غیر مانوس سڑک
پی ٹی آئی کا حالیہ لانگ مارچ پہلا نہیں لیکن یہ کئی وجوہات کی بنا پر منفرد ضرور ہے
مصّنفہ ایک کالم نگار، مشیر، کوچ اور تجزیہ کار ہیں۔
جن بوتل سے اوربلی تھیلے سے باہر آگئی ۔ پرندے پنجرے سے آزادی حاصل کرچکے۔ یہ وہ عوامی جذبات ہیں جو ایک الگ کہانی بیان کررہے ہیں ۔ یوں سمجھ لیں کہ جس قدر ان کا پیچھا کرنے کی کوشش کی جائے گی یہ اتنا ہی آپ کی پہنچ سے دور ہوتے چلے جائیں گے،لیکن اس تلخ حقیقت کی گونج ملک کی سیاسی راہداریوں میں سنائی نہیں دے رہی، اور نہ ہی اقتدار میں موجود حکمرانوں کے سہولت کاروں کے حلقوں میں ایسی کوئی بازگشت جاری ہے۔ان کی جانب سے سامنے آنے والے رد عمل بالکل سطحی سے ہیں ۔صاف واضح ہے کہ تعاقب جاری ہے اور ظلم و ستم اپنے عروج پر ہے۔بعض قوتیں اپوزیشن کو نشانہ بنانے کے لیے وہ تمام طاقت استعمال کر رہی ہیں جو وہ جمع کر سکتی ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ عوام کو انتقامی کارروائی پر اکسا رہی ہیں۔لیکن یہ عام سے عوام ، تیزی کے ساتھ اپنی طاقت کومحسوس کررہےہیں ۔
سیاسی جماعتوں کی جانب سے احتجاج کئی انداز میں کیے جاتے ہیں ۔ وہ دھرنے دیتی ہیں ، ان میں ریلیاں اور مارچ بھی شامل ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اُس دور کی اپوزیشن جماعت کی جانب سے لانگ مارچ کی مثالیں موجودہیں ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے دو اہم لانگ مارچ کی قیادت کی۔ پہلا لانگ مارچ 1992ء میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے 1990ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف تھا۔اس وقت کے صدرغلام اسحاق خان نے ردعمل کے طور پر اسمبلی کو تحلیل کر دیا ، تاہم سپریم کورٹ نے اسے بحال کر دیا۔ 16 جولائی 1993ء کو بے نظیر بھٹو نے دوبارہ اسلام آباد کی جانب مارچ کیا جسے نواز شریف حکومت کی جانب سے ناکام بنانےکےلیے مکمل طور پر سیل کر دیا تھا ۔اُس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ کی جانب سے سابق صدر غلام اسحاق خان اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کے بعد صورتحال مزید بگڑ گئی۔جہاں تک لانگ مارچ کے نتائج کا تعلق ہے، تو یہ گزشتہ برسوں میں ملک میں کیے گئے مختلف لانگ مارچوں میں سب سے زیادہ اثر انگیز ثابت ہوئے تھے تھے۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ملک میں چوتھا لانگ مارچ جاری ہے۔پہلا لانگ مارچ اگست 2014ء میں 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تھا ،جس کے نتیجے میں اسلام آباد میں 126 روز ہ طویل دھرنا دیا گیا تھا ۔ دوسرا لانگ مارچ7 201 ءمیں پاناما لیکس کے خلاف تھا، جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے پاناما لیکس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کا نام سامنے آنے پر برطانیہ میں اثاثوں کا کیس اٹھایا تھا ۔ تیسرا لانگ مارچ 25 مئی 2022ء کو کیا گیا ، جس کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے وحشیانہ سلوک کرتے ہوئے مارچ کے شرکاء کو مارا پیٹا، ان پر شیلنگ کی اور کئی افراد کو گرفتار کر کے مارچ کو ملتوی کرنے پر مجبور کردیا۔
اب پی ٹی آئی نے 28 اکتوبر 2022ء سےاپنے چوتھے لانگ مارچ کا آغاز کیاہے۔یہ مارچ کسی حد تک مختلف ہے۔ اس مارچ کے کچھ عوامل ہیں جو اسے دیگر مارچ سے الگ کرتے ہیں ، اس مارچ کا نتیجہ کچھ بھی نکلے یہ بلاشبہ ایک کامیاب مارچ کی بنیاد ہے ۔اس مارچ کی حکمت عملی بالکل مختلف ہے۔ عام طور پر لانگ مارچ شروع ہوتا ہے جو کچھ دنوں تک جاری رہتا ہے، اور پھر مارچ کرنے والے منتشر ہوجاتے ہیں ۔ پی ٹی آئی کا 2014ء کا لانگ مارچ تین روز تک جاری رہا جس کے بعد 126 دن کا طویل دھرنا دیا گیا۔اکتوبر 2019ء میں مولانا فضل الرحمان کا لانگ مارچ چند روز جاری رہا اور اس کے بعد اسلام آباد میں 11 روز کا دھرنا دیا گیا۔پی ٹی آئی کے حالیہ مارچ کے مخصوص اہداف، اوقات، تاریخیں اور مقامات مقرر ہیں۔اس کا راستہ جی ٹی روڈ کے ساتھ طے کیا گیا ہے ، جسے کبھی مسلم لیگ( ن )کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ مسلم لیگ (ن )کے ہاٹ سپاٹ(مخصوص مقام) پر رکنے اور آس پاس کے قابل رسائی حلقوں سے حامیوں کو وہاں اکٹھا کرنے کا منصوبہ کافی کامیاب نظر آرہا ہے ۔کئی مقامات پر عام عوام کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے حامی، بڑی تعداد میں ہونے والوں کے جوش و خرو کو بڑی حیرت میں دیکھ رہےہیں ۔یہ لوگ اب اسلام آباد کی طرف جانے والے مارچ میں شامل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں ۔اس دوران مارچ میں نئے شامل ہونے والوں ، پارٹی کارکنوں اور ٹکٹ ہولڈرز کو کنٹینر پر پارٹی قیادت سے ملاقات کا موقع ملتا ہے۔یہ یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ یہ شرف کس کو حاصل ہوتا ہے ؟اور اس کے نتیجے میں جہاں جہاں فاقلہ کچھ دیر کےلیے رکتا ہے ، وہاں عوام کی بھیڑ جمع ہوجاتی ہے۔جوں جوں لانگ مارچ میں عوام کی تعداد شامل ہوتی جارہی ہے، یہ موجودہ حکمرانوں اوراس کے جلاوطن رہنماؤں کے اعصاب پر سوار ہونے لگا ہے۔ لندن سے لائیو پریس کانفرنسیں کی جارہی ہیں ، جس کا واضح مقصد لانگ مارچ کو ہر ممکن طریقے سے روکنا ہے۔
دوسری بات ، یہ لانگ مارچ محض بیان بازی کے بجائے اپنے مقصد کی وضاحت کرتا ہے۔دراصل یہ مقصد کی وضاحت ہی ہےکہ عوام کی اتنی بڑی تعداد کو کئی روز سے مشکل اور کٹھن سفر کرنے کی ترغیب دے رہی ہے۔لوگ یہ جاننا ہی نہیں چاہتے کہ انہیں کیا کرنا ہے؟ان کو صرف اتنا معلوم ہےکہ ان کو ایسا کیوں کرنا ہے؟اس مارچ کا مقصد یقینی طور پر ان طاقتوروں سے آزادی حاصل کرنا ہے جنہوں نے جمہوری حکومت کو اپنے اختیار ات کا استعمال کرتے ہوئے روند ڈالا۔ان میں سیاست دان، اسٹیبلشمنٹ، غیر ملکی طاقتیں اور درحقیقت وہ پورا نظام شامل ہے جو صرف امیروں اور طاقت ور کا ساتھ دینے کےلیے تیار نظر آتا ہے۔لہٰذا لانگ مارچ کا مطلوبہ مقصد ان لوگوں کی نشاندہی کرنا ہے جو اس نظام کا شکار ہوئے ہیں۔
تیسری بات یہ ہےکہ لانگ مارچ کے لیے ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کے پاس سخت اور ناگوار حالات سے نمٹنے کے لیے قوت ارادی ہو اور وہ مستقل مزاجی سے قائم رہ سکیں ۔اصل میں اس طرح کی تحریک کےلیے بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کی مشق کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک وقت تھا جب پاکستان تحریک انصاف کو بنیادی طور پر متوسط طبقے کی جماعت سمجھا جاتا تھا ، اب ایسا بالکل نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت کے کنٹینر کے ساتھ ساتھ، لبرٹی لاہور سے جی ٹی روڈ کی طرف بڑھتے ہوئے عوام کے سمندر کے درمیان، آپ کو غریبوں اور محروم عوام کی بڑی تعداد نظر آئے گی جن میں امیر، غریب، نوجوان، بزرگ، مرد ِخواتین اور ہر عمر کے بچے یہاں تک کہ معذور اور جسمانی طور پر کمزور افراد کی بڑی تعداد شامل ہے ۔ یہ لوگ سڑک کے کنارے، درختوں پر، اپنے گھر کی چھتوں اور بالکونیوں میں کھڑے پرُ جوش انداز میں نعرے لگارہے ہیں اور پارٹی کے پرچم لہرارہے ہیں ۔لانگ مارچ میں شامل ہر شخص کی اپنی اپنی داستا ن ہے۔لاہور سے گجرات تک سفر کرنے الے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا گیا، اسی طرح وہیل چیئر پر بیٹھی کچھ حامی خواتین کو لانگ مارچ میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا گیا جس کا جذبہ اپنے عروج پر تھا۔ مختلف حالات میں زندگی گذارنے والے کئی غیر سیاسی لوگ اپنے کھیتوں، دکانوں، کچی آبادیوں اور مختلف قسم کے کاروبار سے وقت نکال کر پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کا ساتھ دیتے نظر آرہے ہیں اور ان سب کا مقصد صرف ایک ہے۔
لانگ مارچ کی بعض ویڈیوز حیرت انگیز ہیں ۔یہ مارچ اس قدر اثر انگیر کس طرح ثابت ہورہا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ کیا وجہ ہےکہ لوگوں کے اندر پایا جانے والا جذبہ ہر گذرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جارہا ہے؟عوام اپنے اندر بھرپو ر توانائی کو محسوس کرتے ہوئے آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل بلا شبہ لوگوں کو سڑکوں پر لاتے ہیں لیکن صرف یہ وجہ انہیں اس قدر طویل عرصے تک مزاحمت پر ڈٹے رہنے کےلیے کافی نہیں ہے۔اصل میں آزادی، انصاف اور مساوات جیسی بنیادی انسانی اقدار کا جو مسئلہ اس مارچ نے اٹھایا ہے، یہ اس مارچ کی کامیابی کی بڑی وجہ بن چکا ہے۔یہ ان لوگوں کے چنگل سے آزادی کی جنگ ہے جو دوسرے ملکوں کے غلام ہیں اور کرپشن کے عادی ہیں۔تحقیق سے پتہ چلتا ہےکہ یہ سارا جادو چیئرمین تحریک انصاف کے ایک جملے کا ہے۔’کیا میں غلام ہوں، کیا ہم بھیڑ بکریاں ہیں؟‘ نےملک کے طویل عرصے سے پسے ہوئے عوام کی سوئی ہوئی حس کو بیدار کردیاہے۔ لوگ اب اپنے وقار اور عزت نفس کی بحالی کے لیے لڑ رہے ہیں۔
ممکن ہےکہ یہ لانگ مارچ غیر ارادی نتائج پر ختم ہو جائے ۔ یک ۲ باشعور اور بیدار قوم کے آزاد اور منصفانہ معاشرے کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہ کرنے کا خطرہ غم و غصے کی صورت میں نکل سکتا ہے جس کے ممکنہ طور پر تباہ کن اور پُرتشدد نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔لیکن آگے جاکر کچھ بھی ہو، اس لانگ مارچ سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ عوام حیرت انگیز طور پر بیدار ہوچکے ہیں ۔ میڈیا ، اسٹیبلشمنٹ، دانشور سمیت تمام ادارے سب بے نقاب ہو چکے ہیں۔اقتدار کے آگے جھکنے کے بجائے عوام اب ارشد شریف مرحوم کی خدمات کو سلام پیش کررہے ہیں ۔یہ وہ حقائق ہیں جو بدل نہیں سکتے۔اب جن کو بوتل میں بند نہیں کیا جا سکے گا۔ یہ آخر کار دیر تک کھڑے رہنے کےلیے تیار ہے ۔