حمزہ حسین

08th Jan, 2023. 09:00 am

2023ء میں بین الاقوامی اور ملکی سطح پر توقّعات ؟؟؟

مُصنّف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔

اگرچہ نئے سال کا آغاز دنیا بھر میں کافی زور و شور سے ہوا تھا، تاہم 2023ء کی آمد سڈنی سے بیجنگ تک بہت سی مشکلات کے ساتھ ہوئی ہے۔ ایک زیادہ حقیقت پسندانہ مفروضہ یوکرین جنگ، کورونا وبا اور امریکا اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ سے ممکنہ عالمی بحالی کی توقّعات پر قابو پانا ہے۔ پاکستان کے لیے 2023ء معاشی توقّعات کو پورا کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ پالیسی سازی حلقے کی سیاست سے ہٹ کر عوام کو آسانی فراہم کرنے پر مرکوز ہو۔ اندرونی و بیرونی عوامل کے درمیان نازک توازن کی تلاش اور منصوبہ بندی اسلام آباد کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوگی۔

2022ء کے سیلاب کے بعد جہاں زرعی اشیاء کی فراہمی کم ہے اور ملکی مصنوعات کی قیمتیں آسمان کو چھُو رہی ہیں، وہاں مہنگائی کو کم کرنے کی ضرورت ہے جس سے ملک بھر میں لاکھوں پاکستانیوں کی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ یہاں تک کہ جاپان جیسے ممالک نے بھی اپنی قومی شرح سود میں اضافے کا سہارا لیا ہے جس کا مطلب ہے کہ جاپانی امداد حاصل کرنے والوں کے لیے بانڈز کی خریداری زیادہ مہنگی ہو جائے گی۔ اگرچہ اس طرح کے سخت اقدامات پاکستانی پالیسی سازوں کے لیے مشکل ہو سکتے ہیں تاہم اقتصادی بحالی کے اقدامات سے کلیدی سبق حاصل کرنا بہت ضروری ہے جو بڑے شہروں میں تجارتی سرگرمیوں کو محدود کرنے اور عام شہریوں کی روزی روٹی کو نقصان پہنچانے سے بالاتر ہیں۔

پھر قرضوں کی ادائیگی کا سوال آتا ہے۔ 2023ء میں آئی ایم ایف مینڈیٹ کی ساختی تبدیلیوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے موجودہ حکومت کی صلاحیت کے بغیر پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ سری لنکا کے معاشی بحران کے حد سے باہر ہونے کی ایک وجہ کولمبو میں راج پاکسے خاندان کا عوام دوست پالیسیوں کو اپنانے سے انکار کرتے ہوئے ساختی ریلیف کے لیے آئی ایم ایف سے بات چیت کرنا تھی۔ اس کا نتیجہ جنوبی ایشیا کے سب سے خوشحال ملک کے زوال کی صورت میں نکلا۔ پاکستان کو سری لنکا جیسی غلطیاں کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

معاشیات سے بڑھ کر سیاسی استحکام کو برقرار رکھنا اہم ہے جو حکمراں اشرافیہ کی مخالفت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کی ضد کے باعث نظرانداز ہو رہا ہے۔ سیاسی تعطل نے سرمایہ کاروں کے اعتماد پر نقصان دہ اثر ڈالا ہے کیونکہ پاکستانی جمہوریت کی نزاکت کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ سیاسی اتفاقِ رائے، مذاکرات، بیرونی حکمت عملیوں اور بات چیت کے ذریعے اختلافات کے خاتمے کا فقدان پہلے ہی صورتحال کو مزید خراب کر رہا ہے کیونکہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے لیے بڑھتی ہوئی مقامی حمایت اب پاکستان کے معاشی منظر نامے کی خصوصیت ہے۔ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوامی حمایت پی ٹی آئی کی جانب ہے، اِس کے باوجود پاکستان کی سب سے مقبول جماعت کے لیے بھی ملکی اور بین الاقوامی چیلنجوں کا سامنا کرنا ایک کٹھن اور بوجھل کام ہوگا۔

Advertisement

بین الاقوامی نظام میں پاکستان کا مقام خطرے میں نہ ہونے کے باوجود یقیناً حوصلہ افزا نہیں ہے۔ ایک شیطانی ہندوتوا نظریے کی آڑ میں اپنے مذموم تسلط پسندانہ عزائم کے ساتھ بھارت کی وحشیانہ فطرت پاکستان کی بین الاقوامی سفارتی کوششوں کے لیے ایک چیلنج ہے کیونکہ عالمی رائے بھارت کی کھربوں ڈالر مالیّتی معیشت کے کمرشل ازم کی طرف متوجہ ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اپنے ملکی نظام کی ترتیبِ نو کی جائے، ترغیبات کے ذریعے صنعت کاری کا آغاز کیا جائے، توانائی کی کمی کو دور کیا جائے اور دنیا کے سامنے مُشتہر کرنے کے لیے خاصے اقتصادی سرمائے کو برقرار رکھا جائے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مثبت پہلوؤں میں سے ایک، بڑی طاقتوں کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا سے تعلّقات کو متوازن کرنے کے لیے اِس کی اَنتھک کوشش ہے۔ پاکستان نے کسی بھی ایسے عمل میں حصہ لینے سے گریز کیا ہے جس سے سعودی عرب یا ایران سے تعلّقات پر سمجھوتہ ہو، خاص طور پر جب ریاض اور تہران دونوں ایک تباہ کن پراکسی جنگ میں اُلجھے ہوئے ہیں جو مشرقِ وُسطیٰ کے سماجی تانے بانے کو غیر مستحکم کر رہی ہے۔ اسی طرح جبکہ چین سے اٹوٹ تعلّقات ہیں، امریکا سے تعلّقات کو فائدہ پہنچانے کی کوششیں کی گئی ہیں جو تاریخی طور پر انسداد دہشت گردی، افغانستان اور علاقائی سلامتی پر لین دین پر مبنی ہیں۔

تاہم سلامتی کے محاذ پر پاکستان کے بہت سے مسائل علاقائی ہیں۔ افغان طالبان کا عروج تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے تشدد میں اضافے کے ساتھ ہی ہوا ہے جو ایک جوہری ریاست کے وفاقی دارالحکومت میں گھسنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ عسکری انتہا پسندی کو کثیر جہتی طریقوں سے نمٹا جائے جو صرف انتہا پسندی سے پاک کرنے تک محدود نہ ہوں۔ طالبان حکومت پر دہشت گردوں اور اُن کے آلہء کاروں کو لگام ڈالنے کے لیے دباؤ، جس کے بغیر افغانستان سے سفارتی تعلّقات بے اثر ثابت ہو سکتے ہیں، ایک درست نقطہء نظر ہے خاص طور پر جب دنیا اس ملک میں انسانی حقوق کی بے دھڑک خلاف ورزیوں کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ پاکستان کے مُستقبل کا دارومدار اندرونی سلامتی کے خطرے سے نمٹنے اور اس بات کو یقینی بنانے پر ہے کہ کوئی بھی سرزمین اِس کی سلامتی کو درہم برہم کرنے کے لیے استعمال نہ ہو۔

2023ء پاکستان کے لیے انتخابات کا سال بھی ہے اور یہ عوامی حمایت کو ترجیح دینے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی سے عام آدمی کی معاشی پریشانیوں میں کمی کی امید نہیں ہے۔ تاہم اقتدار کی جمہوری منتقلی کی امید ہے جس کے نتیجے میں ایسی قانون سازی ہو سکتی ہے جو معاشی مسائل سے بہتر طریقے سے نمٹ سکے۔ انتخابات سے پیشتر بلند و بانگ اور جانبدارانہ بیان بازی سماجی منظر نامے میں دراڑیں پیدا کر سکتی ہے، لیکن یہ بھی پاکستان کے لیے سیاسی طور پر درمیانی راہ تلاش کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

مجموعی طور پر 2023ء پاکستان کے لیے ایک مُشکل سال ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ بین الاقوامی اور ملکی تغیرات استحکام، اقتصادی خوشحالی اور معاشی دلدل میں پھنسے اُن لاکھوں عوام کی زندگیوں میں بہتری کے لیے اسلام آباد کی کاوشوں پر انتہائی زیادہ اثرانداز ہوں گے۔

Advertisement

Next OPED