حمزہ حسین

02nd Oct, 2022. 09:00 am

اٹلی میں دائیں بازو کی جماعت کا عروج

2022ء کےاطالوی انتخابات کے نتیجے میں سب سے زیادہ چونکا دینے والے نتائج سامنے آئے ہیں جوعالمی  برادری نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ڈپٹی آف چیمبرز کی رکن اور برادرز آف اٹلی پارٹی کی صدر  جارجیا میلونی نے ووٹنگ کی کم شرح کے باعث  انتخابات میں مجموعی طور پر 26 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں ۔ انتہائی دائیں بازو کی رہنما

جارجیا میلونی ، جو امیگریشن،ایل جی بی ٹی کیو  کے حقوق ،اسلام اور بائیں بازو کے نظریات جیسے سماجی بہبود کی شدید مذمت کے لیے مشہور ہیں،اٹلی کی سب سے متنازعہ  اور  تفرقہ انگیز   سیاست دان  کے طور پر سامنے آئی ہیں ، میلونی  لیگا پارٹی کے فائر برانڈ لیڈر میٹیو سالوینی اور سابق وزیر اعظم سلویو برلسکونی کی فورزا اٹالیہ پارٹی سمیت اپنے اتحاد کے ساتھ  جلد ملک کی وزیر اعظم  بن  جائیں گی ۔حالیہ انتخابات کے نتائج اور  انتہائی دائیں بازو کا عروج اٹلی کے مستقبل کے لیے ایک ہولناک علامت  بن گیا  جو کہ گروپ آف  7 ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور یورپی یونین کے  رکن کی حیثیت سے بآسانی فاشزم کی جانب جھک سکتا ہے ۔1945ء کے  بعد یہ پہلا موقع ہے جب اٹلی نے انتہائی دائیں بازو کی حکومت کو اقتدار میں آتے  ہوئے دیکھا ہے۔42 سالہ  جارجیا میلونی ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہوں گی۔ دائیں بازو کے اتحاد کو اب بھی اطالوی پارلیمنٹ میں اعتماد کی تحریک پاس کرنے کی ضرورت ہے اور حکومت قائم کرنے کے لیے صدر سرجیو ماتاریلا سے ان کی اسناد کی منظوری لینی باقی  ہے۔

الیکٹیبلز میں دونوں ایوانوں کے قائدین کے ساتھ ساتھ اہم وزارتوں میں تقرریاں بھی شامل ہوں گی۔لبرل  یا بائیں بازو  کے ایلیٹ ( اشرافیہ) کی اوسط اطالویوں کے لیے کچھ انتہائی اہم مسائل جیسے کہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو بہتر بنانے میں ناکامی،یوکرین کی جنگ کے  بعد  توانائی کے  طویل بحران ، شام اور یمن میں تنازعات اور افراتفری کی وجہ سے مشرق وسطی سے فرار ہونے والے پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر آمد کی شکل میں  سامنے آئے   ہیں ۔

جارجیا میلونی کی جانب سے  چلائی جانے والی مہم ان مسائل پر مرکوز ہے جہاں ان کا  عیسائی بالادستی کا نظریہ اطالوی معاشرے کے محنت کش طبقات کے ساتھ اپیل کرتا نظر آتا ہے ۔  میلونی نے بائیں بازو کی حکومت کے دوغلے پن  کے خلاف آواز اٹھائی ، اور  سابق وزیر اعظم ماریو ڈریگھی کی حکومت کے خاتمے کا مذاق اڑایا ، عام  اطالوی ووٹرز سے اپیل کرنے کے لیے نسل پرستانہ اور غیر انسانی عقائد پر زور دیا ہے ۔

ڈکٹیٹر بینیٹو مسولینی  سے متاثر  میلونی    کی جانب سے اٹلی  کی  50 سالہ تاریخ کا  بہترین سیاست دان  مسولینی   کو قرا ر دیا جانا واقعی   تشویش ناک ہے اور نو فاشسٹ(نو فاشزم میں عام طور پر نسلی بالادستی، آمریت، قوم پرستی،اور امیگریشن مخالف جذبات کمیونزم، اور سوشلزم کی مخالفت شامل ہوتی ہے) اطالوی سوشلسٹ موومنٹ کے لیے ایک نوجوان رضاکار کے طور پر اس کی شمولیت نے اسے ڈی فیکٹو نو نازی  (وہ شخص جو اس گروہ سے تعلق رکھتا ہے جو ہٹلر کے نازیوں کے نظریات اور پالیسیوں پر یقین رکھتا ہے اور اکثر پُرتشد د کارروائی  سے گریز نہیں کرتا ) بنا دیا ہے ۔

Advertisement

میلونی نے ایسے لیبلز سے اختلاف کیا  ہے جہاں ایک مہم کے دوران اس نے اس بات کا مذاق  بھی اڑایا کہ اسے یا تو  ‘  نازی ازم کا غدار  ‘  یا  ‘  نیو نازی ‘   کہا جاتا ہے، جیسا کہ اٹلی میں بائیں بازو کی اشرافیہ  کی جانب سے  اس پر لیبل لگایا   گیا ہے۔اس کے باوجود بہت کم لوگ اس بات  پر مشکوک ہیں کہ 1915ء-1939ء تک دنیا بھر میں نازی نظریات کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے آمروں کی تعریف تخفیف پسند، متنازعہ اور نسل پرستانہ ہے۔اسلام کے بارے میں ان کے خیالات بھی  ہمیشہ سے اتنے ہی متنازعہ رہے ہیں۔جارجیا میلونی نے ‘عظیم تبدیلی’  کے طور پر  ریناؤڈ کیموس کے ‘سفید نسل کشی کے نظریہ’ کی تائید کی ہے جہاں آنے والے مسلمان، عرب اور مشرق وسطیٰ کے تارکین وطن منظم طریقے سے اکثریتی رومن کیتھولک آبادی کی جگہ لے سکیں گے ۔

2022ءمیں اشرافیہ کے شہر سیواتانووا مارچ میں نائجیرین تارکین وطن  الیکا  اگورچوکہوکے  قتل نے  اطالوی  معاشرے  میں پیدا ہونے والی دراڑ کو  نمایاں کیا ۔ جبکہ جھاڑ پھونک ہمیشہ سے اطالوی معاشرے  کا حصہ  رہی ہے اور آبادی کی اکثریت بشمول قدامت پسند تارکین وطن کے خلاف نسل پرستی کی مذمت کرتے  نظر آتے ہیں ۔  حکام کا ردعمل اس واقعے  سے رونما ہونے والے اثرات کو کم کرنا اور حملے کے نسلی محرکات پر سوال اٹھانا تھا۔میلونی کی مہم، جس نے تارکین وطن کے خلاف سخت جذبات کا اظہار کیا، اس  میں ایک بار پھر مضبوطی پیدا کی گئی ہے   اور انہیں مرکزی دھارے میں آنے کی اجازت  مل گئی ہے  ۔جیساکہ بھارت میں ہندوتوا گروپ مودی حکومت کے تحت زیادہ نمایاں ہوا  یا امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں سفید فام بالادستی تنظیمیں   نمایاں طور پر سامنے  آئیں ۔ اتہائی دائیں بازو، جو کہ اسکولوں میں فائرنگ  کے واقعات سے لے کر تنہا بھیڑیوں کے جرائم میں ملوث ہونے  تک شہریوں پر ہونے والے زیادہ تر حملوں کے لیے ذمہ دار ہے، جارجیا میلونی جیسے متنازعہ نظریات کے حامل افراد کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے سیاسی طور پر سرگرم ہو جاتی ہے۔

یہ منظر  بلاشبہ یورپ کے لیے ایک اداس تصویر پیش کرتا ہے جس نے اکثر خود کو جمہوریت، تکثیریت، پرُامن بقائے باہمی اور شمولیت کا ایک ترقی پسند مرکز قرار دیا ہے۔

میلونی ، اپنے ہنگری کے ہم منصب وکٹر اوربان کی طرح، کھلے عام ‘یورو سیپٹک (یورپی یونین اور یورپی انضمام پر تنقید کرنے والا ) ثابت ہوئی ہیں ،جوبریگزٹ کی توثیق کرتی ہیں اور یورپی یونین کے کئی رکن ممالک کی  اوپن ڈور   پالیسی (  یہ پالیسی ملازمین کو بتاتی ہے کہ ایک سپروائزر یا مینیجر ملازم کے سوالات، شکایات، تجاویز اور چیلنجز کو سنتا ہے )کے لیے آواز اٹھاتی ہیں ۔ اس کے شراکت داروں جیسے میٹیو سالوینی نے کھل کر روس کی حمایت کی ہے حالانکہ میلونی سمیت بہت سے لوگ یوکرین کی جنگ کے بعد کریملن سے دور ی اختیار کرچکے ہیں  ۔اس کے باوجود، سالوینی نے اٹلی کی رومانی آبادی کو پیش کیا  جو جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح  کے حوالے سے دقیانوسی  تصور  کیا   جاچکا ہے۔

  بے روزگاری اور یورپی معاشروں میں انضمام کی کمی کو ‘قومی سلامتی کے خطرات کے طور پر مقامی حکام کے ذریعہ مردم شماری کے اعداد و شمار  جمع  کرنے اور انہیں ملک بدر کرنے کا مطالبہ  بھی کیا گیا ۔اکثر  ، اس طرح کی نفرت سے بھری پالیسیاں یورپی یونین کی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں، لیکن فرانس، سویڈن اور اسپین جیسے ممالک میں  دائیں بازو کے لیے بڑے پیمانے پر حاصل ہونے والے فوائد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے بہت سی اقدار آہستہ آہستہ ختم ہو رتی  جارہی ہیں ۔ جارجیا میلونی خود کو انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان کے بجائے مرکز دائیں کے طور پر رکھنے کی کوشش کریں گی اور اپنی سیاست کی  بقا  کی خاطر ، وہ عارضی طور کسی  تنازعہ میں نہ پڑتے ہوئے نازی نظریے کی توثیق بھی شامل  ہوسکتی ہیں ۔پھر بھی ھر بھی،میلونی  کے حامیوں کے لیے، ان کی پالیسیوں کا تسلسل جیسے کہ اطالوی آئین میں ترمیم اور صدارتی نظام کی حمایت، ایک عوامی لہر کی راہ ہموار کر سکتی ہے جس کے نتیجے میں تمام اطالوی شہریوں کی بہتری  عمل میں لائی  جاسکتی ہے ۔کسی بھی طرح، انتہائی دائیں بازو  کی  مخلوط حکومت اطالوی نظام کو درہم برہم کر سکتی ہے، یورپی یونین کےلئے  توہین آمیز  بھی  بن سکتی ہے، اور اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ  یورپ کے سب سے اہم  ملک میں نو فاشزم  کا قبضہ ہوجائے۔

مصنف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں

Advertisement

Next OPED