

چائنا عرب اسٹیٹس کوآپریشن فورم کو آگے بڑھانے والے اقتصادی رجحانات سے بھی امید کی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ چین کی عرب دنیا کے ساتھ تجارت 2022ء میں تیسری سب سے بڑی’ تجارت‘ بننے والی ہے ، جو  2021ء میں 330 ارب ڈالر پر رکی ہوئی تھی۔گزشتہ دہائی کے دوران تجارت میں 100 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جس کے ساتھ عرب لیگ میں چین کی سرمایہ کاری کا ذخیرہ 23 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔

Advertisement

یہ مثبت رجحانات مشترکہ طور پر ترقی کے نئے ذرائع جیسے سبز توانائی(قدرتی وسائل جیسے سورج کی روشنی، ہوا یا پانی سے پیدا ہونے والی توانائی )، کم کاربن سے ترقی اور لچکدار ڈیجیٹل معیشتوں کی تعمیر کے لیے مزید راہیں کھولتے ہیں۔اعلامیہ میں عالمی امن اور ترقی کے ساتھ ساتھ عرب ریاستوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ عالمی ترقی کے اقدام کے ذریعے بین الاقوامی امن اور ترقی میں تعاون کرنے اوراسے فروغ دینے کے لیے چین کی کوششوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں، جو کہ ترقی پذیر عالمی ڈیجیٹل تعلیمی اتحاد، غربت میں کمی کی اسکیموں، خوراک کے تحفظ کے اہداف کو مستحکم کرنے اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کی بات کرتا ہے۔ اور یہ عمل اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے مطابق ہیں۔

سعودی عرب اور چین عالمی معیشت کے دو بڑے کھلاڑی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ دونوں ممالک عرب لیگ کے ممالک کے ساتھ تیل اور گیس کے وسائل سے متعلق فوائد کو درست سمت میں استعمال کریں۔جیسا کہ یوکرائن کی جنگ کے باعث تشویش میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ عالمی معیشت کو ایندھن دینے کے لیے حقیقی معنوں میں سپلائی بیس کی ضرورت اہمیت کی حامل ہے۔ اس اعلامیے میں  اس حکمت عملی کو  کافی حد تک  کامیاب قرار دیا گیا ہے۔

تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ، ریاض اعلامیہ عالمی سلامتی کی رکاوٹوں کو دور کرتا ہے جس میں عشروں سے جاری فلسطینی اسرائیلی تنازعہ بھی شامل ہے جس نے ایک قابل عمل حل کا مشاہدہ نہیں کیا ہے جو تنازع کے تمام فریقوں کو پورا کرتا ہے۔چین اور عرب لیگ دونوں نے دو ریاستی حل کی بنیاد پر بحران کے منصفانہ اور قانونی حل کا مطالبہ کیا جب کہ اسرائیل سے اپنا قبضہ ختم کرنے اور فلسطین کو 1967ء کی سرحدوں پر واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔

یہ موقف اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح دونوں فریق جدید دور میں نوآبادیاتی نظام کی مذمت کرتے ہیں؟ جس کا مقصد مقبوضہ آبادی کو دبانا ہے جب کہ جبر یا طاقت کے استعمال کی عدم موجودگی میں عالمی قانون اور انصاف کو غالب لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

2022ء کے ریاض اعلامیہ میں درج تزویراتی حکمت عملی بھی خطے میں بار بار کی جانے والی امریکی سفارتی ناکامیوں کے بالکل برعکس ہے جس نے پورے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کی صورتحال کو جنم دیا ہے۔تنازعہ پر واشنگٹن ڈی سی کا موقف ٹرمپ انتظامیہ کے تحت یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے یا بائیڈن انتظامیہ کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اصولی موقف اختیار کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔

اس مشترکہ اعلامیہ کے تحت چین اور عرب ریاستیں ایسی پوزیشنیں لے رہی ہیں جو انتخابی یا بائنری (دو حصوں پر مشتمل )سے مبرا ہیں۔ اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ فلسطینیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت ان کے حق خود ارادیت کی ضمانت دی جائے۔

Advertisement

فلسطین کے ساتھ ساتھ اعلامیہ میں واضح کیا گیا ہے کہ عرب لیگ اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ تائیوان چین کا اٹوٹ حصہ ہے اور بیجنگ کی علاقائی خودمختاری اور سالمیت کا احترام کرتا ہے۔

اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ تمام عرب ممالک ایک چین کے اصول پر کاربند ہیں اور ہانگ کانگ کے خصوصی انتظامی علاقے میں ’ ایک ملک، دو نظام ‘کے فریم ورک کے اندر جمہوریت کی ترقی اور تکمیل میں چین کے کردار کی تعریف کی۔ریاستی خودمختاری کا یہ احترام ایک بار پھر ایشیا پیسفک خطے میں نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے جس میں اعتماد، مشترکہ مفاہمت اور باہمی مفادات خطے کی رہنمائی کرتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ بھی کئی دہائیوں سے فلسطینی اسرائیلی مسئلے سے ہٹ کر یمن میں ہونے والی پراکسی جنگ، پڑوسی ملک ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر تناؤ اور عدم تحفظ اور عدم استحکام کے باعث ہمسایہ ملک عراق کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ جیسا کہ نیٹو کا معاملے میں فوجی اتحاد بنانے کے آپشن پر غور کرنے کے بجائے رہنماؤں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2261، خلیجی اقدام اور یمن کے ساتھ ایک جامع قومی مکالمے کے نتائج کو بنیاد بنا کر یمن جیسے تنازعات کے سیاسی حل تک پہنچنے کی بات کی۔

اسی طرح اعلامیے میں شام اور لبنان کے بارے میں، شام کی خودمختاری کے ساتھ کھڑا ہونا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 پر عمل کرنا شامل ہے ، جس میں تمام دشمنیوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے تمام فریقوں کے لیے درست طریقہ کار سمجھا گیا ہے ۔

یہ واضح ہے کہ 2022ء کے ریاض اعلامیہ کے اصول امن کے لیے مثالی معیارات مرتب کرتے ہیں جسے عرب لیگ اور چین دونوں بڑے بین الاقوامی کھلاڑی کے طور پر برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔ یہ پائیدار امن کے منصوبے کے طور پر کام کرتا ہے۔

Advertisement

Next OPED