رؤف حسن

09th Oct, 2022. 09:00 am

پرچھائیوں کا تعاقُب

یہ دیکھنا انتہائی افسوسناک ہے کہ موجودہ حکومت عمران خان کی جانب سے اُس کے لیے بڑھتی مشکلات سے کیسے بچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایک جمہوری حکومت کو سازش کے ذریعے ہٹانے اور مجرموں کے گروہ کو حکومت میں شامل کرنے سے قبل مجھے بے شمار ڈرامائی مُباحثے یاد ہیں جو ناگُزیر طور پر اِس نتیجے پر پہنچے کہ خان اقتدار سے باہر ہوتے ہی سیاسی طور پر غیرمتعلّق ہو جائیں گے۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین اور اِن کے سہولت کاروں کو اِس بات کا بہت کم احساس تھا کہ اُن کی حمایت کی بنیاد کتنی گہری اور کتنی وسیع تھی جو اُن کی برطرفی کے بعد سے مُسلسل بڑھ رہی ہے اور جس نے اِس ٹولے کو ایک لمحہ بھی سکون سے رہنے نہیں دیا۔ مُجرم حکمراں ٹولہ اب ایک مشکل اور ہراساں ریوڑ سے مشابہت رکھتا ہے جس میں بے شُمار شیطان موجود ہیں۔

اِن میں دُھلائے گئے سیاستدانوں کا ایک ہجوم ہے جو کبھی اقتدار میں رہنے کے لائق نہیں تھے۔ یہ کوئی کم المیہ نہیں ہے کہ اِنہیں بار بار ایک ایسے ملک کی ذمے داری سونپی جاتی رہی تھی جسے اِنہوں نے بے رحمی سے لُوٹا اور مزید لالچ و ہوس کے ساتھ واپس آتے رہے۔ صرف ملک ہی نہیں جو اِن کی وحشیانہ لُوٹ مار کا شکار ہوا۔ اصل متاثرین روزانہ مایوسی سے زندگی کی جنگ لڑتے وہ کروڑوں غریب اور پسماندہ عوام ہیں جو ہمیشہ اپنی بقا کے دہانوں پر کھڑے رہے ہیں۔ اشرافیہ کی لُوٹ مار کے باعث وہ زندگی کی بُنیادی ضروریات سے محروم ہو کر رہ گئے ہیں جن کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہے۔ درحقیقت اُن کا ہر آنے والا کل اُن کے آج سے زیادہ تاریک نظر آتا تھا۔ یہ ہمیشہ پستیوں میں گرتے رہے لیکن اُن لوگوں کو کوئی پچھتاوا نہیں تھا جنہوں نے اپنے خزانوں کو مزید بھرنے اور دنیا بھر میں محلاتی جائیدادوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے ناجائز سرمائے کے انبار جمع کیے ہیں۔ اُنہیں اِس لُوٹ مار کو اِن لوگوں کے ساتھ بانٹنے میں بھی کوئی اعتراض نہیں جو اُنہیں ملک کو لُوٹنے کا ایک اور موقع فراہم کرنے میں مدد کریں گے۔

اگرچہ اُن کے گزشتہ دورِ اقتدار میں معاملات نسبتاً آسان تھے جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان دوستانہ تعلّقات کے نتیجے میں ملک کو لُوٹنے کے لیے باریاں لینے کا شاخسانہ تھے، تاہم اِس بار اِنہیں خان کی طاقت کا مقابلہ کرنا پڑا جس نے اِس بات کو یقینی بنانے کے عزم کے ساتھ کہ اُنہیں آزادانہ لُوٹ مار نہ کرنے دی جائے، ناقابلِ شکست حوصلے سے آڑے ہاتھوں لیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار اِن نااہل بونوں کی مجرمانہ کارروائیوں کو بے خوفی سے بے نقاب کیا جا رہا ہے تاکہ عوام اِس کا اِدراک کریں اور اِس کے خلاف اب اور انتخابات کے وقت آواز بلند کریں۔ اور یہ کیسا کمال کر رہا ہے! بدعنوانی اور اِس کی پشت پر موجود بدکردار مجرمان کو دیکھنے کے عزم کی شدّت ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے جس میں ہر باضمیر شہری اِن کی لرزتی عمارت کو گرانے کے لیے کمر بستہ ہے جب وہ اپنے تحفّظ کے لیے چھُپتے ہیں۔

آنے والی تباہی سے بچنے کی کوشش میں جو اُن کے لیے اجتماعی سیاسی عذاب کا باعث بن سکتی ہے، وہ ہر اُس گھٹیا چال کا سہارا لے رہے ہیں جسے وہ اپنے جدید دور کے میکیاولی کے کتابچے میں پا سکتے ہیں۔ لیکن وہ جتنی کوشش کرتے ہیں سب ناکامی سے دوچار ہو رہی ہیں۔ اِس کے علاوہ ان کے رہنما تفریح کے کافی مواقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔ تازہ ترین واقعہ اُس خاتون کے علاوہ کسی اور کا نہیں جو یہ مانتی ہے کہ رہنما بننا اُس کا خاندانی حق ہے۔ عدالتی حکم کے ذریعے اپنا پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد لندن کی پرواز لینے سے قبل روانگی کے دوران اُنہوں نے کہا کہ اب جبکہ خان وزیراعظم نہیں رہے، “غیر ملکی حکومتیں ہمیں سائفر بھیجنے سے ڈرتی ہیں۔” کیا یہ وہ بات ہے جس سے یہ خود ساختہ رہنما بنے ہیں؟ کیا اِنہیں کبھی کسی نے نہیں بتایا کہ سائفر ایک خفیہ پیغام ہے اور اسے غیر ملکی حکومتیں نہیں بھیجتیں؟ مزید برآں مراعات کا ذخیرہ جس میں اِس خاتون نے ڈبکی لگانے میں مہارت حاصل کی ہے وہ بے مثال ہے۔ میں اکثر اُس بیمار ماحول کے بارے میں سوچتا ہوں جس میں اِس خاتون نے آنکھیں کھولیں اور اپنی جواں عمری کے سال گزارے۔ اِس خاتون کے بیانات، برتاؤ اور بدسلوکی قابلِ نفرت ہے۔ وہ کہیں جا کر منہ چھپا لے، لندن اِس مقصد کے لیے ایک اچھی منزل ہو سکتی ہے۔ مسلسل بڑھتے ہوئے دباؤ کے تحت یہ ظاہر ہے کہ یہ مجرم مافیا خود اپنی ہی چالاکیوں سے یرغمال بنا ہوا ہے اور اُن کے لیے اپنی ڈگمگاتی حکومت کو اِس گہری ہوتی دلدل سے نکالنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ حکمران انتخابات جیت کر اقتدار میں نہیں آئے۔ اُنہوں نے ایک غیرملکی طاقت کے اُجرتی غنڈوں کے طور پر کام کرتے ہوئے ایسا کیا جس نے دھمکی دی تھی کہ اگر خان کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وزیراعظم کے عہدے سے نہ ہٹایا گیا تو اِس کے (منفی) نتائج ہوں گے۔ اِس عمل میں پی ٹی آئی کے اراکینِ اسمبلی کو بڑے پیمانے پر نقد رقوم اور دیگر مراعات پیش کی گئیں۔ اِس کے ساتھ ہی حکومتی اِتحادیوں کو دوسری جانب چلنے کے احکامات موصول ہوئے جو اُنہوں نے حقیقی عسکری جذبے سے فرض شناسی کے ساتھ انجام دیے۔ نتیجتاً حد سے زیادہ غیر جمہوری اور غیر آئینی ذرائع استعمال کر کے پارلیمانی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس غیر ملکی ہدایت یافتہ منصوبے کو مقامی کارندوں اور بدمعاشوں، مجرموں اور مفرور ملزمان پر مُشتمل حکومت کے ذریعے انجام دیا گیا جس نے چھ ماہ سے بھی کم عرصے میں ملک کو معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔

یہ گھناؤنا عمل ہمارے مقامی غنڈوں نے غیر ملکی طاقت کے اشارے پر کیوں کیا؟ ملک کی تقدیر کو سبوتاژ کرنے کے لیے مجرموں کا ٹولہ کیوں مسلّط کیا گیا؟ کیا ایسا اس لیے کیا گیا کہ عمران خان ایک آزاد خارجہ پالیسی بنانا اور اس پر عمل درآمد کرنا چاہتے تھے تاکہ پاکستان اپنے عوام کے فائدے کے لیے فیصلے کر سکے جس میں تمام علاقائی شراکت داروں (اسٹیک ہولڈرز) سے تعلّقات استوار کیے جائیں؟ کیا ایسا اس لیے کیا گیا کہ وہ روس سے سستا تیل اور گندم خریدنا چاہتے تھے تاکہ بڑھتی مہنگائی پر قابو پایا جا سکے؟ کیا ایسا اس لیے کیا گیا کہ وہ چین سے تعلّقات کو محدود کرنے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے دائرہ کار کو کم کرنے سمیت اپنے علاقائی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں سازشی ملک کے آلہء کار نہیں بنے؟ کیا ایسا اس لیے کیا گیا کہ پاکستان اب کسی جنگ کا حصہ بننے پر راضی نہیں ہوا کیونکہ وہ امن چاہتا ہے تاکہ اس کے لوگ خود کو تشدد اور دہشت گردی کے خوف سے آزاد کر سکیں؟ کیا ایسا اس لیے کیا گیا کہ وہ دھڑے بندیوں کی سیاست نہیں کرنا چاہتے تھے اور پاکستان کو خطے کی معاشی طاقت اور امن کا مرکز بنتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے؟

Advertisement

جبکہ ایک ملک اور اِس کے عوام کی تقدیر کو غلام بنانے کے لیے شیطانی سازشیں کی گئیں، انصاف کے اپنے طریقے ہوتے ہیں۔ یہ اِنہی طریقوں کا ظہور ہے جس کا ہم اب مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ایک کھیل جو انہوں نے اپنی مجرمانہ حکمرانی کو دوام بخشنے کے لیے کھیلا تھا وہ اُن کے خلاف ہو گیا ہے جس سے اُن کی سیاسی بقا کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ چند ہی ہفتوں میں اُن کی سازشیں انہیں ستانے کے لیے لوٹ آئی ہیں کیونکہ وہ اِنہی میں یرغمال بن کر سانس لینے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اکثر خاتمے کے وقت پُراسرار ہوجاتی ہیں۔ یہ پرچھائیوں کے تعاقُب کا کھیل بن چکا ہے۔

مُصنّف سیاسی و سلامتی حکمتِ عملیوں کے ماہر اور علاقائی امن انسٹیٹیوٹ کے بانی ہیں۔

Advertisement

Next OPED