آصف درانی

19th Feb, 2023. 09:00 am

افغانستان کے لیے سہ جہتی نقطہء نظر

مُصنف سابق سفیر ہیں اور فی الحال اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بطور سینیئر ریسرچ فیلو کام کر رہے ہیں

ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہے۔ تاہم بین الاقوامی برادری اب بھی اِس سے کسی اچھُوت ریاست جیسا برتاؤ کرتی ہے جس سے شدید غربت کا شکار عام افغانوں کی تکالیف مزید بڑھ جاتی ہیں۔ امریکا نے طالبان سے ایک معاہدے کے تحت اِن شرائط پر افغانستان سے انخلا کیا کہ وہ تشدد کو کم کریں گے، بین الافغان مذاکرات شروع کریں گے اور اس بات کی ضمانت دیں گے کہ افغانستان دوبارہ دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہیں بنے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ طالبان نے ایک بھی گولی چلائے بغیر کابل پر قبضہ کرلیا۔ بین الافغان مذاکرات اس وقت بے معنی ہو گئے جب اشرف غنی حکومت مذہبی ملیشیا کے خلاف کوئی مزاحمت کیے بغیر ناکام ہو گئی۔ اس کے بعد طالبان کے پاس پوری کرنے کو صرف ایک شرط باقی رہ جاتی ہے کہ وہ افغانستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیں گے۔

کیا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان اس شرط پر کس حد تک کاربند رہے ہیں کہ افغانستان دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم نہیں کرے گا؟ ایک درجن سے زائد بین الاقوامی عسکریت پسند اور دہشت گرد گروہ اب بھی افغانستان میں موجود ہیں جن میں سے کئی طالبان کی سرپرستی میں ہیں۔ ایک امریکی ڈرون کے ذریعے کابل کے پوش علاقے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت اور چین کے صوبے زنجیانگ سے ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) کے دہشت گردوں، ازبکستان سے اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) اور پاکستان سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی موجودگی کے پیشِ نظر طالبان اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں یا دیگر ممالک کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گرد گروہوں کے خلاف ایک مؤثر قوت کے طور پر اپنی ساکھ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ درحقیقت اسلامک اسٹیٹ آف خراسان (آئی ایس کے)، طالبان اور پڑوسی ممالک کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن کر اُبھری ہے۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے طالبان سے قابلِ عمل تعلّقات کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ مثبت وابستگیوں کے باوجود، دونوں ممالک کے درمیان نظریاتی اختلافات نے تعلّقات کی مضبوطی میں ایک زبردست رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔ افغانستان میں قابلِ ذکر تعداد میں ٹی ٹی پی کی موجودگی ایک مثال ہے۔ طالبان پاکستان کے لیے اپنے نظریاتی بھائیوں کو قربان نہیں کریں گے۔ دوسری جانب جب ٹی ٹی پی نے واضح طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا تو پاکستان ٹی ٹی پی کو رعایت دینے سے گریزاں ہوگا۔ دوم، سوات اور مالاکنڈ کے اضلاع جو کبھی ٹی ٹی پی کا گڑھ تھے، اِس کے خلاف باغیانہ موڈ میں ہیں جو حکام کو مذہبی عسکریت پسندوں سے کسی سمجھوتے یا بحالی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ملک کی بڑی اکثریت پاکستان میں طالبان کے طرز زندگی کی مخالف ہے۔ اس لیے جغرافیائی مجبوریوں کی وجہ سے ورکنگ ریلیشن شپ ہی طالبان سے دوطرفہ تعلّقات قائم کرنے کا قابلِ عمل طریقہ ہے۔

طالبان بین الاقوامی سطح پر پہچان حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین کے حقوق، طالبان کو تسلیم کرنے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکا نے طالبان سے بات چیت کی جو امریکی سلامتی کونسل کی 1267 کمیٹی کی فہرست میں ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ اب بھی سو سے زیادہ طالبان رہنما 1267 کی فہرست میں شامل ہیں جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ انہیں گرفتار کیا جائے گا اور مختلف جرائم کے لیے مقدمہ چلایا جائے گا۔ تاہم چونکہ امریکا افغانستان سے نکلنے کی جلدی میں تھا اس لیے اس نے برائے نام شرائط پر انخلاء کے لیے بات چیت کی جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے۔ اوّلین تاثر میں امریکا نے طالبان کی “دہشت گردانہ” سرگرمیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے دوحا میں مذہبی ملیشیا سے مصافحہ کیا۔

Advertisement

امریکا نے انخلا کے بعد انتقاماً افغانستان کے اکاؤنٹس منجمد کر دیے جن کا تخمینہ 9.6 ارب ڈالر تھا۔ اِس نے افغان بینکوں پر باقی دنیا سے کاروبار کرنے پر بھی پابندی لگا دی۔ نتیجتاً افغان معیشت، جو پہلے ہی امریکا اور یورپی یونین کی مدد سے چل رہی تھی، مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ کر مفلوج ہو چکی ہے۔ طالبان کے ماتحت افغانستان بنیادی طور پر اپنے پڑوسیوں سے تجارت کرنسی کے تبادلے کے تحت کرتا ہے۔ تاہم ایسا انتظام افغانستان میں خاطر خواہ روزگار پیدا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

طالبان حکومت کے تحت افغانستان میں کیا ہونا ہے؟ اگر طالبان کو معزول کرنا ہے تو ایک متبادل طریقِ کار ہونا چاہیے جو افغانستان کو مستحکم کر سکے۔ اس طرح کے طریقِ کار کی عدم موجودگی میں، خاص طور پر جب دیگر مخالف گروہ بد نظمی کا شکار ہوں اور جنگی سرداروں کے گرد گھوم رہے ہوں، طالبان ایک قابلِ عمل انتخاب ہیں چاہے وہ حکومت کے بین الاقوامی معیار یا انسانی حقوق کے اُصولوں پر پورا نہ اترتے ہوں۔ اگر گزشتہ دو دہائیوں کا تجربہ رہنمائی کرتا ہو تو امریکی قیادت میں اتحاد نے ملک میں جمہوری نظام کو نافذ کرنے کی کوشش کی۔ پھر بھی یہ افغان ثقافت اور صلاحیت کے مطابق جمہوری عمل کی حوصلہ افزائی کرنے میں ناکام رہا۔ نتیجتاً کرزئی اور اشرف غنی کی کابینہ میں شامل وزراء یا اُلاسی جرگہ (ایوان زیریں) کے منتخب اراکین اثر ڈالنے میں ناکام رہے اور طالبان کے کابل میں داخل ہونے سے پہلے ہی ملک سے فرار ہو گئے۔

افغانستان کے قریبی پڑوسیوں کو یقین ہے کہ ایک غیر مستحکم افغانستان خطے اور دنیا کے لیے زیادہ خطرناک ہے۔ اگرچہ طالبان کسی حد تک معمول پر آچکے ہیں، معاشی ترقی ملک کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ فوری طور پر افغانستان میں تیار رابطے اور اقتصادی ترقی کے منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں۔ بین الاقوامی برادری رابطے کے اقدامات کو ترقی دینے، گفت و شنید کرنے اور لاگو کرنے کے لیے وسائل مہیا کر سکتی ہے، بشمول شمال سے جنوب تک امریکا کا نیو سلک روڈ اقدام، وسطی ایشیا کو پاکستان سے ملانے والا سی اے ایس اے (CASA-100) بجلی منصوبہ؛ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت (TAPI) گیس پائپ لائن منصوبہ؛ اور ایک ٹرانس افغانستان ریلوے جو ازبکستان سے پاکستان کی بندرگاہوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ مشرق سے مغرب تک، افغانستان سے ترکیے تک پھیلا ہوا ایک ٹرانزٹ روٹ جسے لاپیس لازولی کاریڈور کہا جاتا ہے، پر 2018ء میں اتفاق کیا گیا تھا۔ چین افغانستان کو اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹیو (بی آر آئی) میں باضابطہ طور پر شامل کرنے کے دیرینہ عزائم رکھتا ہے۔

اگرچہ مذکورہ بالا منصوبوں کی ایک پُرعزم فہرست دکھائی دیتی ہے تاہم یہ افغان معیشت میں خاطر خواہ حصہ ڈال سکتی ہے۔ افغان اقتصادی حالات کے مطابق اقتصادی تعاون اور نجی شعبے کی ترقی عوامی خدمات کی فراہمی کے ذریعے افغان معاشرے میں فرق اور فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ اس طرح کے نقطہء نظر کو سہ جہتی حکمتِ عملی کی ضرورت ہوگی۔

سب سے پہلے، علاقائی اقدامات کے ذریعے طالبان کے ساتھ محدود اور مستند مشغولیت طالبان پر عالمی برادری کے مطالبات سننے کے لیے دباؤ برقرار رکھ سکتی ہے۔ انسانی حقوق اور خواتین کے کام اور ملازمت کے حقوق کو مذاکرات کاروں کے ایجنڈے پر رہنا چاہیے جو طالبان کو شامل کر سکتے ہیں۔

دوم، امریکا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر مستقل ارکان افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے 1267 کمیٹی کے تحت نگرانی کے طریقِ کار تشکیل دینے کی تجویز دے سکتے ہیں۔ طالبان کو غیر یقینی الفاظ میں بتایا جانا چاہیے کہ دہشت گرد تنظیموں کو روکنے کے لیے ان کے عملی اقدامات طالبان حکومت کو تسلیم کرنے اور افغانستان کی سماجی و اقتصادی مشکلات سے نمٹنے میں بھرپور مدد کے لیے عالمی برادری کے ردعمل کا تعین کریں گے۔

Advertisement

آخر میں، پاکستان اور بھارت بنیادی طور پر حکمراں جماعت یا حزبِ مخالف پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے افغانستان میں اپنے وسائل ضائع کر رہے ہیں۔ افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد سے استعمال کیے جانے والے ان حربوں کے متضاد نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ دونوں نے فاتح فریقین کی حمایت حاصل کی مگر جنگ زدہ ملک کی غیر مستحکم صورتحال پر اپنی گرفت برقرار نہ رکھ سکے۔ دونوں ممالک کو مختلف نتائج کی توقع نہیں رکھنی چاہیے اگر وہ مستقبل میں ایک ہی حربے کو استعمال کرتے رہیں۔ تبدیلی کے لیے بھارت اور پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کو فروغ دینے کے مقصد سے ایک طریقِ کار وضع کر سکتے ہیں۔ وہ وسطی ایشیا سے رابطے، بنیادی ڈھانچے اور توانائی کی منتقلی سے متعلق مشترکا منصوبے شروع کر سکتے ہیں۔ دو مخالفین کے مابین تعلّقات کو دیکھتے ہوئے ایسا تعاون بظاہر بعید از قیاس نظر آتا ہے لیکن ذہنیت کی تبدیلی اسے حقیقت بنا سکتی ہے۔ تاہم اس طرح کی “مہم جُوئی” کے لیے سیاستدانوں کی نہیں بلکہ حکومتی افسران کی ضرورت ہوگی۔

Advertisement

Next OPED