سیاق و سباق کے اُصول اور اِنتخاب
بہترین سے کم تر حالات میں انتخاب کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے
یہ ستمبر 2011ء تھا۔ میں پاکستان واپسی کی پرواز کے لیے ڈلس ایئرپورٹ (ورجینیا) جا رہا تھا۔ 60 برس سے زائد عمر کا ایک شامی نژاد امریکی جوڑا میرے ساتھ ٹیکسی کی سواری کا اشتراک کر رہا تھا۔ وہ کچھ کاروباری معاملات طے کرنے اور امریکا واپسی سے قبل رشتے داروں سے ملنے کے لیے دمشق جا رہے تھے۔
ہم نے گپ شپ شروع کی اور ابتدائی خوشگوار کلمات کے بعد لامحالہ طور پر گفتگو کا رُخ شام کے حالات کی جانب مُڑ گیا۔ شامی باشندے کا کہنا تھا کہ وہ اس پیش رفت سے بہت پریشان ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اگر حزب اختلاف کے گروہوں نے بشار الاسد کی جانب سے پیش کیے جانے والے سیاسی اور آئینی مواقع قبول نہ کیے، اگرچہ وہ بہت کم ہیں، تو صورت حال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔
میں نے دلیل دی کہ اسد کے لیے اقتدار چھوڑنا ہی واحد راستہ ہے۔ میرے شامی ہمسفر نے دو وجوہات کی بنا پر اِس سے اختلاف کیا۔ ایک، اسد کا اقتدار چھوڑنے کا امکان نہیں تھا۔ دو، اگر وہ اس وقت مستعفی ہو گئے تو ملک انتشار کا شکار ہو جائے گا۔ اُن کا خیال تھا کہ کئی دہائیوں کی آمرانہ حکمرانی کے بعد اچانک حکومت بدل جانا فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب بنے گا۔ پھر مجھے جمہوریت کے اصول، عوام کی مرضی، ان کے حقوق، وغیرہ وغیرہ وغیرہ کی بنیاد پر اُن سے طویل بحث یاد ہے۔
اُنہوں نے قدرے تحمل سے میری بات سنی اور کہا کہ اگر کوئی حل نہ نکلا تو شام الگ ہو جائے گا کیونکہ مظاہروں سے ردعمل جنم لے گا، ردعمل مزید مظاہروں کو جنم دے گا، تشدد کا سلسلہ بڑھے گا اور حالات ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ وہ خاص طور پر بیرونی قُوتوں کی دخل اندازی اور بنیاد پرست اسلام پسند گروہوں کے لیے خلا پیدا ہونے سے خوفزدہ تھے۔
جیسا کہ بعد کے واقعات سے بھی ظاہر ہے، وہ بالکل درست تھے۔ دوسری طرف میں، کم از کم شام میں، گلاسنوسٹ کے لیے اچانک دباؤ کے نتائج کو سراہنے میں ناکام رہا۔ مجھے بہتر طور پر جاننا چاہیے تھا، کم از کم اس لیے نہیں کہ میں نے خود بھی اکثر مضبوط ریاستوں کی مخالفت میں مصری مُصنف نازی ایوبی کے بیان کردہ جارح اور سخت ریاستوں کے درمیان فرق کا حوالہ دیا ہے۔
وہ اپنی 1995ء میں شائع ہونے والی کتاب، “اوور اسٹیٹنگ دی عرب اسٹیٹ: پولیٹکس اینڈ سوسائٹی اِن دی مڈل ایسٹ” میں ایوبی نے دلیل دی ہے کہ آمرانہ عرب ریاستوں کے پاس آبادی، رجحانات اور تبدیلیوں کو کنٹرول کرنے کی بہت کم صلاحیت تھی کیونکہ وہ ریاستی مشینری (بیوروکریٹ انتظامیہ، نگراں ادارے، فوج اور پولیس) عوام کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ ایوبی نے اس بات کو پُر زور طور پر بیان کیا کہ سخت ریاست عوام پر جبر کرتی ہے، اس لیے وہ آسانی سے ٹوٹنے والی ہوتی ہے۔ مضبوط ریاست جمہوری عمل کے ذریعے، عوام کو قائل کرکے اور مجموعی مفادات کے تحت اپنے مقاصد حاصل کرتی ہے۔ ایسی ریاست کو زیادہ تر عوام اجنبی ادارہ نہیں سمجھتے۔
یہی وجہ ہے کہ شام پر گفتگو کرتے ہوئے مجھے پر یہ واضح ہونا چاہیے تھا کہ دو چیزیں ہونے کا امکان ہے، بشارالاسد جبر کا سہارا لیں گے اور اپوزیشن تشدد سے جواب دے گی۔ اس عمل میں ریاست بکھر جائے گی اور اس انتشار میں بیرونی ہاتھ ملوث ہو جائیں گے، جیسا کہ وہاں ہوا۔ نتیجتاً شام میں خانہ جنگی جاری ہے۔
لیکن یہ خیالات کیوں؟ اِس لیے کیونکہ میرے گزشتہ مضمون نے تھوڑی بحث کو جنم دیا تھا اور خاص طور پر ایک منجھے ہوئے مُبصر نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کون سا حکم غیر قانونی سمجھا جا سکتا ہے اور اگر ماتحت اس کی نافرمانی کریں تو کیا اسے درست نہیں سمجھا جائے گا؟ مثال کے طور پر، اگر آرمی چیف نے 111 بریگیڈ کے کمانڈر کو وزیراعظم کو گرفتار کرنے اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر / چیف آف آرمی اسٹاف سے مزید احکامات کے لیے جی ایچ کیو رپورٹ کرنے کی ہدایت کی تو کیا ہوگا؟ کیا کمانڈر کو چیف آف آرمی اسٹاف کو آئین پڑھ کر سنانا چاہیے اور بتانا چاہیے کہ وہ ایسے حکم پر عمل نہیں کر سکتے؟
یا مزید شدت کے ساتھ، ایک افسر سے کہا گیا کہ وہ اندھا دھند بمباری کرکے، اگر ضرورت ہو تو ایک گاؤں پر بھی، اور دہشت گردوں کے ایک گروپ کو باہر نکالے جس کے نتیجے میں اپنا بھی اضافی نقصان ہو تو کیا آپریشن کی ہدایت کرنے والے افسر کو جنیوا کے مختلف کنونشنز اور متناسب طاقت کے استعمال کو پڑھنا چاہیے؟
جیسا کہ واضح ہونا چاہیے، دونوں حالات بہت مختلف ہیں۔ میں “اعلیٰ احکامات” کے دفاع سے مشرُوط حالات سے شروع نہیں کروں گا جو اِس ملک کے بدقسمت تاریخی حقائق سے مماثلت رکھتے ہیں۔ آئین کی خلاف ورزی ایک سنگین جرم ہے اور حقیقتاً آئین میں اِس سے متعلق ایک شِق موجود ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں، مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ایک فرد حقیقی دنیا میں یہ انتخاب کرتا ہے۔ وہ انتخاب حقیقی زندگی کے حالات میں عیاں ہو جاتے ہیں اور اس لیے اُن پر خالصتاً تصوراتی، فکری یا آئینی طور پر بحث نہیں کی جا سکتی۔ یقیناً، کوئی بھی ان انتخاب کو مسئلہ بنا سکتا ہے، جیسے ٹرالی تجربات (انسانی اخلاقیات سے متعلق تصوراتی تجربات) کرتے ہیں، لیکن بالآخر حقیقی دنیا میں کسی کو تو یہ انتخاب کرنا پڑتا ہے۔
ایسی صورت میں، اور یقیناً میں جانتا ہوں کہ ناقدین کے لیے میرے مؤقف سے اختلاف کرنے کی کافی گنجائش ہے، ایک چیف آف آرمی اسٹاف کا بغاوت کا حکم دینا آئینی طور پر غلط ہے (اور میں اصولی طور پر اس کی مخالفت کروں گا) لیکن جب بغاوت ہوتی ہے، اور یہ ہوتی ہے کیونکہ نظام میں بہت کچھ پہلے ہی خراب ہونے کا امکان ہے – ایک ماتحت افسر کے لیے ایسی صورت حال پیدا کرنا جو فوجی نظم و ضبط کی خرابی کا باعث بن سکتی ہے، آئین کی اصل خلاف ورزی سے کہیں زیادہ سنگین نتائج کی صورت حال ہے۔ وجہ سادہ ہے ۔۔ آئین کی خلاف ورزی جتنی بھی بری ہو، اس میں خون خرابہ نہیں ہے۔ نظم و ضبط کی خلاف ورزی کبھی خون خرابے سے خالی نہیں ہوتی اور مزید انتشار و جانی نقصان کا باعث بنتی ہے۔
اور یہ کوئی فرضی امکان بھی نہیں ہے۔ 2016ء میں ترکی اس طرح کی دھڑے بندی کی وجہ سے بربادی کے کنارے پہ تھا۔ مغربی افریقی ریاستوں نے نظم و نسق کو نقصان پہنچانے کے ایسے حالات دیکھ رکھے ہیں۔ اگرچہ تصوراتی/نظریاتی سطح پر کسی کو بھی غیر آئینی حکم کو مسترد کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہو سکتا، لیکن حقیقی دنیا میں بہترین سے کم تر حالات میں انتخاب کرنا، اُصول اور اس میں پائی جانے والی وراثتی بھلائی کے بارے میں صرف “کانٹین دلیل” پیش کرنے سے زیادہ پیچیدہ عمل ہے اور جس کا اس وجہ سے دفاع کیا جانا چاہیے۔
دوسری مثال میں، اگر کوئی فیلڈ کمانڈر یا ایک پائلٹ یا ڈرون آپریٹر، شہریوں کو دیکھتے ہوئے اِس بات پر قائل ہے کہ اضافی جانی نقصان سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں، تو ایسے آپریشن کو ترک کرنے کا مشورہ دیا جائے گا، جو کہ اکثر ہوتا ہے۔ ایسے افسران تھے جنہوں نے 1977ء کی پی این اے تحریک کے دوران مظاہرین پر گولیاں چلانے سے انکار کر دیا تھا۔ غلطیاں انسانی خطا یا غلط اطلاع کے باعث ہوتی ہیں لیکن اگر کمانڈر کو غیر مسلح شہریوں کی موجودگی کے بارے میں اطلاع ملتی ہے اور اسے معقول حد تک یقین ہے کہ ہدف کو نشانہ بنانے سے ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوگا تو ایک سپاہی کے طور پر وہ آپریشن یا ہڑتال کو ختم کرنے میں مکمل طور پر حق بجانب ہوگا۔ ایسا کرنے سے وہ حکم کی نافرمانی نہیں کر رہا ہوگا بلکہ وہ فوج کے “رُولز آف اِنگیجمنٹ” کے مطابق عمل کر رہا ہوگا۔
میں نے اوپر اعلیٰ احکامات کا ذکر کیا تھا۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد نیورمبرگ عدالت کی سماعتوں میں یہ طے ہوا کہ سزا سے بچنے کے لیے اب اعلیٰ احکامات کی موجودگی کافی نہیں ہے، تاہم بعض صورتوں میں، یہ صرف سزا کو کم کرنے کے لیے کافی ہے۔
نکتہ یہ ہے کہ حقیقی زندگی کے حالات ہمیشہ ہمیں مشکل انتخاب کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں۔ یہ انتخاب اکثر ہماری پیشگوئیوں پر منحصر ہوتے ہیں۔ آخر میں، حقیقت یہ ہے کہ حقیقی زندگی کافی کٹھن ہے۔ کسی صورت حال میں، کسی فرد کو سیاق و سباق کے مطابق کچھ اُصولوں کا اِطلاق کرنا پڑتا ہے، نہ کہ سیاق و سباق سے ہٹ کر، کیونکہ کچھ بھی خود بخود نہیں ہو جاتا۔
مصنف خارجہ اور سلامتی کی پالیسیوں میں دلچسپی رکھنے والے صحافی ہیں۔






