ضمیر احمد اعوان

16th Oct, 2022. 09:00 am

سیلاب نے پاکستان کی معیشت  بدل ڈالی

مصنف NUST میں پڑھاتے ہیں اور سینٹر فار چائنا اینڈ گلوبلائزیشن کے تجزیہ کار اور فیلو ہیں۔

پاکستانی معیشت کی موجودہ حالت بہتر نہیں ہے۔ عالمی افراط زر، مالیاتی سختی، کووِڈ-19 پابندیاں، اور روس-یوکرین تنازع نے 2022ء کی دوسری سہ ماہی میں عالمی جی ڈی پی کی نمو کو کم کر دیا ہے۔  عالمی اقتصادی جائزہ (جولائی 2022ء) کے مطابق، عالمی جی ڈی پی میں2022ء میں 3اعشاریہ2 فیصد اضافہ متوقع ہے، جو 2021ء میں 6 اعشاریہ 1 فیصد تھا ۔ جولائی 2022ء میں اجناس کی عالمی قیمتوں میں  کمی آئی۔ مجموعی طور پر، خام تیل ( منفی10.0%) کی وجہ سے توانائی کی قیمتوں میں 1اعشاریہ3 فیصد کمی واقع ہوئی، جبکہ یورپی قدرتی گیس میں 8اعشاریہ9 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا۔ زرعی قیمتوں میں 7 اعشاریہ 4 فیصد، خوراک کی قیمتوں میں 8 اعشاریہ 5 فیصد، کھادوں کی قیمتوں میں 3 اعشاریہ 7 فیصد، دھاتوں کی قیمتوں میں 13 اعشاریہ 4 فیصد اور قیمتی دھاتوں کی قیمتوں میں 6 اعشاریہ 6 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ پاکستان پر بیرونی قرضہ 2022ء کی دوسری سہ ماہی میں 130 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر گیا جو 2022ء کی پہلی سہ ماہی میں 128 ارب ڈالر تھا۔

موسمیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کے رجحان کی وجہ سے جولائی اور اگست کے مہینوں میں آنے والے طوفانی سیلاب نے کھڑی خریف کی فصلوں بالخصوص کپاس کی فصل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔  صوبوں کی جانب سے فصلوں کے نقصانات کا تخمینہ جاری ہے۔ تاہم، اہم نقصانات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ صورتحال زیادہ تر سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے جنوبی اضلاع میں پانی میں ڈوبے ہوئے کپاس کے کھیتوں کو ظاہر کرتی ہے۔ مالی سال 2022ء کے دوران، پاکستان کی بڑے پیمانے  کی پیداوار  (LSM) کی نمو مالی سال 2021ء میں 11اعشاریہ2 فیصد کے مقابلے میں 11اعشاریہ7 فیصد رہی۔

مالیاتی خسارہ مالی سال 2022ء میں جی ڈی پی کا 7اعشاریہ9 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ بنیادی  توازن میں 2078ارب  روپے کا خسارہ  سامنے آیا۔ مالی سال 2022ء کے دوران،  زر کی رسد (M2) میں  مالی سال 2021ء کے 3389اعشاریہ 7 ارب روپے ) 16اعشاریہ2 فیصد (  کے مقابلے میں  3283اعشاریہ3 ارب روپے ) 13اعشاریہ 5 فیصد(کی توسیع دیکھی گئی۔   رواں مالی سال میں جولائی  کے دوران  جاری کھاتے کا خسارہ 1اعشاریہ5 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔عالمی اور ملکی غیر یقینی صورتحال اب بھی پاکستان کے معاشی منظرنامے  کو متاثر کر رہی ہے:

    Advertisement
  • جون اور جولائی 2022ء میں سالانہ (سال بہ سال) کی بنیاد پر اشیاء کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے افراط زر میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ مہنگائی کا دباؤ اگست 2022ء میں بھی جاری رہ سکتا ہے، یہاں تک کہ اگر مہنگائی میں مزید کوئ ماہ بہ ماہ اضافہ نہ ہو، کیونکہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں گزشتہ سال کے مقابلے میں کافی زیادہ ہیں۔
  • پاکستان کے بڑے برآمدی ممالک میں کمپوزٹ لیڈنگ انڈیکیٹر (CLI) رسدی زنجیر کی رکاوٹوں اور جغرافیائی سیاسی تناؤ کی وجہ سے مسلسل زوال پذیر ہے۔ پاکستانی معیشت کی ترقی کی رفتار میں بھی کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ تاہم، ممکنہ پیداوار کی بلند نمو کی وجہ سے پاکستان میں مجموعی اقتصادی ترقی مثبت رہی ہے۔
  • جون کے مقابلے میں جولائی میں اشیا اور خدمات پر تجارتی توازن میں نمایاں بہتری آئی ہے، اور یہ توقع ہے کہ یہ رجحان جاری رہے گا۔ توقع ہے کہ آنے والے مہینوں میں ترسیلات زر تقریباً 3 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔ اس طرح، اشیا اور خدمات کے ساتھ ساتھ دیگر اجزا پر توازن کی متوقع رفتار کو مدنظر رکھتے ہوئے، آنے والے مہینوں میں جاری کھاتے کا خسارہ بتدریج توازن تک پہنچ سکتا ہے۔
  • زیادہ گرانٹس اور رعایتوں )سبسڈیز (کے درمیان کل اخراجات میں اضافے کی وجہ سے مالیاتی خسارہ اپنے ہدف سے بڑھ گیا اور جی ڈی پی کا 7اعشاریہ9 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ مالی سال 2023ء کے لیے، حکومت وسائل کو متحرک کرنے اور اخراجات کے محتاط انتظام کے ذریعے مالیاتی شعبے کے اہداف حاصل کرنے کے لیے پراعتماد ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گلیشیئرز تیزی سے پگھلے، اور غیر معمولی بارشوں اور بھارت کی طرف سے پاکستانی دریاؤں میں چھوڑے جانے والے اضافی پانی کی وجہ سے شدید سیلاب آیا۔ بھارت عموماً خشک سالی کے موسم میں پانی ذخیرہ کرتا ہے اور ضرورت سے زیادہ ہونے پر اسے پاکستان کی جانب چھوڑتا ہے۔ لیکن، اس سال بھارت کی طرف سے چھوڑے جانے والے پانی کا حجم بھی بہت زیادہ تھا۔

Advertisement

عالمی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا ذمہ دار نہیں ہے۔ چونکہ G-20 ممالک 80 فیصد تک گلوبل وارمنگ کے ذمے دارہیں، لہِذا یہ ان کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ پاکستان جیسے منفی اثرات سے متاثرہ ممالک کی دادرسی میں اپنا بھی کردار ادا کریں۔

وسط جون سے موسلادھار بارشوں اور برفانی جھیلوں کے پھٹنے  کے باعث آنے والے  سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے تقریباً 35 ملین افراد براہ راست متاثر ہوئے ، جس کے نتیجے میں کم از کم 1500 افراد ہلاکتیں ہوئیں، جیسا کہ حکومت  کی نگرانی میں تلاش اور بچاؤ اور امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔

ابتدائی اندازوں کے مطابق 555 بچوں سمیت 1569 افراد ہلاک اوران کے علاوہ 12860 زخمی ہوئے۔ سیلاب کی وجہ سے 546288 افراد عارضی کیمپوں میں رہنے پرمجبور ہیں۔ یہ پاکستان میں 2010 کے بعد سب سے تباہ کن سیلاب ہے جب تقریباً 2000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے اگست میں کہا تھا کہ ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے، اور ‘پانی  کی نکاسی کے لیے کہیں بھی خشک زمین نہیں ہے’، انہوں نے مزید کہا کہ یہ ‘ناقابل تصور تناسب کا بحران’ ہے۔

پانی  کی وجہ سے کھیت اور فصلیں تباہ ہوگئیں، مویشی ڈوب گئے اور معمولات زندگی درہم برہم ہو گئے۔ پاکستان کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان، جنوبی پنجاب اور آزاد جموں و کشمیر شامل ہیں۔

خوراک، ادویات، بجلی، ایندھن، ٹرانسپورٹ اور مواصلاتی ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے لوگ پانی سے پیدا ہونے والے امراض جیسے ملیریا، ڈینگی اور دیگر موسمی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

سویلین اور ملٹری حکام سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچے، اگلے محاذوں کا دورہ کیا، مقامی  آبادیوں سے ملاقاتیں کیں، اظہاریکجہتی اور ایکشن پلان پر عمل درآمد کیا۔ بہت سی این جی اوز، مخیر حضرات اور فلاحی تنظیمیں بھی امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

Advertisement

حکومتوں کے وسائل کی محدودیت ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اگرچہ نجی شعبے  کی کاوش قابل ستائش ہے، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اتنے بڑے سیلاب کو اکیلا ملک برداشت نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے عالمی برادری  کو یکجا ہوکر اس  آفت کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی معیشت کی حالت پہلے ہی نازک تھی اور اس طرح کی ناگہانی آفات سےنمٹنا اس کی استطاعت سے باہر ہے۔ حکومت پاکستان پہلے ہی عالمی برادری کے ساتھ رابطے میں ہے اور مدد طلب کر رہی ہے۔ کچھ دوست ممالک نے پہلے ہی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کی ہے۔

انسانی جانوں کو بچانا اور متاثرین کو ریلیف فراہم کرنا اولین ترجیح ہے۔ تاہم، اگلا مرحلہ بحالی کا ہوگا، جو ایک  بہت بڑا منصوبہ ہوگا، اور اس کے لیے بھاری فنڈز درکار ہوسکتے ہیں۔ پانی ختم ہونے کے بعد ہی نقصانات کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے۔ وزیر منصوبہ بندی کا ابتدائی تخمینہ لگ بھگ 10 ارب امریکی ڈالر تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور بتایا گیا کہ نقصانات کا تخمینہ 30 ارب امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہو سکتا ہے۔ اصل نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں اور بحالی کے لیے درکار رقم 100 ارب امریکی ڈالر یا اس سے زیادہ تک پہنچ سکتی ہے۔

اقوام متحدہ اور عطیہ کنندہ ممالک نے پاکستان کی مدد کی ہے۔ پاکستان کے غیر ملکی قرضوں  کی ادائیگی کی تاریخوں  کے ازسرنوتعین پر بھی غور کیا جارہا ہے۔  اب وقت آگیا ہے کہ حکومت پاکستان نقصانات کا جامع تخمینہ لگائے اور انفرا اسٹرکچر کی مکمل بحالی کا منصوبہ بنائے اور ان کاموں کے لیے قابل اور ایماندار لوگوں کو تعینات کیا جائے۔ نااہل اور بدعنوان لوگوں کو سیلاب زدہ علاقوں اور لوگوں کی بحالی اور آبادی کاری کے ایسے منصوبوں سے دور رکھنا چاہیے۔

آفات کو مواقع میں تبدیل کرنا ہوگا اور مناسب منصوبہ بندی، انفرااسٹرکچر کی بحالی اور سیلاب زدگان کی آبادکاری سے ان علاقوں کی تقدیر مستقل طور پر بدلی جا سکتی ہے۔ مستقبل میں اس طرح  کی آفت  سے بچنے کے لیے جامع منصوبہ بندی اور پالیسیاں مرتب کی جا سکتی ہیں۔ حکمران طبقہ سیاسی یا ذاتی ایجنڈوں سے بالاتر ہو کر عوام اور سیلاب زدگان کی خلوص نیت سے خدمت کرے۔

مصنف NUST میں پڑھاتے ہیں اور سینٹر فار چائنا اینڈ گلوبلائزیشن کے تجزیہ کار اور فیلو ہیں۔

Advertisement

Next OPED