ڈاکٹر حسن شہزاد

08th Jan, 2023. 09:00 am

سعودی عرب کا انتباہ طالبان کے خلاف عزم کو مستحکم کرتا ہے

مصنف انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں استاد ہیں۔

پاکستان سال 2023ء میں داخل ہوگیا ہے، سعودی عرب کی حکومت نے اپنے شہریوں کو دہشت گردی کے کسی بھی خطرے کے پیش نظر اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنے کا انتباہ جاری کیا ہے۔ امریکہ، آسٹریلیا اورچند دیگر ممالک کی پیروی کرتے ہوئے سعودی حکومت اپنے شہریوں کو پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون کے اندر بھی اپنی نقل وحرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

اسلام آباد کو راولپنڈی سے ملانے والی سڑک پرپولیس چیک پوسٹ پرخودکش حملے کے بعد غیر ملکیوں کے لیے سیکیورٹی ایڈوائزری جاری کی گئی۔ حملے میں ایک ہیڈ کانسٹیبل عدیل حسین شہید ہوگیا۔ یہ حملہ اس حقیقت کے باوجود ہوا کہ 2022ء کے آخری مہینوں میں کانسٹی ٹیوشن ایونیو تک پہنچنے والے راستوں پر لوہے کے دروازے نصب کیے گئے تھے اورشہر کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے حفاظتی اقدامات میں توسیع کی گئی تھی۔

خودکش حملہ دہشت گردانہ حملوں کے سلسلے میں تازہ کارروائی تھا جو 2021ء میں طالبان کے کابل پرقبضے کے بعد شروع ہوئے تھے۔ دہشت گردی کی تازہ لہر میں اب تک سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ ترسیکورٹی اہلکار ہیں۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقے افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہیں۔ پاک فوج میں کمان کی تبدیلی کے بعد حملوں کی شدت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ عہدہ سنبھالنے کے چند دن بعد ہی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیراوردیگر اعلیٰ کمانڈنگ افسران نے بلوچستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے فوجی افسرکی نمازجنازہ میں شرکت کی۔

ان اموات کا براہ راست تعلق اس مایوسی سے ہے، جس کے ساتھ افغانستان میں طالبان کا قیام بین الاقوامی برادری میں قدم جمانے کے لیے کوشاں ہے۔ ان کی اپنی حکمرانی کے ناجائز ہونے کو نہ سمجھنا ان کی مایوسی کوناامیدی میں بدل رہا ہے۔ انہیں دنیا بھر میں قبولیت حاصل کرنے میں ناکامی کو نظرانداز کرتے ہوئےکچھ پاکستانی تھنک ٹینکس رپورٹس پررپورٹس تیارکررہے ہیں،جن میں دنیاسےطالبان کےساتھ مل بیٹھنےکی درخواست کی جاتی ہے۔

Advertisement

پاکستان نے اپنے وفد کو نائب وزیر خارجہ کی زیرقیادت کابل بھیجا تاکہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں مدد فراہم کی جائے۔ کسی دوسرے ملک نے اس طرح کے اقدام میں پاکستان کی پیروی نہیں کی۔ اس کے باوجود طالبان نے ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنے اعلیٰ سطحی وفود مختلف ممالک میں بھیجے۔ تاہم، انہوں نے گزشتہ چند ماہ میں اس طرح کے وفود پاکستان نہیں بھیجے اوران کی مرکزی قیادت نے میڈیا کے بہت زیادہ شور کے دوران کابل پہنچنے والے پاکستانی وزیرسے ملنے سے بھی انکارکر دیا۔

2001ء میں جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو اسلام آباد میں محتاط آوازیں بلند ہوئیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ خطے کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ تاہم، جمود کے حامیوں نے اس وقت ان کی مخلافت کی، اور تب سے وہ عقل کی آوازوں سے متصادم ہیں۔ وہ طالبان کی حکمرانی کا اس دلیل کے ساتھ جواز پیش کرتے ہیں کہ پاکستان کے لیے کابل میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کرتے ہوئے بھارت کا مقابلہ کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ وکیل زیادہ تر تھنک ٹینکس میں بیٹھتے ہیں، مغربی لباس پہنتے ہیں، انگریزی بولتے ہیں اور اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم اور کاروبار کے لیے امریکہ اور یورپی ممالک بھیجتے ہیں۔ ان کا ذاتی زندگی میں طالبان سے کوئی تعلق نہیں۔ چاہے وہ بظاہرمختلف نظر آئیں، طالبان اوران تھنک ٹینک ‘محققین’ دونوں کے اہداف مشترکہ ہیں۔

اپنی پوری فصاحت کے باوجود وہ دنیا کو قائل کرنے میں ناکام رہے کہ وہ طالبان کو وہ دے دیں جو ان کا نہیں ہے۔مسلسل ستائش کے ساتھ انہوں نےافغان طالبان کے پاکستانی ورژن کومضبوط کیا۔ دنیا بھرکے برعکس جو کابل کے حکمرانوں کے خوف سے دور ہے، یہ گروہ انہیں مثالی بنا کر پیش کرتا ہے۔ یہ پاکستان میں ان کے طرزحکمرانی کو پر عمل چاہتا ہے۔ افغان صحافی اور کاروباری افراد ہمیشہ ان تھنک ٹینک سے سوال کرتے ہیں کہ اگر طالبان کی حکومت کابل کے لیے اچھی ہے تو اسلام آباد کے لیے کیسی بری ہے۔ اس سوال کا واضح جواب یہ ہے کہ کوئی بھی ملک غیر ریاستی مسلح تنظیموں کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ فطرتا مفاد پرست سب سے زیادہ بولی لگانے والے سے رقم پکڑنے کے لیے تیارہیں۔ یہاں تک کہ اس معاملے میں بھارت بھی انہیں خرید سکتا ہے۔

سال 2023ء میں امید ہے کہ فیصلہ سازحلقوں میں یہ شعور آئے کہ اگرطالبان اسلام آباد کے لیے برے ہیں تو وہ کابل کے لیے بھی برے ہیں۔ فوج نے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کا ان کے آخری ٹھکانے تک پیچھا کرے گی۔

خیبرپختونخوا کی صوبائی قیادت نے صوبے میں عسکریت پسندی کی واپسی کے خلاف واضح موقف اختیار کیا ہے۔ عوام کو اس کے خلاف بڑے پیمانے پر متحرک کیا جا رہا ہے۔ وزیر خارجہ نے افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اپنی خاموشی توڑ دی ہے۔ واشنگٹن میں مختلف پروگراموں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی سلامتی پرکوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

امریکہ نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کے انتظام میں مدد کی پیشکش کی ہے، جس میں حساس مقامات پرڈرون رکھنے کا حوالہ ہے۔

Advertisement

سب سے بڑھ کر یہ کہ سعودی عرب نے جدید طرز زندگی کو اپناتے ہوئے ہر قسم کی انتہا پسندی سے خود کو دور کر لیا ہے۔ اس تبدیلی پرسعودی عوام کی ناراضی اور افغانستان میں سعودی عرب کی حمایت دم توڑ رہی ہے۔جس نے پاکستان میں انتہا پسندانہ بیانیے کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب نے خواتین کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم پرپابندی لگانے کے طالبان کے فیصلے کی سختی سے مذمت کی۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ طالبان سعودی عرب کے اس مؤقف کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے سفارت خانے نے سعودی شہریوں کے لیے ایک ایڈوائزری جاری کی ہے جس میں انہیں ممکنہ سکیورٹی خطرات سے خبردار کیا گیا ہے۔

اگرچہ امریکا اورسعودی عرب ایندھن کی قیمتوں کے تعین کے معاملے پر مخالف سمت میں ہیں لیکن طالبان کی دھمکی نے دونوں کو پاکستان میں ایک پیج پرلا کھڑا کیا ہے۔ چین اپنے تمام شہریوں کو جلد از جلد افغانستان سے نکل جانے کو کہنے سے قبل ہی گزشتہ ہفتوں میں کابل کے ایک ہوٹل میں اپنے شہریوں پر ہونے والے حملے میں بال بال بچ گیا ہے۔ اس منظر نامے میں اس سال بظاہر تمام طالبان برانڈزکی پاکستان کو زخم دینے کی صلاحیت میں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستان کے پاس دنیا کو اپنی کامیابیوں کے طور پر دکھانے کے لیے طالبان کے علاوہ بہت کچھ ہے۔ تاہم خارجہ پالیسی کا تسلسل 2023ء میں اہمیت کا حامل ہے جو کہ انتخابات کا سال بھی ہوسکتا ہے۔

Advertisement

Next OPED