راجہ کی بادشاہت کب تک!
ایک سال بعد، پی سی بی کے چیئرمین کی مخصوص خصوصیات ظاہر ہونا شروع ہو گئیں
یہ دنیا کے بہت سے ممالک میں ایک مقبول خیال ہے کہ پولیس میں کیریئر کے خواہشمند امیدوار وردی زیب تن کرتے ہی لوگوں کی پریشانیوں کے بارے میں بے حس ہو جاتے ہیں اور تمام وجوہات سے گریز کرتے ہیں۔ مختصراً کہا جائے تو وہ بے حس اور ناکارہ ہوجاتے ہیں۔
تجزیہ کار اور زیرک مبصرین اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ کس طرح بہت اچھے، حساس اور خاموش طبع لوگ پولیس اہلکاروں کی حیثیت سے چارج سنبھالنے کے بعد اچانک جارحانہ جبلت پیدا کر لیتے ہیں یا غیر معقول طرز عمل کا سہارا لیتے ہیں۔
غیر معمولی طور پر، پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمینوں کے سلسلے میں بھی ایسا ہی معاملہ دیکھا جا سکتا ہے۔ پچھلی چند دہائیوں کے دوران اپنے اپنے شعبوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے نامور افراد پی سی بی کے چیئرمین کے پرکشش عہدے پر فائز رہے ہیں جن میں لیفٹیننٹ جنرل توقیر ضیاء، ماہر امراض گردہ ڈاکٹر نسیم اشرف، سابق سفیر شہریار خان، صنعتکار ذکا اشرف، سیاسی تجزیہ نگار نجم سیٹھی، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ احسان مانی اور چند دیگر شامل ہیں۔ تاہم، ان میں سے اکثریت کو شرمناک اخراج کا سامنا کرنا پڑا ہے، یا تو اپنے اختیار سے تجاوز کرنے یا پھر آنے والی آفات سے غافل ہونے کی وجہ سے جن کے باعث وہ اپنے وقار سے محروم ہوکر ذلت کے ساتھ رخصت ہوئے۔
جب سابق کپتان رمیز راجہ نے گزشتہ سال چیئرمین کا عہدہ سنبھالا تو ماہرین اور سابق کرکٹرز نے ان کی تقرری کو بڑے پیمانے پر سراہا تھا۔ انہوں نے رمیز راجہ سے بہت سی امیدیں وابستہ کرلی تہیں اور اس کی معقول وجوہ بھی تھیں۔ وہ اپنے بہت سے پیشروئوں کی طرح ٹیکنو کریٹ نہیں تھے اور ان کا کرکٹ کیرئیر ممتاز تھا۔ انہوں نے پاکستان کے لیے 57 ٹیسٹ میچوں کے علاوہ 198 ون ڈے میچوں میں حصہ لیا تھا۔ وہ 1992 ء کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کا بھی حصہ رہے تھے اور دو دہائیوں سے زائد عرصے تک ایک قابل احترام ٹی وی ماہر کے طور پر ان کے وسیع تجربے ناقدین، یہاں تک کہ ان کے مخالفین کو بھی اس بات پر قائل کیا کہ وہ اس عہدے کے لیے ایک مثالی آدمی تھے۔
بے شک رمیز راجہ نے ٹرین کی طرح رفتار پکڑی۔ ابتدا میں، انہون نے مصباح الحق اور وقار یونس کی فاش غلطیاں کرنے والی کوچز کی جوڑی سے چھٹکارا حاصل کیا جنہوں نے حقیقی طور پر ٹیم کو اپنے دفاعی انداز کا یرغمالی بنا رکھا تھا جس کی وجہ سے شکستوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے دائمی خرابیوں کو دور کرنے کے اپنے عزم کا اظہار کیا، ان خرابیوں میں سے ناقابل پیش گوئی پچوں کی شرمناک میراث سے زیادہ نقصان دہ اور کوئی نہیں جو ہمیشہ سے پاکستانی کرکٹ کی دشمن رہی ہے۔ اس پرانی دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہ مقامی مٹی تیز پچز کی تیاری کے لیے سازگار نہیں ہے، رمیز راجہ نے فوری طور پر تیار پچز ) ڈراپ ان وکٹیں (درآمد کرنے کا مطالبہ کیا– ڈراپ ان پچز کا تصور 1970 ء کی دہائی کے آخر میں آسٹریلیا میں کھیل کے جدید دور کے مسیحا کیری پیکر نے کامیابی سے متعارف کرایا تھا۔
اس کے علاوہ دیگر اہم اقدامات بھی تھے، جنہوں نے اس عہدے پر رمیز راجہ کے قد کو بلند کیا۔ انہوں نے گرتے ہوئے گراف کے باوجود قومی ٹیم کی پشت پناہی کرنے کے لیے بڑے اسپانسرزکو کامیابی کے ساتھ تیار کیا اور مقامی کھلاڑیوں کو بھرپور مراعات فراہم کیں، جن کی کامیابیاں سیزن کے لیے دگنی سے بھی زیادہ ہوگئیں۔
رمیز راجہ نے اہم قدم اٹھاتے ہوئے تمام سابق کرکٹرز کی پنشن میں ایک لاکھ روپے کا اضافہ کیا جس سے انہیں ہر طرف سے پذیرائی ملی۔ انہوں نے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی طرز پر انڈر 19 کرکٹرز کے لیے جونیئر کرکٹ لیگ (جے سی ایل) کے انعقاد کا بھی اعلان کیا، جس کا مقصد انہیں پیشہ ورانہ کرکٹ کے لیے تیار کرنا ہے۔
کئی سالوں کے بعد آسٹریلیا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ جیسی ہائی پروفائل ٹیموں کے پاکستان کے دوروں کو رمیز راجہ کے متعدد کارناموں میں مزید سمجھا گیا اگرچہ ان دوروں کے لیے بنیادی کام سابق سی ای او وسیم خان نے کیا تھا۔
سونے پر سہاگہ، یقیناً، گزشتہ سال متحدہ عرب امارات میں ہونے والے T20 ورلڈ کپ کے میچ میں پاکستان کی بھارت کو 10 وکٹوں سے شکست دینا تھا۔ اس فتح نے رمیز راجہ کو تاحیات چیئرمین کے عہدے پر فائز کر دیا۔
ایک سال بعد اب پی سی بی کے چیئرمین کی مخصوص خصوصیات ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ رمیز راجہ گزشتہ ہفتے کئی بار ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ تلخ ہوئے جب ان کے کچھ کوتاہ بیں اقدامات جیسے ہوم سیریز کے لیے وعدے کے مطابق پچز کو بہتر نہ بنانا یا جیسا کہ کچھ حق دار کھلاڑیوں جیسے شرجیل خان، شعیب ملک، کامران غلام، عماد وسیم کو ٹیم کی تکلیف دہ حد تک خراب کارکردگی کے باوجود نکال باہر کرنا وغیرہ۔
اس کے علاوہ، راجہ کو ان کے دیرینہ دوست اور سابق ساتھی وسیم اکرم اور عاقب جاوید سمیت کچھ سابق کھلاڑیوں نے ٹیم کی ساخت کے حوالے سے تمام مشوروں سے گریز کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ انگلینڈ کے سابق کھلاڑی جیسے ڈیوڈ گوور اور مارک بچر – جو اب ٹی وی ماہرین کے طور پر انگلینڈ کی ٹیم کے ساتھ دورہ کر رہے ہیں – نے بھی ہوم ٹیم کے بیٹنگ آرڈر میں ہونے والی بار بار تبدیلیوں اور ٹیم کے کوچز کے سست رویئے پر انگلی اٹھائی۔
کئی سرکردہ ٹی وی چینلز نے راجہ کے چیئرمین بننے سے قبل کے دنوں کی فوٹیج بھی نشر کی جب انہوں نے کھلے عام پی سی بی کی سلیکشن پالیسیوں اور ٹیم کے دفاعی انداز پر تنقید کی تھی، جن پالیسیوں کا اب وہ مکمل طور پر دفاع کرتے ہیں۔
اس تمام تنقید پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، رمیز راجہ نے تکبر کا بے مثال مظاہر کرتے ہوئے ، گزشتہ ہفتے میڈیا کے ایک نمائندے سے کہا کہ وہ ایسے تمام ناقدین کو یہ پیغام دے دیں کہ وہ ‘ ون مین شو’ ہیں اور تمام فیصلے اپنی مرضی کے مطابق کرتے رہیں گے۔
انہوں نے بین الاقوامی کرکٹ میں قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے کرکٹ کی دیوانی قوم کے بڑھتے ہوئے مطالبات پر بھی کان نہیں دھرے۔ اس کے برعکس، انہوں نے چیف سلیکٹر محمد وسیم کی، آسٹریلیا میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے غیرمعیاری کارکردگی دکھانے والی ٹیم کو برقرار رکھنے کی حمایت کی ہے اور سب سے کہا ہے کہ وہ ٹیم پر اعتماد رکھیں۔
لاہور میں انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی شکست کے بعد ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق کی مضحکہ خیز پریس کانفرنس نے راجہ کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے، جس کے بعد پی سی بی کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ ثقلین اور بیٹنگ کوچ محمد یوسف دونوں کی جانب سے ٹیم کی شکت کو قوانین فطرت کے کھاتے میں ڈالنے کے بعد سوشل میڈیا پر اس کے بارے میں بہت زیادہ میمز چل رہے ہیں۔ درحقیقت سیکڑوں شائقین نے پی سی بی کو تجویز پیش کی کہ وہ موجودہ کوچز کی ترتبیت کے لیے ایک ’کامن سینس کوچ‘ کی خدمات حاصل کرے۔
تاہم چیئرمین رمیز راجہ نے ابھی تک انگلینڈ سے پوری سیریز کے دوران کھلاڑیوں کو میدان میں متحرک کرنے میں کوچز کی ناکامی کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔ بابر کی غیر تصوراتی کپتانی اور ٹیم کی سست رفتار اسکورنگ پر پی سی بی کے سربراہ متفکر نہیں جو خاص طور پر پچھلے ڈیڑھ ماہ سے اپنی ہی دنیا میں رہ رہے ہیں۔
لیکن اب پی سی بی کے سربراہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے کیونکہ حالیہ ٹورنامنٹس میں ٹیم کی ناقص کارکردگی پر گزشتہ 10 دنوں کے دوران پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ سینیٹ میں بھی گرما گرم بحث ہوئی ہے۔
درحقیقت، رمیز راجہ خوش قسمت ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد اب بھی اسی عہدے پر برقرار ہیں کیونکہ انہیں سابق وزیراعظم عمران خان نے بورڈ چلانے کے لیے منتخب کیا تھا۔ ارباب اختیار کے قریبی ذرائع کے مطابق شہباز شریف حکومت رمیز راجہ سے جان چھڑانے کے بہانے تلاش کر رہی ہے اور ان کی ہٹ دھرمی نے انہیں وہ درکار وجہ فراہم کردی ہے۔
اگرچہ اس ماہ کے آخر میں آسٹریلیا میں ہونے والے T20 ورلڈ کپ میں پاکستان کی کارکردگی پر بہت کچھ انحصار کرتا ہے، جہاں ایک ناقص کارکردگی انہیں ممکنہ طور پر معزول چیئرمینوں کے ہمیشہ وسیع ہوتے کلب میں شامل کرسکتی ہے۔
مصنف بول نیوز، نیشنل کے ایڈیٹر ہیں