ٹیکس، مہنگائی اور عوامی بہبود
مصنف سپریم کورٹ کے وکیل ہیں، 1980ء سے دہشت گردی کے ساتھ ہیروئن کی تجارت کے تعلق کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ میں پہلی بار 3.965 ٹریلین روپے جمع کرنے کا سنگِ میل حاصل کر لیا ہے جس کے لیے اِس کی اعلیٰ انتظامیہ، ہیڈ کوارٹر میں پوری ٹیم اور فیلڈ افسران/عملہ تعریف کا مستحق ہے۔
یہ خاص طور پر انتہائی مُتغیّر معاشی حالات کے دوران غیر معمولی کارکردگی ہے۔ تاہم اصل کریڈٹ ٹیکس دہندگان کو جاتا ہے کیونکہ 95 فیصد ٹیکس درآمدی مرحلے پر ودہولڈنگ پروویژنز (تقریباً 50 فیصد انکم ٹیکس اور اشیاء پر سیلز ٹیکس)، ایڈوانس ٹیکس اور ریٹرن کے ساتھ ٹیکس کے ذریعے جمع کیے جاتے ہیں۔ تاہم زیادہ تر متموّل شہریوں نے انکم ٹیکس / سیلز ٹیکس کے گوشوارے جمع نہیں کرائے ہیں۔
اس سال جی ڈی پی کی شرحِ نمو 2.5 فیصد سے کم رہنے پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔ جمود کی شرح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ ہمارے ہاں افراطِ زر کی شرح روزمرہ کی اشیائے خورونوش اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو متاثر کر رہی ہے۔ قوتِ خرید میں مسلسل کمی غریب اور مقررہ آمدنی والے افراد کے لیے بہت بڑی مالی مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کی جنوری 2023ء کی پریس ریلیز 48 سال کی بلند ترین افراطِ زر کو ظاہر کرتی ہے جو دیہی علاقوں میں 32.3 فیصد اور شہروں میں 24.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ دیہی علاقوں میں پہلی بار اشیائے خورونوش کی افراطِ زر 45.2 فیصد اور شہروں میں 39 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء، خام مال وغیرہ کے ہزاروں کنٹینرز ڈالر کی کمی سے بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے ہیں، روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں ایک ایسے وقت میں عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہیں جب نئی بلندیوں کو چھُوتی غربت اور بے روزگاری کے ساتھ معیشت نچلے ترین درجے پر ہے۔
سب سے زیادہ متاثر وہ لوگ ہیں جو دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جہاں آمدنی کی سطح انتہائی کم ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک پہلو غذائی تحفظ کی تیزی سے بگڑتی صورتحال ہے۔ پاکستان کبھی ضرورت سے زیادہ غذائی پیداوار اور گندم پیدا کرنے والا بڑا ملک تھا لیکن اب اس کی دستیابی بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ آبادی کی اکثریت، خصوصاً نوجوان خواتین اور بچے غذائی قلت سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جن میں سے بمشکل 10 فیصد کو کم از کم ضروری خوراک مل رہی ہے۔
موجودہ وزیراعظم اور ان کی وسیع کابینہ نے ابھی تک اشیائے خورونوش کی بلند مہنگائی اور غذائی عدم تحفظ کے مسئلے کو مُستقبل کے بد ترین اثرات کے ساتھ ایک سنگین چیلنج کے طور پر نہیں سمجھا ہے۔ مرکز میں پی ڈی ایم حکومت، سندھ میں اس کی اتحادی اور دو صوبوں میں نگراں حکومتیں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے کوئی بامعنی قدم اٹھانے میں ناکام رہی ہیں۔ کاشتکار اور اختتامی استعمال کنندگان کو نقصان ہو رہا ہے لیکن آڑھتی اور دولت مند طبقہ (ناجائز منافع خور، بالادست افراد اور مافیا) صورتحال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان کے احتساب کے پی ڈی ایم کے بلند و بانگ دعوے محض زبانی جمع خرچ ہی ثابت ہوئے ہیں۔
مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) جیسے اداروں نے ماضی میں مجرموں کے خلاف بہت سی تحقیقات شروع کیں اور یہاں تک کہ کئی مقدمات بھی درج کرائے گئے لیکن وہ “تمام طاقتور مافیاز اور منافع خوروں” کے خلاف مقدمات چلانے میں ناکام رہے۔ سی سی پی نے ایک بار 19 پولٹری فیڈ کمپنیوں کو ناجائز منافع خوری اور فیڈ کی قیمتوں میں اجتماعی اضافے پر شو کاز نوٹس جاری کیے لیکن اس کے نتیجے میں مرغی اور انڈوں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔
یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ دولت مند افراد گندم، تیل، گھی اور چینی جیسی ضروری اشیاء کو ذخیرہ کرنے کی مجرمانہ سرگرمیوں کے ذریعے مالی طور پر کمزور طبقات کا استحصال کر رہے ہیں۔
اب وقت آچکا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں دائمی دشمنی کے باوجود اپنی صفوں میں ایسے مجرموں کو بے نقاب کرنے میں مصروف و متحد ہو جائیں جو ملک کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں اور آنے والے تمام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے انہیں ٹکٹ دے دیا جائے گا۔ ایک “واحد نکاتی منشور” ہونا چاہیے کہ جو بھی اقتدار میں ہو وہ سب سے بڑھ کر دولت کی طاقت کے خاتمے کو ترجیح دے گا اور مساوی، اعلیٰ اور پائیدار ترقّی کے ذریعے عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دے گا تاکہ نوجوانوں کی بڑی تعداد کو روزگار فراہم کیا جا سکے جن کے لیے ہر سال 25 لاکھ ملازمتیں درکار ہیں۔ وہ اس ملک کا مستقبل ہیں۔ آئیے ہم سب مل کر اسے بچانے میں تعاون کریں۔
آنے والے تمام وفاقی اور صوبائی بجٹ میں سب سے زیادہ اور سب کو فائدہ پہنچانے والی جامع ترقّی کے حصول پر بنیادی زور دیا جانا چاہیے۔ موجودہ جابرانہ ٹیکس نظام کے تحت یہ ہدف حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ وفاقی سطح پر براہ راست ٹیکس کی وصولی جی ڈی پی کے چار فیصد سے بھی کم ہے جو کسی شک و شبہے سے بالاتر ہے کہ غریب اور کم مراعات یافتہ طبقے ہی ظالمانہ ٹیکسوں کا نشانہ بنتے ہیں جبکہ امراء نہ ہونے کے برابر ٹیکس دے رہے ہیں۔ جو بات صورتحال کو مزید تکلیف دہ بناتی ہے وہ یہ ہے کہ جمع شدہ ٹیکس کا استعمال عوامی فلاح و بہبود کے لیے کم اور اشرافیہ یعنی عسکری، عدالتی اور سول افسران ، تاجر سے سیاستدان بننے والے اور اقتدار میں شریک غیر حاضر زمیندار وغیرہ کے عیش و عشرت اور مراعات کے لیے زیادہ کیا جاتا ہے۔
اشرافیہ بلا ٹیکس مراعات، فوائد، محل نما رہائش گاہوں، مفت سہولیات، ملازمین کی فوج ظفرموج سے لطف اندوز ہوتی ہے اور اہم علاقوں میں مہنگے پلاٹ بھی مفت یا رعایتی نرخوں پر حاصل کرتی ہے۔ ہماری حکومتیں، عسکری اور سویلین یکساں طور پر جس طرح سے ٹیکس دہندگان کا پیسہ ضائع کرتی اور لوٹتی رہی ہیں وہ کوئی ڈھکی چھُپی بات نہیں ہے۔ آزادی کے بعد سے ریاستی نظام جو اپنا کردار ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے، کو جمہوری بنانے کی غرض سے ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور دیگر کے سامنے ہماری معاشی محکومی کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ ہم ہی اس کی وجہ ہیں!
حکمراں اشرافیہ کی مسلسل ناکامی کے باعث ہم سیاسی استحکام اور پائیدار اقتصادی ترقّی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بڑھتے ہوئے قرضوں اور مالیاتی خسارے کے دوہرے خطرات ہماری مسلسل مالی بدانتظامی کی گواہی دیتے ہیں۔ ملک آئی ایم ایف کے قرضوں پر زندہ ہے جس کی وجہ امراء پر ٹیکس عائد کرنے میں مسلسل ناکامی اور بے تحاشا اخراجات جو اب جی ڈی پی کا تقریباً 25 فیصد ہیں، میں کمی نہ کرنا ہے۔ تمام حکومتوں نے 1977ء سے لے کر اب تک کھربوں مالیت کے محصولات کی قربانی، غیر مثالی ٹیکس معافی، کالا دھن سفید کرنے والی اسکیمیں اور مراعات یافتہ طبقے کو چھوٹ دی ہے۔
آج ٹیکس وصولی کی حقیقی صلاحیت کو بروئے کار لانے، ملک کو خود کفیل معیشت بنانے اور فضول خرچی، غیر پیداواری اخراجات کو روکنے، کابینہ اور سرکاری مشینری کے حجم کو کم کرنے، خسارے میں جانے والی حکومت ملکیتی اداروں کی تنظیمِ نو یا نجکاری کرنے، صنعت کاری کو تیز اور پیداوار میں اضافہ کرنے، زرعی شعبے کو بہتر بنانے، آمدنی اور دولت کی دوبارہ تقسیم کی پالیسی کے ذریعے عدم مساوات کو کم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ پیشہ ور افراد اور سول سوسائٹی جابرانہ، عوام دشمن ٹیکس پالیسیوں کے خلاف مہم چلائیں اور ایک مساوی ریاست کے قیام کے لیے انتھک آواز بلند کریں۔
ہم مقامی حکومتوں کی سطح پر مالیاتی غیر مرکزیت (ڈی سینٹرلائزیشن) اور نچلی سطح پر اخراجات کے ذریعے پاکستان کو ایک خود انحصار، خوشحال ملک بنا سکتے ہیں۔ حل دستیاب ہیں لیکن ہمیں اپنی سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں رہتے ہوئے ان پر عمل درآمد کرنے پر مجبور کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی جماعت سے وفادار ہر ووٹر کا یہی مطالبہ ہونا چاہیے۔
آئین کے آرٹیکل 140 اے کا نفاذ ناگزیر ہے۔ سیاسی، انتظامی اور مالیاتی غیر مرکزیت اداروں کو جمہوری بنانے کی کلید ہے۔ یہ ہمارا سب سے نظر انداز شعبہ ہے۔ ہمیں رہائش، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، سڑکوں، گلیوں کی دیکھ بھال، پانی کی فراہمی اور نکاسیء آب، زمین کے استعمال کی منصوبہ بندی اور لوگوں کی سیر و تفریح کے تمام اُمور سے متعلق خدمات کی فراہمی کے لیے مؤثر مقامی حکومتیں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
خود حکومتی اُصول پر کام کرنے والی مقامی حکومتیں ہی اس بات کو یقینی بنا سکتی ہیں کہ محصولات صرف عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیے جائیں نہ کہ معاشرے کے طاقتور طبقات کے لیے۔ نئی منتخب پارلیمان کو ٹیکس دہندگان کے حقوق کا بل متفقہ طور پر پاس کرنا چاہیے جو اس بات کی یقین دہانی کراتا ہو کہ شہریوں سے جمع ہونے والی رقم صرف اشرافیہ کے فائدے کے لیے نہیں بلکہ عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے گی۔