آصف درانی

02nd Oct, 2022. 09:00 am

کشمیر پر قبضہ بھارتی  شرمندگی کی وجہ بن گیا

نیویارک میں 23 ستمبر 2022ءکو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس سے وزیر اعظم شہباز شریف کے خطاب پر  اسی بھارتی  رد عمل  کی توقع کی جارہی تھی ۔

کشمیر  کا تنازع پچھلی دہائیوں سے لے کر  اس وقت تک  تعطل کا شکار  رہا   جب وزیر اعظم نہرو نے ریاست جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری کے سوال پر پیچھے  ہٹنا شروع کیا   تھا ۔اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ کسی ڈرامے سے کچھ کم نہیں  تھا ، تاکہ دنیا  پر  یہ ثابت کیا جا سکے کہ جموں و کشمیر ہندوستان کا ’اٹوٹ‘ حصہ ہے۔اگرچہ  یہ بات  الگ ہےکہ بھارتی بیان بازی نے کشمیری عوام کو صرف اس حد تک بیگانہ کر دیا ہے کہ وہ بھارتی قومی دنوں کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں جبکہ پاکستان کے قومی دن پوری مقبوضہ ریاست میں زبردست تقریبات کا اہتمام  کیا جاتا ہے ۔ جب سے بھارت نے مقبوضہ ریاست میں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی رائے شماری کی اجازت دینے سے انکار  کیا  ہے ، تب سے مقبوضہ وادی میں پاکستانی پرچم لہرانا، پاکستان کے قومی دنوں پر گھروں میں چراغاں کرنا یا پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بھارت کے خلاف جیت کی خوشی میں  مٹھائیاں تقسیم کرنا بھارتی قیادت کو دنیا  بھر میں شرمندہ کر رہا ہے۔یہاں تک کہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی ) سے تعلق رکھنے والے معروضی بھارتی سیاست دانوں، جیسے جسونت سنگھ اور یشونت سنہا، نے اعتراف کیا  ہے کہ کشمیری عوام بھارت سے مکمل طور  پر   بیگانہ ہو کر زندگی گذار رہے ہیں ۔ ایسا  پہلی بار نہیں ہوا کہ جب  بھارتی رہنماؤں نے سچ بولا ہو۔

بھارتی تحریک آزادی کے ایک اور باوقار  سیاست دان جئے پرکاش نارائن ہندوستان ٹائمز میں اپنے مضامین اور لوک سبھا (ایوان زیریں) میں ہونے والی بحثوں میں اقوام متحدہ کی سرپرستی میں کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینے کے اپنے وعدے سے مکرنے پر وزیر اعظم نہرو  کو   کھلے عام نصیحت  کرچکے ہیں ۔ درحقیقت، بھارتی ہٹ دھرمی نے بے بس کشمیریوں  پر غلبہ پانے کےلیے   انصاف کی فراہمی  کے سلسلے کو روکنے کی بھرپور کوششیں جاری  رکھیں ۔ عالمی بڑی طاقتوں کی بے حسی  کی وجہ سے کشمیری عوام کی تقدیر   سوالیہ نشان   لگ گیا ۔

اسے سیاسی مصلحت  ہی کہا  جاسکتا ہےکہ  چین کے صوبے سنکیانگ میں ایغور (نسلی گروہ ) مسلمانوں کی حالت زار پر امریکہ کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ پھر بھی، یہ غیر قانونی طور پر بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کے برعکس نظر آتا ہے، جہاں ایک لاکھ سے زائد مرد، خواتین اور بچوں کو بے دردی سے قتل کیا جا چکا ہے، ہزاروں کشمیری  لاپتہ ہیں یا مقبوضہ ریاست سے باہر بھارتی جیلوں میں  قید ہیں ۔

بھارتی  ریاستی دہشت گردی نے کشمیری نوجوانوں کو پیلٹ گنوں  کے حملوں  سے  اندھا کر کے  ایک طرح سے  تسکین  حاصل کی ہے  جبکہ ہزاروں ایسی خواتین  کا  مستقبل سولی  پر لٹکا ہوا ہے کیونکہ انہیں اس بات کا یقین ہی نہیں  ہے کہ ان کے شوہر  زندہ ہیں یا مرچکے ہیں ۔

Advertisement

تنازعہ کشمیر پر بھارتی قیادت کی طرف سے دھوکہ دہی کی تاریخ اتنی واضح ہےکہ اس کا اعادہ بھی  اکثر شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔تاہم نوآبادیات کی تاریخ ایسی زیادتیوں سے بھری پڑی ہے ، جن سے پتہ  چلتا ہےکہ  مقامی لوگ صدیوں تک غلامی میں جکڑے جاچکے ہیں ۔آسٹریلیا ہو، نیوزی لینڈ، کینیڈا یا امریکہ میں  وطن  کی محبت سے سرشار جوانوں کو  غلام بنایا گیا  اور مزاحمت  کرنے پر بے دردی سے  قتل کر  دیا گیا ۔

تاریخ لکھنے والے   اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں پر  بغیر  کسی افسوس  ، تعلیمی مقاصد  حاصل کرنے کے لیے ان ممالک میں مقامی لوگوں کی اصلیت  سے نظریں  چرا رہے ہیں ۔ جب کبھی   بھارت  عالمی دباؤ  کا شکار  ہوا  تو  اس نے رائے شماری کے معاملے پر ڈٹے رہنے کے لیے چانکیہ  نیتی کا  استعمال کیا۔اس کے  ساتھ بھارت نے   ملک میں ایک ذہنیت پیدا کی جس کا ماننا ہے کہ جموں و کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے۔یہ  بلاشبہ   ایک کھلا جھوٹ اور جموں و کشمیر کی حیثیت کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ماضی میں بھارت نے اپنے قبضے کو جواز فراہم کرنے کے لیے دوغلی حکمت عملی اپنائی تھی۔

سب سے پہلے، کئی دہائیوں سے، ہندوستانی رہنما سیکولرازم کے منتر کو  پڑھ رہے ہیں اور خبردار کرتے ہیں کہ کشمیر میں رائے شماری ہندوستان کے ایک سیکولر ملک کے طور پر ہندوستان کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گی، اور باقی ہندوستان میں مسلمانوں پر منفی ردعمل کا اظہار کرے گی۔ کشمیر ایک عالمی مسئلہ ہونے کی وجہ سے بھارتی کی  دی ہوئی  دلیل کا کوئی جواز نہیں تھا۔

بھارت نہ صرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں گیا بلکہ اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ رائے شماری کے ذریعے کشمیری عوام کی پاکستان یا بھارت میں شمولیت کی خواہش کا  اندازہ  لگانا چاہیے۔لہٰذا رائے شماری کو بھارت  میں  بھارتی  مسلمانوں کی قسمت سے جوڑنا دھوکہ دہی  سے کم نہیں تھی۔ بھارتی مسلمان ہمیشہ دوسرے درجے کے شہریوں کی طرح رہتے آئے ہیں۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس )کی قیادت میں ہندوتوا طاقتوں کے قبضے کے بعد ان کی حالت مزید  خراب ہوتی چلی گئی ،  کیونکہ وزیر اعظم مودی ہندوتوا نظریئے  کا  پرچار  کر رہے ہیں ۔ دوسرایہ کہ ، بھارتی حکومتوں نے بارہا  دلیل دی ہے کہ جب سے جموں و کشمیر میں  انتخابات  کرائے گئے ، ریاست کے لوگوں نے بھارت کے حق میں  ہی  حق خود ارادیت کا استعمال کیا ہے۔ خوش قسمتی سے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسے بھارت کی جانب سے  دھوکہ دہی کی چال  قرار دے دیا ۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے واضح کیا کہ مقبوضہ ریاست میں انتخابات کے انعقاد کا مطلب ہر کز یہ نہیں ہوگا کہ کشمیری بھارت  کے حق میں ہونے کا اعلان کریں ۔قرار داد 91 (1951ء) کے تحت، 30 مارچ،1  195کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ عوام کی مرضی کے مطابق کیا جائے گا جس کا اظہار جمہوری طریقہ کار کے ذریعے کیا گیا ہے اور  اقوام متحدہ کی سرپرستی میں غیر جانبدارانہ رائے شماری کرائی گئی ہے ۔

اسی قرارداد میں مزید تصدیق کی گئی کہ آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی جنرل کونسل کی سفارش کے مطابق آئین ساز اسمبلی کا بلانا اور کوئی بھی ایسا اقدام جسے اسمبلی مستقبل کی شکل کا تعین کرنے کی کوشش کر سکتی ہے، اور  پوری ریاست یا اس کے کسی بھی حصے کا الحاق مذکورہ اصول کے مطابق ریاست کا طرز عمل نہیں بنے گا۔

Advertisement

ابتدا میں بھارت نے کشمیری عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے بہت سے حربے استعمال کیے۔جبکہ  بہت سے  لچکدار  کشمیری سیاست دان بھارتی  عزائم سے متاثر ہوئے اور جموں و کشمیر کے تنازعہ پر ہندوستانی تنازعہ کی حمایت کی۔انہوں نے جب بھی کشمیری عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی کوشش کی ، انہیں ان کے مقاصد  میں ناکام بناتے ہوئے باہر نکال  دیا گیا ۔ شیخ عبداللہ، ان کے بیٹے فاروق عبداللہ اور پوتے عمر عبداللہ بھارتی حکمران اشرافیہ کے ہاتھوں میں ایک پیادہ بنےرہے ۔

عبداللہ کی طرح، دیگر بھارت  نواز سیاست دانوں کو 5 اگست 2019ء کو ایک  تحریری فیصلے  سے لاوارث قرار دے دیا گیا۔جب  ہندوتوا کے زیر تسلط مودی سرکار نے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے   یا گھروں میں نظر بند کردیا  اور  بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 اور اے  35 کو  منسوخ کردیا گیا ، جس نے ریاست کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے کی اجازت دی تھی، خاص طور پر غیر کشمیریوں کو مقبوضہ ریاست میں جائیداد خریدنے یا ووٹنگ کے حقوق  سے محروم  کردیا گیا تھا ۔تمام ارادوں اور مقاصد کے لیے، ہندوتوا کا نظام کشمیریوں کو ریڈ انڈینز کو اپنی سرزمین میں بدلنے کا دعویٰ کر رہا ہے۔

یہاں سوال  یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرنے والا ملک کشمیری عوام کے حق خودارادیت سے کیسے انکار کر سکتا ہے؟اقوام متحدہ کا چارٹر اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگوں کے حق خود ارادیت کا  نگران  ہے۔یہاں  تک کہ یہ آزادی اور حق خود ارادیت کے لیے مسلح جدوجہد کی اجازت دیتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن  بننے کا  امیدوار ہےاور  یہ ایک ایسا  ادارہ ہے جو

ریاستوں کی خودمختاری کا تحفظ فراہم کرتا ہے ۔اتفاق   سے بھارت کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل  نشست کے دوسرے دعویدار وں میں  جاپان، جرمنی اور برازیل شامل ہیں  جو  اقوام  متحدہ کے چارٹر  یا اقو ام متحدہ  کی  سلامتی کونسل  کی کسی قرارداد کی خلاف ورزی نہیں کرتے  ۔

عالمی برادری بھارت سے یہ کہنے کا جواز رکھتی ہے کہ وہ  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کا مطالبہ کرنے سے پہلے کشمیری عوام  کو  ان کے  ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کا استعمال کرنے کے اپنے وعدے کا احترام کرے، کیونکہ ہر صورت میں کشمیر پر قبضہ بھارت کو ہمیشہ  شرمندہ  ہی کرے گا۔

مُصنف سابق سفیر ہیں اور فی الحال اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بطور سینیئر ریسرچ فیلو کام کر رہے ہیں

Advertisement

Next OPED