بھارتی مسلمانوں کی حالت زار
بھارتی حکومت امتیازی قوانین یا اقدامات کو واپس لینے کی کوئی کوشش نہیں کر رہی ہے
مُصنّف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
نریندر مودی نے صحیح معنوں میں بھارت پر اپنی حکمرانی مستحکم کر لی ہے۔ کسانوں اور اقلیتوں سمیت جنہیں ہندو محافظوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، متعدد مسائل پران کی متنازع پالیسیوں کے باوجود بھارتی آبادی اپنے وزیر اعظم سے مطمئن نظر آتی ہے۔
ایک بڑا بھارتی سیاسی گروہ نہرو خاندان کی وجہ سے ہونے والے خلل پر تنقید کرتا ہے اور انڈین نیشنل کانگریس کو آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی سمجھتا ہے۔ یہ صورت حال آج بھارتی مسلمانوں کو متاثر کر رہی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ (HRW) سمیت انسانی حقوق کی آزاد تنظیموں کی متعدد رپورٹس نے نریندر مودی کی زیرقیادت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دور حکومت میں اقلیتوں کے خلاف سنگین جرائم کی تصدیق کی ہے۔
اگرچہ سماجی اخراج اور تنہائی شہری علاقوں میں شاذ و نادر ہی ہو سکتی ہے، لیکن بھارت کے دیہی علاقوں میں بڑی حد تک فرقہ واریت پائی جاتی ہے جہاں انتہا پسندوں کی نچلی سطح کی ہندو سرگرمیوں سے بااختیار ہونے کے احساس سے حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق مسلمانوں کو سمری سزاؤں ( معمولی خلاف ورزی پر سزا) میں اضافہ ہوا ہے،جس میں جائیداد کی امتیازی مسماری، سرعام کوڑے مارنے اور قانونی اجازت کے بغیر قید میں ڈالنا شامل ہے،کے نتائج حیران کن ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیائی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا کہ اتر پردیش سے مہاراشٹر تک کئی بھارتی ریاستوں میں حکام مسلمانوں کے خلاف صوابدیدی تشدد کو سمری سزاؤں کی شکل میں استعمال کر رہے ہیں اور حکام قانون کی حکمرانی کو نظر انداز کر رہے ہیں اور عوام کو وسیع پیمانے پر پیغام دے رہے ہیں کہ مسلمانوں پر حملہ کیا جا سکتا ہے اور وہ آسان ہدف ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اکتوبر 2022ء میں ریاست گجرات کے ضلع کھیڑا میں پولیس نے ہندو تہوار کے رقص میں مبینہ طور پر پتھر پھینکنے کے الزام میں 13 افراد کو گرفتار کیا۔اسی طرح بندوق کا ہولسٹر پہنے ایک شخص، مبینہ طور پر سادہ لباس میں ایک پولیس اہلکار، کو مسلمان مردوں کو چھڑی سے مارتے ہوئے فلمایا گیا،جب کہ وہاں موجود افراد اس پرخوشی کا اظہار کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ تشدد کا یہ عمل اس لیے تکلیف دہ ہے کہ یہ براہ راست قانون نافذ کرنے والے حکام کررہے ہیں، مثالی طور پر جن کا فرض ہے کہ تمام بھارتی شہریوں کو سرعام ہونے والے تشدد سے تحفظ فراہم کریں۔
انہوں نے کہا کہ گجرات موجودہ بھارتی وزیر اعظم کی سیاست کا سابق گڑھ تھا جو اس وقت وہاں اقتدار میں تھے، جب ایک ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو ہندو ہجوم نے یاتریوں کو لے جانے والی ٹرین کو آگ لگانے کے جھوٹے الزام میں دن دیہاڑے قتل کر دیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعہ کی جڑیں بابری مسجد تنازع سے جڑی ہیں، جسے بھارتی سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ سنا کر حل کرنے کی کوشش کی، جس سے مودی انتظامیہ کے اکثریت کی حکمرانی کے ایجنڈے کو فعال کرنے میں مدد ملی ہے۔
انہوں نے کہا کہ رام مندر کے بیانیے نے مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں دوسرے درجے کے شہری بنا دیا، جہاں مسجد کو گرانے جیسے گھناؤنے جرم کو قابل قبول عمل بنادیا۔
خیال رہے کہ تاریخی بابری مسجد کو 1992ء میں منہدم کر دیا گیا تھا۔ تیس سال بعد ایک اور مسجد گیانواپی مسجد کے حوالے سے اشتعال میں اضافہ ہورہا ہے، جس کے بارے میں ہندو انتہا پسندوں اور بھارت کے قومی ٹیلی ویژن کا دعویٰ ہے کہ اسے شیو مندر پر تعمیر کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ نوپور شرما کے گستاخانہ تبصرے، جس کے نتیجے میں بھارت کو متعدد مسلم ممالک کی جانب سے سرزنش کی گئی، سے بھی بھارت تنہائی کا شکار نہیں ہوا۔
انہوں نے ایسے خیالات کا اظہار کیا جو بی جے پی حکومت اور مسلمانوں کے بارے میں اس کے موقف کی وضاحت کرتے ہیں، جو ہندو سازشی نظریات کو ان کے خلاف گھناؤنے حملے کرنے کے جواز کے طور پر چیلنج کرتے ہیں۔
میناکشی گنگولی نے مزید کہا کہ مثال کے طور پر اپریل 2022 ءمیں گجرات کے کھرگون ضلع اور دہلی کے جہانگیر پوری ضلع میں حکام نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ تصادم کا جواب مؤخر الذکر کی جائیدادوں کو منہدم کر کے دیا۔ یہ مودی کے بھارت میں بے حسی کی انتہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جون 2022ء میں اقوام متحدہ کے تین خصوصی نمائندوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ ان میں سے کچھ بے دخلیاں کم آمدنی کے پس منظر والی اقلیتی آبادی کے خلاف من مانی سزا کے طور پر کی جا رہی ہیں جب کہ حکام انسانیت کے خلاف ان جرائم کی تحقیقات میں ناکام رہے ہیں۔
شہری اورسیاسی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ، جس میں بھارت بھی شامل ہے، کسی بھی بنیاد پر امتیازی سلوک سے منع کرتا ہے اور ریاستوں کے لیے اس بات کا پابند بناتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہوں۔
اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ ہر شہری کو رہائش اور اچھے معیار زندگی سے مستفید ہونے کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔
اپنے عمومی تبصرہ نمبر 7 میں اقوام متحدہ کی سماجی، اقتصادی اور ثقافتی حقوق کی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ اس طرح گھروں کی مسماری معاہدے کے خلاف ہے۔
بھارتی حکومت بظاہر انسانیت کے خلاف جرائم کو روکنے کے لیے تمام بین الاقوامی مطالبات چاہے وہ اقوام متحدہ کی جانب سے ہوں یا انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے، انہیں نظرانداز کررہی ہے۔
جیسا کہ میناکشی گنگولی نے بجا طور پر کہا کہ بھارتی حکومت ایسے کام کر رہی ہے جیسے سمری سزا ریاست کی پالیسی ہے۔ امتیازی قوانین یا اقدامات کو واپس لینے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے جو بالخصوص مسلمان اقلیت کو نشانہ بناتے ہیں۔
سمری سزا کی منظوری ایسے تعزیری اقدامات کو اپنانا ہے جو بھارتی حکومت اپنے ہی شہریوں کو ان کے مطالبات کو دبانے کی قیمت پر سزا دے رہی ہے۔
بھارتی منڈی کے حجم کو دیکھتے ہوئے جو ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت ہے، وہ قیمت جو مسلمانوں نے ادا کی ہے جو کاسمیٹک سیکولرازم میں رہتے ہیں، جسے مہاتما گاندھی نے کبھی انسانی حقوق کے تمام فریقین کے لیے ادا کرنے کے لیے بہت بڑی قیمت کہا تھا۔
تعزیری اقدامات آخر کار مودی حکومت کو اصلاحی طریقہ اختیار کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ پھر بھی جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو موجودہ ناگفتہ بہ حالت سے کم از کم مستقبل قریب میں نجات حاصل نہیں ہوگی۔






