حمزہ حسین

04th Dec, 2022. 09:00 am

مُلکی سلامتی کے لیے کٹھن وقت

مُصنّف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔

پاکستان بھلے ہی شدید سیاسی بحران سے گزر رہا ہو، ڈیفالٹ کی لٹکتی تلوار اور کرنسی کی شرحِ تبادلہ میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو رہی ہو، لیکن شاید اس کے وجود کو لاحق سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی کی ناپاک لعنت ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حکومت سے جنگ بندی کا معاہدہ منسوخ کر دیا ہے اور اب اپنے جنگجوؤں کو ملک گیر حملے کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ تشویشناک علامات ہیں، یہ دیکھتے ہوئے کہ پاکستان نے سنگین اقتصادی اور سیاسی چیلنجز کا سامنا کرنے کے باوجود دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ اچانک اعلان ان تمام کوششوں کو ضائع کر سکتا ہے جو پہلے کی گئی تھیں۔

یہ فیصلہ اس دعوے پر کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں اس گروہ کے خلاف فوجی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ اس میں خیبر پختونخوا کے لکی مروت جیسے اضلاع میں ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستانی افواج کی کارروائیاں شامل ہیں۔ مزید برآں یہ گروہ پاکستانی آبادی کے کچھ حصوں میں جذبات ابھارنے کے لیے “مجاہدین” کی اصطلاح کا مسلسل حوالہ دے رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کی جدوجہد ان ظالموں کے خلاف آزادی کی ہے جو اسلام کے پیغام کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کی یہ تحریف بہت سے ہتھیاروں میں سے ایک ہے جسے ٹی ٹی پی اپنی پراپیگنڈہ جنگ کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرے گی۔ آخر جدید دور کی جنگ اطلاعات، پراپیگنڈہ پھیلانے کی حکمت عملی اور ہتھیاروں کا ایک مجموعہ ہے۔

گروہ یہ بھی بتا رہا ہے کہ کس طرح انٹیلی جنس ایجنسیوں نے پاک فوج کو بدنام کرنے کی کوشش میں مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کیا ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ اس طرح کے بیانیے محض غلط فہمیاں ہیں کیونکہ پاکستانی فوج دہشت گرد گروہوں کے خلاف متعدد کارروائیوں میں ملوث ہے جن کا دائرہ بلوچستان میں بلوچ راجی آجوئی سنگر (بی آر اے ایس) سے لے کر سندھ میں سندھودیش ریوولیوشنری آرمی (ایس آر اے) تک پھیلا ہوا ہے۔ اس طرح کے دعوے پاکستان کی طرف سے افغان طالبان سے بات چیت کی اہمیت کی نفی کرتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ان کی پاکستانی شاخ کے دائرہ کار اور کارروائیوں کو روکا جائے۔ تاہم یہ تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ گروہ ایک بار پھر اسلامی شرعی قانون کے سخت نفاذ کا مطالبہ کر رہا ہے جس کا مذہب کی اساس سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اسے ٹی ٹی پی کے سیاسی مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے ایک حکمتِ عملی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ 2021ء میں کابل میں طالبان کی حکومت کے عروج کے ساتھ ٹی ٹی پی کے مقاصد ہیں کہ وہ سویلین حکومت کا تختہ الٹ کر پاکستان پر افغان حکومت کی طرح حکومت کریں۔ طالبان کی پاکستانی شاخ کے طور پر فتح سے کم کسی بھی شے کو اس گروہ کے لیے اخلاقی طور پر پستی سمجھا جاتا ہے جو ایک سال سے کڑی نگرانی میں ہے۔

Advertisement

پاکستان میں ہونے والی ہلاکتوں کا شماریاتی تجزیہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کس طرح ٹی ٹی پی کی جانب سے بھتہ خوری کی سرگرمیوں میں اضافے کے نتیجے میں سوات جیسے اضلاع کی آبادیوں کی جانب سے اُن کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ اکتوبر 2022ء کے استثناء کے ساتھ ہی حملوں کو زیادہ تر خاموش کرا دیا گیا جہاں پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کے مطابق، خیبرپختونخواہ میں 65 انتقامی نوعیت کے حملے ہوئے جن میں کم از کم 98 افراد جاں بحق اور 75 زخمی ہوئے۔ اکتوبر میں ہونے والے حملوں میں اضافے کو چھوڑ کر چینی کارکنوں، ماہرینِ تعلیم اور پیشہ ور افراد کے خلاف گزشتہ تین برسوں کے دوران بی آر اے ایس اور اس سے منسلک بلوچ دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے حملے کیے گئے ہیں جو بلوچ حقوق، وسائل اور زمینی راستوں کی قیمت پر پنجابی اشرافیہ کے لیے سی پیک کی غیر متناسب جانبداری کی شکایات کا حوالہ دیتے ہیں۔ واحد استثناء 16 نومبر 2022ء کو لکی مروت میں پولیس کے گشتی قافلے پر حملہ تھا جس کے نتیجے میں چھ افراد جاں بحق ہوئے۔ وہ حملہ بھی ریاستِ پاکستان کے خلاف ملک گیر حملے شروع کرنے کے ٹی ٹی پی کے موجودہ بیانیے سے مطابقت رکھتا ہے۔ بصورت دیگر یہ گروہ موجودہ رجحانات سے بڑی حد تک غائب رہا ہے جہاں ان کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے افواج کو کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔

لہٰذا اس طرح کے تجدید شدہ مطالبات معمول کی حکمتِ عملیوں سے ہٹ کر ہوں گے جس کے لیے پاکستانی مسلح افواج کی جانب سے زیادہ ہوشیاری کی ضرورت ہوگی۔ اس گروہ نے یہ اعلان وزیر مملکت برائے اُمور خارجہ حنا ربانی کھر کی افغان طالبان حکومت سے علاقائی سلامتی پر بات چیت کے لیے کابل کا دورہ کرنے کے چند گھنٹے بعد کیا۔ یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس کے ماہرِ سلامتی اسفندیار میر کے مطابق، ٹی ٹی پی نے تشدد میں اضافے سے قطع نظر قبائلی علاقوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا ہے۔ شاید ٹی ٹی پی قبائلی اضلاع کو ممکنہ بھرتیوں کے لیے ایک اہم افزائش گاہ کے طور پر دیکھتی ہے، اگر وفاقی حکومت سے معاملات مزید خراب ہو جائیں۔ اب تک ضرورت اس امر کی رہی ہے کہ پاکستانی حکومت سے مطالبات پر بات چیت کرتے ہوئے قبائلی حمایت کو برقرار رکھا جائے۔ جیسا کہ اسفندیار میر بجا طور پر بتاتے ہیں، اگر ٹی ٹی پی ملک گیر حملے کرتی ہے تو سب نظریں افغان طالبان حکومت کے ردعمل پر ہوں گی۔

پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان افغان طالبان کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے متعدد دور کا آپشن موجود ہے، تاہم یہ آخری بار جون 2022ء میں ہوئے تھے۔ مذاکرات کا تمام عمل طالبان کا کابل پر قبضہ ہونے کے چند ہفتوں بعد اور افغانستان سے امریکی افواج کے عجلت میں ہونے والے انخلا کے بعد ہوا تھا۔ اگرچہ تمام شراکت داروں کے درمیان امن کی خواہش ہو سکتی ہے، تاہم سچ یہ ہے کہ پاک فوج کے خلاف شروع کیے جانے والے مسلسل حملے ناقابلِ قبول ہیں اور اس کے نتیجے میں مذاکرات اور غور و خوض کے حامیوں میں بے چینی پیدا ہو سکتی ہے۔ پشاور میں اسکول کے بچوں پر 2014ء میں گھناؤنے، مذموم حملے کے ساتھ جو اب بھی قوم کے اجتماعی شعور میں تازہ ہے، ٹی ٹی پی اپنے طریقِ وارادت میں ناقابل یقین حد تک زہریلی ہے۔

لہٰذا ٹی ٹی پی کا اعلان پاکستان کی سلامتی کے منظرنامے کے لیے نقصان دہ ہے اور تمام شراکت داروں کی جانب سے فوری ردعمل کی ضرورت ہے۔ یہ ملک ریاست، عوام، اپنے اہم بنیادی ڈھانچے اور اپنی اقتصادی صلاحیت کو مزید نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

Advertisement

Next OPED