خاموش رہنے کی سازش
مُصنّفہ بول نیوز کی اوپیڈ ایڈیٹر ہیں
’’تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے‘‘
رکشے کی پُشت پہ تحریر تھا۔
نفسیات کے پروفیسر سیم ویکنِن کا کہنا ہے کہ “نرگسیّت پسند (خود پرست) لوگوں کو کھا جاتا ہے، اُن کے کام کو کھا جاتا ہے، اور اُنہیں کھوکھلا کر کے پھینک دیتا ہے”۔
اعداد و شمار خود ہی بولتے ہیں۔ تقریباً 70 سے 90 فیصد پاکستانی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ گھریلو تشدد کی مختلف اشکال میں جسمانی، ذہنی اور جذباتی زیادتی شامل ہیں۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2018-2017ء کے مطابق 15 سے 49 سال کی عمر کی 28 فیصد خواتین اپنے شریکِ حیات کے تشدد کا سامنا کر چکی ہیں۔ یہ محض ایک ابتدائی انکشاف ہے کیونکہ بہت سے ایسے واقعات ہیں جن کی خاندان والے پردہ پوشی کرتے ہیں۔
ایسے زہریلے مرد موجود ہیں جنہیں قانوناً خبردار کیا جانا چاہیے۔ ان لوگوں سے ہوشیار رہیں جو ایک خوبصورت، خوش مزاج، کامیاب خاتون کو پھنسانا چاہتے ہیں اور آہستہ آہستہ اُس کی روح کو اپنی مٹھی میں کچل دینا چاہتے ہیں۔ اُسے کچل دو اور اُس کے زوال سے لطف اندوز ہو۔ جب وہ ٹوٹ کر گرنے اور بکھرنے لگتی ہے جیسے ہار سے موتیوں کو بہت سختی سے کھینچا جاتا ہے تو یہ نظارہ اُن کی دِلی تسکین اور انہیں حاکم ہونے کا احساس دلانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
یہ قدیم کتاب ہے جو ایسے زہریلے افراد کے لیے طریقہ ہے۔ نظر انداز کرنا، تنہا کرنا، چھُپانا، برخاست کرنا، ذلیل کرنا، سزا دینا۔ یہ ایک ہدایت نامہ ہے جس کی پیروی ٹی وی اداکار فیروز خان کے خلاف ان کی سابق اہلیہ علیزے سلطان کے ذریعے درج گھریلو تشدد کے مقدمے میں کی گئی ہے۔ عدالت میں جمع کرائے گئے سخت شواہد پر پچھتاوا ظاہر کرنے کی بجائے فیروز خان نے ہر بات کی تردید کی ہے اور اپنی سوشل میڈیا پوسٹس میں سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس گھڑسواری میں مصروف ہیں جیسے کہ چھوڑنا نہیں، صرف برداشت کرنا۔ ستم ظریفی، اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ اس کے زہریلے رویے کو برداشت کرنا وہی ہے جو اس کی سابقہ بیوی نے اپنے چھوٹے بچوں کی خاطر کیا۔ لیکن پھر اس باریک بینی کو سمجھنے کے لیے، کسی کو شرم کامظاہرہ کرنا ہوگا۔
مردوں کے معاشرے میں خواتین کے لیے، اپنے یا اپنے بچوں کے لیے کھڑا ہونا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا کیونکہ جب وہ یہ قدم اٹھاتی ہیں تو وہ اکثر خود کو تنہا اور تضحیک کا نشانہ پاتی ہیں۔ بدقسمتی سے جب گھریلوتشدد جیسے خواتین کے خلاف جرائم کی بات آتی ہے، تو ثبوت کی ذمہ داری حملہ آورسے بچ جانے والے پرمنتقل ہوجاتی ہے۔ عورت کو اپنے الزامات ثابت کرنے کے لیے کہا جاتا ہے جب کہ مرد رائے عامہ کے اسٹیج پر کھڑا ہوتا ہے۔ عورت کی کردار کشی اوراسے بے عزتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو برسوں تک جاری رہتا ہے۔ خواتین کے تشدد کو خاموشی سے برداشت کرنے کا فیصلہ کرنے میں اکثر خاندانی تعاون کی کمی ایک فیصلہ کن عنصر ہوتی ہے۔ والدین ایک مردہ بیٹی کو ایک پرجوش بیٹی پر ترجیح دے سکتے ہیں جو اپنی بیڑیاں توڑنے اور حقیقتاً اپنی زندگی جینے کا فیصلہ کرتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سی خواتین خاموشی کی اس سازش کا حصہ ہیں جو مظلوم خواتین کی آوازوں کو دبانا چاہتی ہیں۔ ایک بار پھر، یہ خان کیس میں واضح ہے کہ اداکار کی بہنیں اس کی خستہ حال تصویر کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔
علیزہ سلطان کے الزامات پر تفریحی صنعت بڑی حد تک خاموش رہی جب تک کہ وہ عدالت میں مار پیٹ کا ثبوت پیش نہیں کرتیں۔ تب ہی وہ غم و غصے کا اظہار کرنے اور اداکار کی مذمت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک دوسرے میں الجھ گئے۔ لیکن اس طرح کے غم وغصے کی عمر کم ہوتی ہے۔ جیسا کہ اداکار محسن عباس حیدر کے کیس سے واضح ہوتا ہے جن کی اہلیہ نے ان پر گھریلو زیادتی کا بھی الزام لگایا تھا۔ فطری طورپرحیدرنے ان سب سے انکارکر دیا، وہ کچھ عرصے کے لیے فلم نگری سے دور گئے اوراب بڑے بجٹ کی فلموں سے کام پرواپس آ گئے ہیں۔ جب ایک مشہور موسیقار کو حیدر کے ساتھ کام کرنے کے لیے بلایا گیا، توانہوں نےخود کویہ بتاتے ہوئے کہ کس طرح انہوں نے گھریلو تشدد کی مذمت کی، فن اور حقیقی زندگی کو کبھی نہیں ملایا جانا چاہیے کہتے ہوئے ایک خول میں میں بند کرلیا۔ حال ہی میں، خان کے تازہ ترین ٹی وی ڈرامے کے ڈائریکٹر نے وہی خیالات دہرائے جو ناظرین کو آرٹ کو حقیقت سے نہ ملانے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
حیدر نے خود کو کیسے بحال کیا؟ مذہب کی بیساکھی کا سہارا لے کر، خان بھی اسی راستے پر گامزن ہے۔ عمرہ کرتے ہوئے ان کی تصاویراور سوشل میڈیا کی پروفائل تصویر کو اسلامی خطاطی میں تبدیل کرنا ان کی تازہ ترین پیش کش میں شامل ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بیوی پر تشدد کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی تنقید سے بچنے کے لیے مذہبی لباس پہننا ہی کافی ہے۔
امید ظاہر کی گئی کہ گھریلو تشدد بل متاثرین کے لیے قانونی تحفظ اورریلیف کو یقینی بنائے گا۔ لیکن قومی اسمبلی سے منظورہونے کے باوجود وزیراعظم کے مشیرکی جانب سے اسے نظرثانی کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی سفارش کے بعد اس کی منظوری روک دی گئی۔
بل کے علاوہ گھریلوزیادتی کے معاملات سے نمٹنے کے لیے پولیس اہلکاروں کی تربیت کی بھی فوری ضرورت ہے۔ افسران کوگھریلو تشدد کے بارے میں تربیت دینے کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ ہمدرد اور سمجھدار ہیں اور جلد از جلد تحقیقات شروع کر دیں۔ خواتین پولیس اہلکاروں کو بھی ان یونٹوں میں لایا جائے۔
چونکہ گھریلو تشدد کو ایک نجی معاملہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ خاندان میں ہوتا ہے، اس لیے اسے پالیسی میں تبدیلی کے لیے موزوں نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن یہ یقینی طورپر شہریوں کے ساتھ ساتھ حکومت کے ذہنوں میں تبدیلی لانے کا وقت ہے۔
سیاست کرنے کے علاوہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو خواتین اور بچوں پر تشدد کی روک تھام کو اپنی فوری ترجیح بنانے کی ضرورت ہے۔