ڈاکٹر ہما بقائی

11th Sep, 2022. 09:00 am

پاک امریکا تعلقات ۔۔۔ مشغُولیت اور مزاحمت

تاریخی حوالے سے بات کی جائے تو امریکا اور پاکستان کے مفادات کبھی بھی طویل عرصے تک باہم نہیں مل سکے بلکہ درحقیقت ایک سے زائد بار مختلف ہو چکے ہیں۔ یہ تعلق اِبتدا سے ہی ایڈہاک بنیادوں پر قائم ہے اور اِس میں فطری طور پر لین دین جاری ہے۔ پاکستان ہمیشہ امریکی ضروریات کا شراکت دار رہا ہے۔ جب ضرورت ختم ہو جاتی ہے تو رشتہ بھی مُنجمد ہو جاتا ہے۔ تاہم تعلق داری دو طرفہ مجبوری ہے۔ ایک سے زائد مواقع پر دونوں ریاستوں نے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے کے مفادات کو سبوتاژ کرنے کے لیے مختلف مفادات کی راہ اپنائی ہے۔

اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی انخلاء نے ایک بار پھر تعلقات پر نظرثانی کی ضرورت کو جنم دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کو افغان جنگ پر سوالات کا جواب دیتے ہوئے کانگریس کو پاکستان کے بارے میں یقین دہانی کرانا پڑی، “پاکستان نے گزشتہ 20 برسوں میں جو کردار ادا کیا ہے اور وہ کردار بھی جو ہم اسے آئندہ برسوں میں ادا کرتے دیکھنا چاہیں گے اور اس کے لیے اسے کیا کرنا پڑے گا، یہ ان باتوں میں سے ایک ہے جسے ہم آنے والے دنوں اور ہفتوں میں دیکھ رہے ہیں۔”

2001ء کے بعد سے تعلقات کو افغانستان کی صورتحال نے تشکیل دیا ہے۔ پاک امریکا تعلقات نہ تو سمجھنے میں آسان ہیں اور نہ ہی اِنہیں بیان کرنا آسان ہے اور افغانستان نے اسے مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔’’جدید بین الاقوامی تعلقات کے عجیب و غریب جوڑے کی بے ربط شادی‘‘ اِس رشتے کو ایسا ہی کہا جاتا ہے۔ نقطہ نظر بڑی حد تک منفی ہے۔ پاکستان میں امریکا کو تیزی سے رنگ بدلتے شراکت دار کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور پاکستان نے اِس کے جواب میں ایک سپر پاور کو خوش کرکے اُس سے کچھ حاصل کرنے کی کوشش کی، اُس کی من مانیاں پوری کیں لیکن ساتھ ہی اپنے بنیادی مفادات کا تحفظ بھی کیا ہے۔

ولسن سینٹر میں سفارتی فیلو اور 2018-2015ء تک پاکستان میں سفیر رہنے والے ڈیوڈ ہیل نے بجا طور پر کہا، “پاکستانی رہنماؤں کو اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا۔ ہم اُنہیں اُس طرح برتاؤ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے جیسے ہم چاہتے ہیں کہ وہ برتاؤ کریں۔” یہ مسئلے کی جڑ ہے اور اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان بےاعتمادی بڑھ رہی ہے۔ امریکا پاکستان پر بھروسہ نہیں کرتا اور پاکستان گزشتہ کئی برسوں کے دوران امریکا مخالف ملک بن گیا ہے۔ یہ امریکا دشمنی بڑی حد تک پاکستان کے بارے میں امریکی خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہے، لیکن اس میں مُسلم دنیا کے لیے امریکی خارجہ پالیسی کے رُجحانات پر کئی تحفظات بھی شامل ہیں۔ حال ہی میں پاکستانی سیاسی جماعتیں اپنی حمایت بڑھانے کے لیے امریکا مخالف جذبات کا استعمال کر رہی ہیں۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں امریکا کو استحصالی اور جابر دونوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

امریکا پر پاکستان کے نہ ختم ہونے والے انحصار نے اس کے آپشنز کو اس حد تک ختم کر دیا ہے کہ اس بندھن سے نکلنا ناممکن ہے۔ پاکستان کے پاس خود کو اِس سے آزاد کرانے کی کوئی راہ نہیں۔ اِس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی عسکری، سیاسی اور معاشی اشرافیہ کو اِس سے کوئی تکلیف نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ہی طاقتور اشرافیہ کسی بھی انقلابی تبدیلی کو کامیابی سے دبا چکی ہے۔ بنیاد پرست نظریات کے ساتھ محبت اور نفرت کا رشتہ بھی دو دھاری تلوار ہے جس نے چیلنجز کے باوجود پاکستان کے لیے اچھا کام کیا ہے۔ اِس نے پاکستان کے لیے امریکا کے ساتھ چالبازی کی گُنجائش پیدا کی ہے۔ لاکھوں کا سوال یہ ہے کہ کیا یہ پائیدار ہے؟ کیا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار حکمران طبقہ اُلٹے قدموں پیچھے ہٹ رہا ہے؟ اِس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رُخ بھی بدل سکتا ہے۔ کئی دیگر ممالک پیشرفت میں بُنیادی تبدیلی (پیراڈائم شفٹ) سے گزر چکے ہیں، ایران اور ترکی اِس کی دو اہم مثالیں ہیں۔

Advertisement

تاہم، فی الحال پاکستان خطرات سے نمٹنے کی حکمتِ عملی (ہیجنگ) کی تدبیر کے سبب زیادہ سُکون میں ہے۔ خطرات سے نمٹنے کی حکمتِ عملی (ہیجنگ) کو توازن (بیلنسنگ) یعنی غالب خطرے کے خلاف اتحاد کی تشکیل اور خطرے کے خلاف صف بندی (بینڈ ویگننگ) کے درمیان مُناسب طور پر اختیار کیا جانا چاہیے اور یہ ریاست کا تیسرا تزویراتی انتخاب ہے۔ عالمی طاقت کے مرکز کی تبدیلیاں، جن میں سب سے نُمایاں چین کا عروج، امریکا کا نسبتاً زوال، روس اور چین کا گٹھ جوڑ، روس کی بڑھتی ہوئی عالمی جارحیت، اور یورپی یونین کی مکمل انتشاری اور بے یقینی کی کیفیت نے درمیانی طاقتوں کو ہیجنگ کی حکمتِ عملی مکمل طور پر استعمال کرنے کا اختیار فراہم کیا ہے۔ اِس میں بڑی طاقتوں کے غلبے کو روکتی ایسی پالیسیاں شامل ہیں جو زیادہ سے زیادہ کی واپسی اور ممکنہ خطرے کے لیے ہنگامی منصوبہ بندی کے جوڑ کی حمایت کرتی ہیں۔ کچھ طریقوں میں، یقین دہانی کی تلاش کا رویہ جہاں بہت سی حدود و قیود کے حامل ممالک بیک وقت دو یا دو سے زائد طاقتور ملکوں کے ساتھ جو ایک دوسرے کے مدمُقابل بھی ہیں، تعاون کرتے ہوئے اختیارات اور انتخاب تخلیق کرتے ہیں۔ بیلجیئم کے اسکالر جوناتھن ہولسلاگ نے اسے دی ریٹرن آف ہارڈ ہیجنگ کا نام دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ علاقائی طاقتیں اپنے اختیارات اور خودمختاری کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لیے فریق بننے سے گریز کرتے ہوئے دونوں کیمپوں، امریکا اور چین کے ساتھ کھیل رہی ہیں۔

بھارت اپنی خارجہ پالیسی میں سخت ہیجنگ کے استعمال یا تزویراتی خود مختاری کے خارجہ پالیسی کے اختیار کو برقرار رکھنے کے حوالے سے ایک نصابی کتاب کی مثال ہے۔ اِس کی سب سے واضح مثالیں مغربی حمایت کے لیے ماسکو اور تہران دونوں سے عارضی لاتعلقی، ایران سے دوبارہ مفاد کا حصول (بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے چابہار اقدام کا احیاء) ہیں، حتیٰ کہ بھارت نے ماسکو کے ساتھ قریبی سیاسی، اقتصادی اور دفاعی تعلقات برقرار رکھتے ہوئے یوکرین جنگ پر روس کے خلاف امریکی قیادت میں بننے والے اتحاد میں بھی شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستان کے سابق سفیر ضمیر اکرم کہتے ہیں، ’’دراصل، نئی دہلی اپنے تزویراتی مفادات کے حصول کے لیے واشنگٹن اور ماسکو دونوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اِس طرح بھارت ہارڈ ہیجنگ کے بنیادی اصول کو استعمال کر رہا ہے جس میں مشغولیت اور مزاحمت دونوں شامل ہیں۔

پاکستان کو واشنگٹن سے اپنے تعلقات کی اہمیت کا احساس ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ اب اس کے پاس ایسے پالیسی اختیارات موجود ہیں جو ماضی میں کبھی نہ تھے، جو اِسے امریکا اور بھارت دونوں سے تعلقات پر نظرثانی کی گنجائش فراہم کرتے ہیں۔ اگست 2017ء میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل سے گفتگو میں کہا تھا کہ “پاکستان امریکا سے مادی یا مالی امداد کا نہیں بلکہ اعتماد و احترام پر مبنی برتاؤ کا خواہشمند ہے۔” اس سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے اور اس کے لیے کام کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اِسے اِس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ معاملہ اب بھی جاری ہے تاہم امریکا افغانستان میں اپنی غلطیوں کے ناقابلِ تردید ثبوتوں اور کمانڈنگ جرنیلوں کے اعتراف کے باوجود کہ انہوں نے حکمتِ عملی کے بغیر جنگ لڑنے کی کوشش کی تھی، اپنی ناکامی اور افغانستان سے نکلنے میں جلد بازی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا۔ جیسا کہ کریگ وِٹلاک کی کتاب “The Afghanistan Papers: A Secret History of the War” میں نقل کیا گیا ہے،”انٹرویو کیے جانے والوں میں سے بہت سے افراد نے امریکی حکومت کی عوام کو جان بوجھ کر گمراہ کرنے کی واضح اور مسلسل کوششوں کو بیان کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ وائٹ ہاؤس اور ملٹری ہیڈ کوارٹر کابل میں موجود اہلکاروں نے حسبِ معمول اعداد و شمار کو مسخ کیا تاکہ یہ ظاہر ہو کہ امریکا جنگ جیت رہا ہے، جبکہ واضح طور پر ایسا نہیں تھا۔ (پیشِ لفظ XV صفحہ)

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں جیو اکنامک زور کی جانب بڑھ رہا ہے تو جیو اسٹریٹجک چیلنجز میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اِن میں افغانستان کی صورتحال سب سے زیادہ متعلقہ ہے جس کے بعد مودی سرکار کا جارحانہ رویہ، اُس کی کشمیر پالیسی اور چین کے خلاف امریکا سے تزویراتی ہم آہنگی بھی ہیں۔ یہ عناصر مُنتقلی کو مشکل بناتے ہیں۔

پاکستان اس وقت اپنی بنیاد پر کھڑا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اسے برقرار رکھ سکے گا اور ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا یا ایک بار پھر خطے میں تنازعات کی دلدل میں دھنس جائے گا؟ پاکستان کے لیے پالیسی اختیارات یہ ہیں کہ وہ ’روابط‘ اور ’توازن‘ کے لیے پُرعزم رہے۔ سُپر پاور کی دشمنیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ’مشغُولیت‘ اور’مزاحمت‘ بھی پاکستان کی حکمتِ عملی ہونی چاہئیں۔

Advertisement

Next OPED