نغمانہ اے ہاشمی

02nd Oct, 2022. 09:00 am

امن و ترقّی کا راستہ

اہم تبدیلیوں کے دور میں جیسے جیو اسٹرٹیجک اور جیو اکنامک بہاؤ، بڑھتی ہوئی چین امریکا مُسابقت، بحیرہ جنوبی چین میں بڑھتی ہوئی کشیدگی، ہمالیہ میں چین بھارت تعطل، پاک بھارت کشیدگی، سات دہائیوں سے حل نہ ہونے والا مسئلہ کشمیر، یوکرین کی جنگ، غذائی عدم تحفظ، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات جو اب خاص طور پر پاکستان میں ظاہر ہو رہے ہیں، افغانستان میں مسلسل مسائل اور عالمی اقتصادیات میں کساد بازاری کے آثار ظاہر ہونے کے امکانات دیگر ایسے مسائل ہیں جن کی روک تھام، دنیا میں امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے انتظامات اور حل کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی تنظیم تشکیل دی گئی تھی۔

کیا اقوامِ متحدہ ان بلند ترین عزائم میں سے کسی ایک میں بھی کامیاب ہو پایا ہے جو اُس کی ذمے داری تھے؟ کیا اقوامِ متحدہ اب بھی مؤثر اور متعلقہ ہے یا یہ چند ترقی یافتہ اور عسکری طور پر مضبوط طاقتوں کا دستِ نگر بن چکا ہے؟ کیا اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی ہر ریاست کے لیے اپنے تحریر شدہ بیانیے کو دہرانے، اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں سے ملنے، مشکلات اور کٹھن مسائل کو پسِ پُشت ڈالتے ہوئے دنیا کے بہترین چائے خانے کے ماحول سے لطف اندوز ہونے کی خاطر ایک سالانہ سرکس سے زیادہ کچھ نہیں رہ گئی جو اہم مسائل کو اگلے سرکس تک یونہی سُلگتا چھوڑ دیتی ہے؟ کثیرالجہتی پر اُن کے بھروسے کے بار بار دعووں، اگر اقوام متحدہ کا وجود برقرار رکھنا ہے اور اُن مقاصد کو پورا کرنا ہے جن کے لیے یہ تنظیم بنائی گئی تھی، کی ضرورت کے باوجود یہ سوالات ہر ایک کے ذہن میں ہیں۔

پاکستان کا کثیرالجہتی پر پُختہ یقین ہے اور اِس نے ہمیشہ اقوامِ متحدہ میں ایک فعال اور مؤثر کردار ادا کیا ہے جس دوران تنظیم کے تمام پہلوؤں اور شعبوں میں تعاون کیا گیا ہے، بشمول اقوامِ متحدہ کے امن مشن جن میں پاکستان کا سب سے بڑا دستہ موجود ہے اور جسے عالمی برادری تسلیم کرتی ہے اور سراہتی ہے۔ پاکستان کے حکومتی رہنماؤں نے نہ صرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بلکہ اِس کی تمام اعلیٰ سطحی کانفرنسوں اور تقریبات میں شرکت کے لیے باقاعدگی سے وقت نکالا ہے۔ اپنی خامیوں اور حدود کے باوجود، یہ ریاستوں کو دنیا کے اعلیٰ ترین سیاسی اور سکیورٹی فورم پر براہ راست دنیا بھر کے سامنے اپنے نقطہ نظر کو فروغ دینے اور پیش کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

پاکستان کے لیے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 77 واں اجلاس (UNGA 77) بالخصوص موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والے تاریخ کے بد ترین سیلاب سے ہوئی تباہی کے باعث بہت اہمیت کا حامل تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستان کی بھرپور نمائندگی کی۔ جنرل اسمبلی میں اپنے بیان میں اُنہوں نے موسمیاتی تباہی کے پیمانے اور شدت پر اپنے ذاتی مشاہدات بیان کیے جس کے نتیجے میں شدید سیلاب نے ملک کے ایک تہائی حصے کو پانی میں ڈبو دیا، اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو برباد کر ڈالا، صدیوں کے موسمیاتی ریکارڈ توڑ دیے اور آفات اور اس کے انتظام کے بارے میں جتنا کچھ ہم جانتے ہیں حکومت، متعلقہ محکموں، این جی اوز اور شہریوں کی تمام تر استعداد کو امتحان میں ڈالتے ہوئے ہر چیز کو چیلنج کیا۔

خواتین اور بچوں سمیت تقریباً 3 کروڑ 30 لاکھ افراد بے گھر ہو گئے جو مکمل طور پر قدرتی عناصر کے رحم و کرم پر کھُلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بھوک اور افلاس کا سامنا کرتے ہوئے اب وہ صحت کو درپیش خطرات سے دوچار ہیں۔ ہزاروں لوگ اپنے خاندانوں، مُستقبل اور اپنی املاک کے دل دہلا دینے والے نقصانات کے ساتھ خشک زمین کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 200 سے زائد پل تباہ اور سینکڑوں میل سڑکیں مکمل طور پر بہہ گئیں۔ یہ منظر نامہ نہ صرف متاثرین کی تعمیر نو اور بحالی بلکہ آئندہ فصلوں کے لیے غیر موزوں بننے والی تباہ شدہ اس زرعی زمین کے لیے بھی بین الاقوامی تعاون کا مُتقاضی ہے۔

Advertisement

پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے معاوضے کے لیے اپنا مقدمہ پرجوش طور پر پیش کرتے ہوئے دیکھنا حوصلہ افزا تھا کیونکہ موجودہ آفت پاکستان کے کسی بھی اقدام کا سبب نہیں تھی۔ وزیراعظم نے وضاحت کی کہ، “ہمارے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، ہمارے جنگل جل رہے ہیں اور گرمی کی لہریں 53 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گئی ہیں جو کرہ ارض کو گرم ترین مقام بنا رہی ہیں۔” انہوں نے خبردار کیا کہ، “جو کچھ پاکستان میں ہوا وہ پاکستان تک محدود نہیں رہے گا۔” پاکستان جیسے اہم ممالک موسمیاتی تبدیلی کے خطرے سے سب سے زیادہ دوچار دس ممالک کی فہرست میں آتے ہیں، پھر بھی اِن ممالک سے کرہ ارض کو جلانے والی مُضر (گرین ہاؤس) گیسوں کا اخراج ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ پاکستان نے تمام دستیاب وسائل کو قومی امدادی کوششوں کے لیے متحرک کر دیا ہے اور لاکھوں بے گھر افراد کو بچانے کے لیے بجٹ کی تمام ترجیحات کو دوبارہ ترتیب دیا ہے۔ عالمی بے عملی اور موسمیاتی ناانصافی کی دہری قیمتیں پاکستان کے خزانے اور عوام دونوں کو معذور کر رہی ہیں۔ انہوں نے ایک نہایت پُرجوش تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر عالمی رہنما تیز اقدامات نہیں کریں گے تو”جنگیں لڑنے کے لیے زمین کا وجود باقی نہیں رہے گا۔”

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جانب سے پاکستان کا معاملہ سامنے رکھتے ہوئے کہ اس کے لیے کیا کرنا ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے دوچار ممالک پر پڑنے والے اثرات پر زور دیے جانے سے نہ صرف موسمیاتی تبدیلی پر بلکہ تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں پاکستان کی حالت زار پر بھی توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملی۔ اندھادھند منافع کمانے کے لیے ایندھن کی مغربی صنعت پر تنقید کرتے ہوئے اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ ان منافعوں پر ٹیکس لگایا جائے اور موسمیاتی بحران سے ہونے والے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے فنڈز متاثرہ ممالک کو دیے جائیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ G20 ممالک کا کاربن کے مجموعی اخراج میں 80 فیصد حصہ ہے۔ دوسری جانب عالمی سطح پر مُضر (گرین ہاؤس) گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ 1 فیصد سے بھی کم ہے، لیکن یہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا کا ساتواں سب سے کمزور ملک ہے اور آج اس کی تباہ کاریوں سے دوچار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان موسمیاتی آفات سے متاثرہ ریاستوں کی مدد کی خاطر عالمی فنڈ کو راغب کرنے کے مقصد سے “ترقی پذیر ملک کی کوششوں” کی قیادت کر رہا ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے، موسمیاتی تبدیلی سے بہتر انداز میں نمٹتے ہوئے بہتری کے لیے اجتماعی اور فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے متعدد اقدامات تجویز کیے جن میں اقوامِ متحدہ کی آئندہ 27 ویں موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (CoP-27) کے تناظر میں بھی اقدامات شامل ہیں۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے خطرے سے سب سے زیادہ دوچار ممالک کی رہنمائی اور امداد کے لیے ایک “گرین مارشل پلان” کا مطالبہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پائیدار انفراسٹرکچر میں بطور سرمایہ کاری سالانہ 1 کھرب ڈالر جمع کرنا، صنعتی ممالک کی طرف سے موسمیاتی امداد کی مد میں سالانہ 100 ارب ڈالر فراہم کرنے کے وعدے کی تکمیل، دیرپا ترقی کے مقاصد(SDGs)  کے حصول میں تعاون کے لیے عالمی تجارتی نظام کو ہم آہنگ کرنا، ایک منصفانہ بین الاقوامی ٹیکس نظام کی شمولیت، ترقی پذیر ممالک کے لیے متعلقہ جدید ٹیکنالوجی تک ترجیحی رسائی اور امتیازی پابندیوں کا خاتمہ، ڈیجیٹل تقسیم کا خاتمہ اور ترقی پذیر ممالک کو مستقبل کی عالمی ڈیجیٹل معیشت میں شمولیت کے قابل بنانا بہت ضروری ہے۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس نے ہمارے دیگر اہم خدشات اور فوری ترجیحات کو اُجاگر کرنے کا موقع بھی فراہم کیا جیسے لاکھوں افراد کو غربت اور بھوک سے نجات دلانے کے لیے تیز رفتار اقتصادی ترقی، ایک مستحکم بیرونی ماحول کی ضرورت، جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام جو جموں و کشمیر تنازع کے مُنصفانہ اور دیرپا حل میں مُضمر ہے۔ وزیراعظم نے دنیا کو بتایا کہ جموں و کشمیر کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ “متنازع” حیثیت کو تبدیل کرنے اور مقبوضہ علاقے کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے 5 اگست 2019ء کے غیرقانونی اور یکطرفہ بھارتی اقدامات نے امن کے امکانات کو مزید نقصان پہنچایا ہے اور علاقائی کشیدگی کو ہوا دی ہے۔ انہوں نے بھارت کے دیگر اقدامات کا تفصیلی ذکر کیا اور بھارت پر زور دیا کہ وہ تعمیری روابط کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کرنے کے مقصد سے قابلِ اعتماد اقدامات کرے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں انسانی ہمدردی کی کوششوں کی قیادت کی ہے اور انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ سیکرٹری جنرل کی 4 اعشاریہ 2 ارب ڈالر کی انسانی اور اقتصادی امداد کی اپیل پر ردعمل دے اور افغانستان کے مُنجمد مالیاتی ذخائر جاری کرے۔

پاکستان نے 20 کروڑ سے زائد بھارتی مسلمانوں کے خلاف جبری سرکاری حمایت یافتہ مہم کی جانب بھی دنیا کی توجہ مبذول کرائی جو اسلامو فوبیا کا بدترین مظاہرہ تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے امید ظاہر کی کہ اِس سال کی ابتدا میں جنرل اسمبلی میں اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے طور پر 15 مارچ کو نامزد کی گئی تاریخی قرارداد کی منظوری بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کا باعث بنے گی۔ انہوں نے شام اور یمن سمیت مشرقِ وُسطیٰ میں متعدد تنازعات پر تشویش کا اظہار کیا اور اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال کو فوری طور پر بند کرے۔ سلامتی کونسل میں اصلاحات کے حوالے سے انہوں نے 11 نئے غیر مستقل ارکان کی شمولیت پر زور دیا تاکہ اسے عالمی برادری کا مزید نمائندہ بنایا جا سکے۔

بین الاقوامی محاذ پر، صدر بائیڈن کو یہ کہتے ہوئے دیکھنا تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند تھا کہ، “ہم تنازع نہیں چاہتے، ہم سرد جنگ نہیں چاہتے۔ ہم کسی بھی قوم سے یہ نہیں کہتے کہ وہ امریکا اور کسی دوسرے ساتھی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔ انہوں نے “ون چائنا پالیسی” کے لیے اپنے ملک کے عزم کا اعادہ بھی کیا اور وعدہ کیا کہ امریکا “بدلتے جیو پولیٹیکل رجحانات کو سنبھالنے” میں “بطور ایک معقول رہنما کام کرے گا۔” یہ الفاظ یقیناً خاص طور پر تائیوان اور سنکیانگ کے معاملے پر چین اور امریکا دونوں کی جانب سے سخت تصادم اور سخت بیان بازی کے پیشِ نظر بدترین صورتحال کے خوف سے دنیا کے اعصاب کو پُرسکون کریں گے۔ اگرچہ اس نپے تُلے بیان کی بازگشت حالیہ امریکی اعلانات میں نہیں ہوئی جس میں تائیوان کے لیے ایک ارب ڈالر کے ہتھیاروں کے پیکج کا اعلان اور چینی کمپنیوں کو چپ ٹیکنالوجی کی امریکی برآمدات پر تازہ پابندیاں شامل ہیں، جن کی چین نے زبردست مذمت کی۔ اس سے قبل امریکا نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ اگر تائیوان پر حملہ کیا گیا تو وہ “فوجی طور پر” اس کا دفاع کرے گا۔ اس بیان پر بھی بیجنگ کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔

Advertisement

یوکرین میں جاری جنگ پر دنیا مسلسل منقسم رہی جس میں واضح دراڑیں یورپی یونین میں نمودار ہوئیں اور بعض ارکان نے کھُل کر امریکا کی روس مخالف پالیسیوں اور یورپ میں تنازعات کے الجھنے اور منفی اثرات پر سوالات اٹھائے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران شمالی افریقا، مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں بنیادی طور پر امریکا کے زیر اثر تنازعات سے نمٹنے کے لیے یورپی یونین کی توجہ اور گنجائش اب واضح طور پر کم ہوتی جا رہی ہے۔ روس پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے آنے والے غذائی تحفظ کے مسائل اور توانائی کے بحران سے بلاشبہ یورپی یونین کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی موجودہ جنرل اسمبلی جنگ زدہ ملک افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران پر اور طالبان حکومت کے ساتھ سیاسی روابط کی جانب کوئی پیش رفت کرنے میں ناکام رہی۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس کی اثرپذیری کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنا ابھی بھی مشکل ہے۔ معاملات تب ہی واضح ہوں گے جب ہم دیکھیں گے کہ متعلقہ ممالک پالیسیاں بنا رہے ہیں اور امن و ترقی کی جانب گامزن ہو رہے ہیں۔ فی الحال کسی بھی معاملے میں جشن کی توقع کرنا مشکل ہوگا۔

مُصّنفہ چین ،یورپی یونین اور آئرلینڈ میں سفیر رہ چکی ہیں

Advertisement

Next OPED