موسمیاتی تبدیلی کے تضادات
سائبر حملوں کی طرح، گلوبل وارمنگ کے اثرات بھی حدود کا احترام نہیں کرتے۔
انسانوں میں انوکھی صلاحیت اور خواہش بھی ہوتی ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ حاصل کریں۔ انسانی وجود محض ایک خاص بائیو جینیاتی پروگرام کی علامت نہیں بلکہ درحقیقت یہ افعال کے تنوع کی اجازت دیتا ہے، ایسی صلاحیت جو جانوروں میں نہیں پائی جاتی۔ یہ صلاحیت انسانی ترقی اور رَجعت دونوں کی بنیاد بنتی ہے۔ اس تضاد کو نہ سمجھنا اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو ایک امرت کے طور پر پیش کرنا اب ہمیں تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے۔
جیسا کہ سیلاب پاکستان کے ایک بڑے حصے میں تباہی مچا دیتے ہیں، جیسا کہ یورپ اور شمالی امریکا کے کچھ حصوں میں درجہ حرارت ریکارڈ بلندی پر چلا جاتا ہے، جیسا کہ ترکی، یونان، امریکا کے مغربی ساحل اور آسٹریلیا کو جنگلات میں لگی آگ کا سامنا ہے جس کا تحقیق کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے تعلق ہے، گلوبل وارمنگ”حقیقی معنوں میں عالمی اضافیت” بن چکی ہے۔
بالکل اسی طرح سے چیلنج بھی واقعی مشکل ہے۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح کے مسئلے کو عالمی مہارت اور حل کے حصول کے قابل ہونا چاہیے۔ حقیقت میں، ایسا نہیں ہے۔ اگر کچھ ہے تو وہ یہ کہ ہم اِس کے عالمی سطح کا مسئلہ ہونے اور مُتعدد متضاد سیاسی اور کارپوریٹ مفادات کے باعث اِس سے نمٹنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ گلوبل وارمنگ اور اِس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی کی حقیقت کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اِس کے برعکس 1970ء کی دہائی سے جب گلوبل وارمنگ کا چیلنج پہلی بار ماہرین کی نظروں میں ظاہر ہونا شروع ہوا، دنیا بھر میں کئی تدبیری اقدامات لیے گئے ہیں۔
آج دنیا کے ممالک، اقوام متحدہ اور ماہرین پر مشتمل تنظیموں کی کثیر تعداد اس مسئلے کی گرفت میں پھنسی ہوئی ہے۔ آگ، خشک سالی، ماضی سے زیادہ شدید گرمی کی لہروں، بارشوں اور سیلابوں نے بھی افراد اور معاشروں کو خاص سرگرمیوں کے بے ترتیب، غیر رسمی اثرات سے زیادہ خبردار کر دیا ہے۔
میں وضاحت کرتا ہوں: اگر کوئی صنعتی کارخانہ کسی ندی میں فضلہ ڈال رہا ہے جو اُس کارخانے کے قریب اور ندی کے کنارے آباد افراد کی صحت پر اثرانداز ہو رہا ہے تو وجہ اور اثر کے واضح تعلق کا پتا لگانا آسان ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کے خلاف بہت سے قانونی مقدمات دیکھے گئے ہیں۔ لیکن دنیا کے ایک حصے میں آلودگی پھیلانے والی سرگرمیوں اور اُن کے بعض دیگر حصوں پر اثرات کے درمیان تعلق کو واقعی کوئی نہیں سمجھ سکا۔ یہ تبدیل ہوا ہے۔
اب یہ سمجھا جاتا ہے کہ شمالی نصف کرہ میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا اثر کہیں اور ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، ہم اس بحث کو دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح پاکستان جیسی ریاستیں، جو کہ صفر اعشاریہ 5 فیصد سے بھی کم عالمی آلودگی کے اخراج کی ذمے دار ہیں، موسمیاتی خطرے سے دوچار ہیں اور موسم کی شدت سے تباہ ہو رہی ہیں۔
یونین آف کنسرنڈ سائنٹسٹس کی پرنسپل کلائمیٹ سائنسدان کرسٹینا ڈیل کہتی ہیں کہ صنعتی انقلاب کے بعد سے پاکستان کا حرارتی اخراج میں صفر اعشاریہ 5 فیصد سے بھی کم حصہ ہے جبکہ امریکا 25 فیصد کے لیے ذمہ دار ہے۔
انسائیڈ کلائمیٹ نیوز میں 18 جنوری 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، امریکی فوج 2001ء سے ڈنمارک اور پرتگال جیسے تمام ممالک سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج کر رہی ہے۔ اِسی دوران آئی سی این کی رپورٹ کا کہنا ہے،”کوئی بھی درست طور پر نہیں جانتا کہ اِس کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کتنی ہے کیونکہ پینٹاگون کی رپورٹنگ مشکوک ہے۔”
اقوام متحدہ کے بین الحکومتی (انٹر گورنمینٹل) پینل آن کلائمیٹ چینج (IPCC) کو دنیا بھر کے اعلیٰ ترین ماہرین سے معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ آئی پی سی سی، پالیسی سازوں کو موسمیاتی تبدیلیوں، اس کے مُضمرات اور مُستقبل کے ممکنہ خطرات کے بارے میں باقاعدگی سے سائنسی جائزے فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ موافقت اور شدت میں تخفیف کی تجاویز کو سامنے لانے کی غرض سے بنایا گیا تھا۔ تب سے اس نے متعدد رپورٹیں پیش کی ہیں، جن میں تشخیصی رپورٹس، خصوصی رپورٹس اور طریقِ کار کی رپورٹس شامل ہیں۔
اس طرح، کیا اور کیوں ہو رہا ہے اور یہ ہمیں کہاں لے جا رہا ہے کی سائنس واضح ہے۔ تاہم سیاست بہت پیچیدہ اور گندی ہے۔
تو، کیا کیا جا سکتا ہے؟
18 فروری 2021ء کو پراجیکٹ سنڈیکیٹ نامی جریدے میں شائع ہونے والے ایک اداریے، دی ڈیکاربونائزیشن پیراڈاکس، میں کہا گیا، “موسمیاتی تبدیلی پر کی جانے والی بحث میں بظاہر دو متضاد پیغامات ہیں، ایک یہ کہ اس صدی میں گلوبل وارمنگ کو صنعتوں سے پہلے کی سطح کے مقابلے میں دو ڈگری سیلسیئس سے کم تک محدود کرنے کے لیے مکمل طور پر اور تیزی سے کاربن سے پاک کرنا (Decarbonise) تقریباً ناممکن ہے۔ دوسرا پیغام یہ ہے کہ جو شے داؤ پر لگی ہے اُس کے پیشِ نظر اِس طرح تیز رفتاری سے کاربن سے پاک کرنا ناگزیر ہے۔”
جیسا کہ مُصنفین کمال درویش اور سیباسچیئن سٹراس زور دیتے ہیں، “مُتضاد طور پر، دونوں بیانات درست ہو سکتے ہیں۔” اس کی وجہ یہ ہے کہ، “2050ء تک آلودگی سے مکمل طور پر پاک (Net-Zero) عالمی معیشت کا حصول تکنیکی اور اقتصادی طور پر موجودہ اور اُبھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے ساتھ ممکن ہے”، تاہم اِس کے لیے”رجحان میں زبردست تبدیلیوں اور بڑے پیمانے پر پالیسی اقدامات کی ضرورت ہوگی، جس میں بین الاقوامی تعاون میں اضافہ بھی شامل ہے جسے حاصل کرنا بہت مشکل ہوگا۔”
یہ فیصلہ کُن نکتہ ہے۔ مسئلہ انتہائی پیچیدہ اور بہت سے تکنیکی اور سیاسی تضادات سے جڑا ہوا ہے، کہ انسانیت کو وقت کے خلاف اس دوڑ میں شکست کے خطرے کا سامنا ہے، یعنی مکمل طور پر اور تیزی سے کاربن سے پاک کرنا ناممکن ہے اور پھر بھی نقصان کو موجودہ سطح پر روکنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ پہلے ہی کافی نقصان ہو چکا ہے۔
بروکنگز انسٹیٹیوشن کے لیے ایک شاندار رپورٹ، The challenging politics of climate change (موسمیاتی تبدیلی کی چیلنجنگ سیاست) میں، جو 23 ستمبر 2019ء کو شائع ہوئی، اِیلین کامارک نے “سیچر ڈے نائٹ لائیو اِسکٹ” سے کولن جوسٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا “ہم واقعی موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں فکرمند نہیں ہیں کیونکہ یہ انتہائی شدید ہے اور ہم پہلے ہی اِس میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ ٹھیک اِسی طرح ہے کہ اگر آپ پر اپنے سٹے باز کے 1 ہزار ڈالر واجب الادا ہیں تو آپ کہتے ہیں، “بالکل، میں اُسے یہ رقم واپس کروں گا”، لیکن اگر آپ پر اپنے سٹے باز کے 10 لاکھ ڈالر واجب الادا ہیں تو آپ کہتے ہیں، “میرا خیال ہے کہ میں بس مرنے ہی والا ہوں۔”
کامارک نے چار عوامل کی نشاندہی کی ہے جو دنیا کو عالمی اتفاقِ رائے کی طرف بڑھنے اور گلوبل وارمنگ کے اثرات کو کم اور ان کی سمت تبدیل کرنے کے لیے اقدامات کو بہت مشکل بنا دیتے ہیں، اور وہ عوامل ہیں ۔۔ پیچیدگی، دائرہ اختیار اور احتساب، اجتماعی اقدامات اور اعتماد، اور تخیل۔
پیچیدگی غیر ترتیبی کے بارے میں ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے، یہ محض آلودگی پھیلانے والے بنیادی عوامل کے بارے میں نہیں ہے جو اپنا فُضلہ کسی ندی میں پھینک دیتے ہیں۔ اس کے اثرات دیکھے اور سمجھے جا سکتے ہیں۔ لیکن آپ لوگوں کو “دنیا کے ایک حصے میں کوئلے کے پلانٹ اور دوسرے حصے میں سمندری طوفانوں کے درمیان تعلق کو کیسے دکھا سکتے ہیں؟”
اِسی پیچیدگی سے دائرہ اختیار اور احتساب کے مسئلے کا قریبی تعلق ہے۔ سائبر حملوں کی طرح گلوبل وارمنگ کے اثرات بھی حُدود کا احترام نہیں کرتے۔ جیسا کہ کامارک نے کہا کہ جدید حکومتوں نے دائرہ اختیار (وہ علاقہ جس کی حدود میں عدالت یا حکومتی ادارہ اپنے اختیارت کا مُناسب طور پر استعمال کر سکتے ہیں) کے تصور پر انحصار کیا ہے۔ جغرافیہ اور اپنے علاقوں پر حکومتی اختیار “دائرہ اختیار کے تصور میں مضمر ہیں۔” مثال کے طور پر، جب آلودگی پھیلانے والی امریکی اور چینی سرگرمیاں ممالک کو دور دور تک متاثر کر رہی ہیں تو کوئی کیسے دائرہ اختیار کا تعین کرتا ہے؟
بہ الفاظِ دیگر، اگر ہم دائرہ اختیار قائم نہیں کر سکتے تو ہم “ضوابط، قوانین، اور قانون کی پاسداری کے لیے جوابدہی کو کیسے قائم کر سکتے ہیں جو جدید جمہوری طرزِ حکمرانی کے تین بنیادی اصول ہیں۔” حتیٰ کہ اگر ہم آلودگی پھیلانے والی سرگرمیوں کو بعض ریاستوں سے منسوب کر سکتے ہیں، تو کسی ضابطے کے نفاذ کے بغیر یہ انتساب صرف نصف جنگ ہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کوئی قانونی ڈھانچہ موجود نہیں جو ہمیں ان افراد کو انعام یا سزا دینے کی گنجائش فراہم کرے جو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی یا اضافے کا مؤجب ہیں۔
پھر ہمیں اجتماعی اقدامات اور حکومت پر اعتماد کا مسئلہ درپیش ہے۔ اجتماعی اقدامات کے مسئلے یا سماجی مخمصے کی تعریف “ایک ایسی صورتحال کے طور پر کی گئی ہے جس میں تمام افراد کو تعاون کرنے سے فائدہ ہو گا لیکن مشترکا اقدامات کی حوصلہ شکنی کرنے والے افراد کے متضاد مفادات کے باعث وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔”
یہ صورت اور بھی زیادہ پریشانی کا باعث بن جاتی ہے جب اِس میں کوئی تضاد پیدا ہو جائے۔ مثال کے طور پر، گرمیوں کے شدید درجہ حرارت میں لوگ ایئر کنڈیشنر کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ تحقیقات سے پتا چلتا ہے، “ایئر کنڈیشننگ شہروں کو زیادہ گرم بنا رہی ہے، نہ کہ ٹھنڈا”۔ ایک امریکی بزنس میگزین، فاسٹ کمپنی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ “رات کے وقت شہر بھر کے ایئر کنڈیشنروں سے پیدا ہونے والی آلودہ حرارت باہر کے درجہ حرارت کو 1 ڈگری سیلسیس بڑھا سکتی ہے۔” لہٰذا ایئر کنڈیشنر درجہ حرارت کو بڑھاتے ہیں اور چونکہ درجہ حرارت بڑھتا ہے، ہمیں زیادہ ایئر کنڈیشننگ کی ضرورت ہوتی ہے، یہی تضاد کہلاتا ہے۔
اجتماعی اقدامات کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک فرد اپنے ایئر کنڈیشنر کو آن نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو وہ کیسے یقین کر سکتا ہے کہ دوسرے بھی ایسا ہی کر رہے ہیں؟ اور اگر دوسرے ایسا نہیں کر رہے تو وہ گرمی کیوں برداشت کرے۔ تو یہ مسئلہ جاری رہتا ہے۔ اور اگر حکومت اِسے ضابطے میں لانے کے لیے قدم اٹھاتی ہے تو ہمیں اعتماد اور اس کے ساتھ نفاذ کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
تخیل اس کا چوتھا پہلو ہے جسے کامارک نے “اس پہیلی کا آخری حصہ قرار دیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی سیاسی اہمیت کیوں اِس مسئلے کے ظاہری ثبوت اور تیز حل کی ضرورت کے ساتھ غیر موافق نظر آتی ہے۔”Where’s the story of where we are headed? (ہم کہاں جا رہے ہیں، اِس کی کہانی کہاں ہے)؟ اِس مُختصر کہانی میں مُصنفہ ہندوستانی ناول نگار امیتاو گھوش کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ “فکشن کی دنیا میں موسمیاتی تبدیلی اس سے بھی زیادہ عنقا ہے جتنی کہ نان فکشن میں۔”
یہاں ایک حقیقی مسئلہ موجود ہے اور یہاں تک کہ جب ہم سائنس کو جانتے اور سمجھتے ہیں، تب بھی ہم آہستگی سے بڑھتی تباہی سے نمٹنے میں بہت سے عوامل کی وجہ سے رکاوٹ بنتے ہیں۔ کیا یہ آخری صدی ہے، جیسا کہ پروفیسر الہان نیاز نے اپنی آنے والی کتاب، Downfall: Lessons for Our Final ؟Century میں دلیل دی ہے۔ یہ دُرست ہو سکتا ہے جب تک کہ ہم اُس سے متاثر نہ ہوں، جسے نیاز “پینگلاس ایفیکٹ” کہتے ہیں۔
مُصنف خارجہ اور سلامتی پالیسیوں میں دلچسپی رکھنے والے صحافی ہیں۔