اداریہ

13th Nov, 2022. 09:00 am

نظر کا خطرناک دھوکا

حال ہی میں ختم ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس، کوپ 27 (COP-27) نے کانفرنس آف دی پارٹیز (COPs) کے مسائل کو مزید بے نقاب کر دیا ہے۔ عالمی رہنماؤں کے لیے چیلنج بات چیت اور کاغذی وعدوں سے چہل قدمی پر منتقلی ہی تک محدود رہا۔ اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کی رپورٹ کے مطابق، جو گزشتہ برس گلاسگو میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس کوپ 26  (COP-26)میں پیش کی گئی تھی، 194 میں سے محض 29 ممالک ہی ٹھوس قومی منصوبوں کے ساتھ آئے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک مظاہر کے باعث کوپ 27 میں اِن منصوبوں کی فوری ضرورت کا تاثر موجود تھا، جن کی حقیقت انسانیت کے سر پر کھڑی ہے۔ بلاشبہ اِس کی مثال پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب ہے۔ ایک بین الاقوامی حمایت یافتہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلابوں سے 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا ہے اور ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب چکا ہے، جس کا حجم برطانیہ کے برابر ہے۔ سیلاب سے بے گھر ہونے والے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد برطانیہ کی نصف آبادی کے برابر ہیں، یہ تعداد یوکرین بحران سے بے گھر ہونے والے عوام سے 5 گنا زیادہ ہے۔

تاہم دنیا اور پاکستان کو اِس سے دوچار ہونا ہی تھا کیونکہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ملک کو 152 انتہائی شدید موسمیاتی حالات کا سامنا رہا ہے جن میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والے سیلاب، شدید گرمی کی لہریں اور جنگلات کی آتشزدگی شامل ہیں۔ یہ صورتحال صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں۔ 2021ء میں برفانی طوفان، قحط، مہلک سیلاب اور جنگلاتی آتشزدگی سے لے کر ریکارڈ توڑ بارشوں اور شدید گرمی تک بڑی موسمیاتی آفات نے کئی ممالک بشمول امریکا، یونان، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، بھارت اور چین کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ یہ تمام ممالک موسمیاتی تبدیلی سے پیدا شدہ آفات سے متاثر ہوئے ہیں۔

اقوامِ مُتّحدہ کے معاہدے یونائیٹڈ نیشنز فریم ورک کنوینشن آن کلائیمیٹ چینج (یُو این ایف سی سی سی) کے فریقین کی 27 ویں سالانہ کانفرنس (COP-27) کی میزبانی عرب جمہوریہ مصر کی حکومت نے کی۔ بیان کردہ مقصد گزشتہ کامیابیوں کو جاری رکھنا اور موسمیاتی تبدیلی کے عالمی چیلنج سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے مُستقبل کے عزائم کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اس کانفرنس نے ہزاروں شرکاء اور 100 سے زیادہ سربراہانِ مملکت کو اس بات پر تبادلہء خیال کرنے کے لیے اکٹھا کیا تھا کہ مُضرِ صحت (گرین ہاؤس) گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے طریقے تلاش کرنے کے لیے منصوبوں پر کس حد تک عملدرآمد کی کوششیں کی جائیں گی۔ کوپ 26 کے نتائج کی دستاویز سے سبق لیتے ہوئے جس نے بہت سے لوگوں کو مایوس کیا تھا۔ سربراہی اجلاس کے بعد بڑے پیمانے پر جذبات کی عکاسی اُن بیانات سے ہوئی جن میں کہا گیا تھا، “ہمیں ماحولیاتی اقدامات کو تیز کرنا چاہیے” اور “ہنگامی حالت میں چلے جانا چاہیے”، کانفرنس میں بیان کردہ اہداف میں سے کوئی بھی ہدف حاصل نہیں ہو سکا۔ کانفرنس کے اختتام پر بہت سے ممالک نے افسوس کا اظہار کیا کہ متفقہ فیصلے ہی کافی نہیں تھے، کچھ نے اسے مایوس کن بھی کہا۔ “کم سے کم بدترین” نتائج کی نمائندگی کرنے والا متن، نیوزی لینڈ کے مندوب کی جانب سے کیا گیا تبصرہ تھا۔ صورتحال ہنگامی ہے تاہم ہنگامی اقدامات عَنقا ہیں۔ یہاں تک کہ 27 سال بعد اِس کانفرنس میں بھی اِس بات پر بحث جاری ہے کہ موسمیاتی تبدیلی بدتر کیوں ہو رہی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ 1992ء میں شروع کیا جانے والا اقدام کسی طور سے تمام فریقین تک نہیں پہنچ سکا۔ نوجوان موسمیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ جنہوں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ وہ اِس سال COP-27 میں شرکت نہیں کریں گی، کا کہنا تھا، “جیسا کہ ظاہر ہے ماحولیاتی کانفرنسیں  (COPs)مؤثر ثابت نہیں ہو رہیں۔ اِنہیں بنیادی طور پر مختلف قسم کے تشہیری حربوں کا استعمال کرتے ہوئے قائدین اور صاحبینِ اقتدار کے لیے توجّہ حاصل کرنے کے موقع کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے”۔ 19 سالہ ماہر ماحولیات نے گزشتہ سال موسمیاتی سربراہی اجلاس کو ’’ناکامی‘‘ اور ’’تعلّقاتِ عامہ کی مشق‘‘ قرار دیا تھا۔ گریٹا کی مایوسی اُن کے ٹویٹ سے واضح تھی، ’’#COP26 ختم ہو گئی جس کا مختصر خلاصہ ہے ۔۔۔ بکواس، بکواس ، بکواس‘‘۔

2009ء میں امیر ممالک نے وعدہ کیا تھا کہ 2020ء کے بعد سے وہ کمزور ریاستوں کو موسمیاتی تبدیلی کے مطابق ڈھلنے اور ان کے توانائی نظام کو ماحول دوست بنانے میں مدد دینے کے لیے ہر سال 100 ارب ڈالر جمع کریں گے مگر یہ ایسا عہد تھا جو ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ اقوام متحدہ کے موسمیاتی مذاکرات کاروں نے نقصانات سے نمٹنے اور نقصانات کے ازالے کے لیے ایک باضابطہ نظام تشکیل دینے پر اتفاق کیا تھا۔ “زیاں اور نقصانات” اُس ضرر اور تباہی کا حوالہ ہیں جو اُس وقت ہوتا ہے جب لوگ اور مقامات موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے لیے تیار نہیں ہوتے اور خود کو طویل مدتی تبدیلیوں سے بچانے کی خاطر اپنے طرزِ زندگی کو بدل نہیں پاتے یا بدل نہیں سکتے۔ اِس کے بعد سے عملی طور پر کم ہی کام ہوا ہے، بنیادی طور پر اس سبب سے کہ امیر حکومتیں اپنے تاریخی طور پر زیادہ مضر گیس اخراج کے اثرات سے نمٹنے کے مالی اخراجات برداشت نہیں کرنا چاہتی تھیں، حالآنکہ اب کچھ ممالک نقصانات سے نمٹنے اور ان کے ازالے کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کی مخالفت میں نرمی لا رہے ہیں، کیونکہ دنیا بھر میں کمزور لوگوں کو سخت نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے موسمیاتی کانفرنس کو ترقّی یافتہ اور ترقّی پذیر ممالک کے درمیان اعتماد کی بحالی کے لیے ایک اہم “آزمائش” قرار دیا اور کہا کہ اُنہیں امید ہے کہ یہ نقصانات سے نمٹنے اور نقصان کے ازالے کے حوالے سے بامعنی نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

پاکستانی حکام اور موسمیاتی ماہرین ایک وقف شدہ “نقصانات اور نقصانات کے مالیاتی ازالے کی سہولت” کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے کوپ 27 کو نہ صرف حکومتوں کے لیے ایسا فنڈ قائم کرنے بلکہ اسے شروع کرنے کے لیے رقم کی فراہمی کا وعدہ کرنے کے موقع کے طور پر بھی دیکھا۔ ماہر ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کے سابق وزیر ملک امین اسلم نے کہا کہ “پاکستان کو اس اقدام (نقصانات سے نمٹنے اور نقصانات کے ازالے کے فنڈ) کو محفوظ بنائے بغیر وہاں سے نہیں آنا چاہیے، اِس سے کم کچھ بھی ناکامی ہوگی”۔

Advertisement

وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے پہلے کی کانفرنسوں میں کیے گئے وعدوں کو سامنے لانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ شیری رحمان نے کہا، ’’2009ء میں ایک وعدہ کیا گیا تھا کہ ہر سال 100 ارب ڈالر موسمیاتی سرمائے کے لیے اکٹھے کیے جائیں گے لیکن اسے بڑی حد تک نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح آلودگی پھیلانے والے بڑے ممالک کی جانب سے ایندھن کے استعمال کو کم کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا‘‘۔

COP-27 موسمیاتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ سیلاب کے نتیجے میں پاکستان کو پہنچنے والے نقصانات پر روشنی ڈالی اور موسمیات سے متعلق اہم فیصلوں کو ٹھوس اقدامات اور قابلِ اعتماد منصوبوں میں تبدیل کرنے پر زور دیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ملک میں سیلاب کی بے مثال تباہی “موسمیاتی تبدیلی سے درپیش چیلنج کا واضح مظہر ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے رجحان سے سب سے زیادہ متاثر ترقّی پذیر ملک کے طور پر پاکستان کو موسمیاتی یکجہتی اور موسمیاتی انصاف کی فوری ضرورت ہے۔

وزارتِ موسمیاتی تبدیلی(MOCC)  کے مطابق صرف ایک سال میں گلیشیل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOF) میں 300 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مزید برآں، مسلسل تین برسوں سے دنیا کے گرم ترین شہر پاکستان میں ہیں۔ وزارت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں اب سے صرف تین سال بعد یعنی 2025ء تک پانی کی شدید کمی کا امکان ہے۔ پانی کی کمی کے علاوہ غذائی قلّت بھی 2050ء تک 40 فیصد سے بڑھ کر 60 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ اگرچہ پاکستان دنیا میں 1 فیصد سے بھی کم کاربن کے اخراج کا ذمے دار ہے، پھر بھی یہ ملک پے درپے تباہی کا شکار ہے اور حالیہ بے مثال سیلاب سے بحالی کے لیے درکار فنڈز کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ موسمیاتی ہنگامی صورتحال اور موسمیاتی تباہی صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں، یہ عالمی برادری کے لیے بیدار ہونے کی پُکار ہے کہ وہ اجتماعی طور پر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اکٹھے ہوں۔

عالمی ادارہء صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق 2030ء اور 2050ء کے درمیان موسمیاتی تبدیلی کے باعث غذائی قلّت، ملیریا، اسہال اور گرمی کی شدّت سے ہر سال تقریباً ڈھائی لاکھ اضافی اموات کی توقع ہے۔ بنیادی صحت کے کمزور ڈھانچے والے علاقے جو زیادہ تر ترقّی پذیر ممالک میں ہیں، کسی مدد کے بغیر اِن سے نمٹنے کی تیاری اور ردعمل کے کم ہی قابل ہوں گے۔ موناش یونیورسٹی کی زیر قیادت دنیا کی پہلی بین الاقوامی تحقیق کے مطابق غیر معمولی گرم و سرد درجہ حرارت کے سبب سالانہ 50 لاکھ سے زائد اضافی اموات ہو سکتی ہیں۔ اس تحقیق سے پتا چلا ہے کہ 2000ء سے 2019ء تک تمام خطوں میں گرم درجہ حرارت سے ہونے والی اموات میں اضافہ ہوا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مُستقبل میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث عالمی حدّت (گلوبل وارمنگ) اموات کے اِن اعداد و شمار کو مزید بدتر بنا دے گی۔ اگر یہ عالمی بیداری کے لیے پُکار نہیں تو پھر کیا ہے؟

Advertisement

Next OPED