دُور رس نتائج کے حامل فیصلے لینے کا وقت
مُصنّف سیاسی و سلامتی کی حکمت عملیوں کے ماہر اور اسلام آباد میں قائم ایک آزاد تھنک ٹینک، علاقائی امن انسٹیٹیوٹ کے بانی ہیں۔ ٹوئٹر: @RaoofHasan
ہر صُبح چھانٹنے کے لیے سامان کا ایک ڈھیر موجود ہوتا ہے۔ کوئی جھوٹ سے سچ کو، ناممکن سے ممکن کو اور غیرمطلوب سے مطلوب کو نکالنے کی شدّت سے کوشش کرتا ہے۔ اکثر یہ فضول مشق ثابت ہوتی ہے کیونکہ اِن میں سے زیادہ تر اشیاء ایسے ماحول میں اپنی مادیّت، قدر اور مُطابقت کھو چکی ہوتی ہیں جو ذاتی مفادات کی بالادستی کے سبب اجتماعی فلاح کے کسی بھی امکان کو ختم کر دیتا ہے۔
ہم ہمیشہ اُس دوراہے پر کھڑے رہتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں کو سُدھارنے کے لیے کون سا رستہ اختیار کیا جائے۔ ماضی میں جب بھی ہم نے اس طرح کا سفر شروع کرنے کی جسارت کی، اِس نے ہمیں واپس وہیں پہنچا دیا جہاں سے ہم نے شروعات کی تھی، بس واحد تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ اِس عمل میں ہم اشرافیہ کے شیطانی تسلّط، جس میں ہم جکڑے ہوئے ہیں، سے آزاد ہونے کی اپنی صلاحیت کو مزید کمزور کر چکے ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ گرفت مزید سخت ہوتی چلی جاتی ہے۔ اِس اُلجھن سے نکلنے کا امکان بہت کم دکھائی دیتا ہے اگر ہم بدعنوانی کے سحر میں مبتلا رہیں، اپنے عزائم میں شفافیّت، مُستقبل پر مرکوز بصیرت، غیر متزلزل حکمتِ عملی اور ایسا کرنے کے لیے ایک مؤثر طریقِ کار کی عدم موجودگی کا شکار رہیں۔
یہاں ہر چیز کو اہلیّت کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے، معاملات کو اُلجھانے کی واضح نیّت سے سیاسی بنانے کا خطرناک رجحان پایا جاتا ہے۔ یہ حکمراں اشرافیہ کا اہلیّت اور قانونی حیثیت کی تحقیقات کو مُسترد کرنے کا ایک آزمودہ اور کامیاب طریقہ ہے جس کی وہ مستحق ہے تاکہ تفتیشی نتائج کو متنازع بنا دیا جائے جس کے نتیجے میں ہونے والی طویل قانونی کشمکش کا اختتام عام طور پر اندھی گلی میں ہوتا ہے، اور اِس طرح انصاف کی پکڑ سے بچنے کے لیے مبینہ مجرمان کی مدد ہوتی ہے۔ لہٰذا جرائم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے جس میں نہ احتساب کا کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی سزا دی جاتی ہے۔
یہی وہ چکر ہے جو پاکستان میں برسوں سے چلا آرہا ہے اِس نتیجے کے ساتھ کہ حکمراں اشرافیہ نے فرضی طور پر خود کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے اور غریب عدالتی نظام کی زیادتیوں کا شکار ہیں کیونکہ اُن کی نسلیں انصاف کی فراہمی کا انتظار کرتی رہ جاتی ہیں۔ اگرچہ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کی رائے ہے کہ یہ نظام تو ٹھیک ٹھاک ہے بس صرف اس کے اطلاق میں ہی خامیاں ہیں، دیگر کا ماننا ہے کہ یہ حدود کا ایک معمّہ ہے جس کا فائدہ اٹھا کر مجرموں کے لیے راستہ تلاش کرنا آسان ہے۔ اُن کا مزید ماننا ہے کہ اس میں بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے بنیادی طور پر اُن خامیوں کو دُور کرنے کے مقصد سے جو مجرموں کو فرار کے راستے فراہم کرتی ہیں۔ اگرچہ یہ کئی دہائیوں سے ایک معلوم حقیقت ہے تاہم اِن شدید خرابیوں پر مُشتمل نظام سے نجات پانے کے لیے بہت کم کام کیا گیا ہے۔
لہٰذا مافیاز کا راج چل رہا ہے اور مراعات یافتہ و پسماندہ طبقوں کے درمیان تفریق کا سلسلہ برقرار ہے۔ چونکہ صاحبینِ اقتدار نظام میں موجود اِن خامیوں سے مُستفید ہوتے ہیں، اس لیے ہر اُس کوشش کو ناکام بنانے کے لیے سخت مزاحمت کی جاتی ہے جس سے تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ اِس نظام کو مزید مساوی، مُنصفانہ اور فعال بنا کر اس کے مساوی فوائد طبقات اور تقسیم کے پار ہر کسی کو حاصل ہوں۔ یہ بلا شک و شبہ واضح ہے کہ نہ صرف ماضی میں ایسی کوئی کوشش کی گئی بلکہ تمام ظاہری اشاروں اور ارادوں سے ناممکن نظر آتا ہے کہ مُستقبل میں بھی ایسی کوئی کوشش کی جائے گی۔ یہ تفریق اور امتیاز برقرار رہنے کا امکان ہے جو وقت کے ساتھ اور بھی سنگین اور بدتر ہو سکتا ہے۔
اس لیے کیا ہم ایک ایسے بڑھتے ہوئے مُنقسم معاشرے میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں اچھے اور برے کی انتہاؤں کو تقسیم کرنے والی حدود دھندلی ہوتی رہیں گی، یا اب بھی کوئی ایسا راستہ ہے جو ہمیں درست سمت میں آگے بڑھنے کی ترغیب دے سکتا ہے؟ اس کے پیشِ نظر مؤخرالذکر کے امکانات روشن نظر نہیں آتے کیونکہ روایتی حکمراں اشرافیہ اصلاحات کو گنجائش فراہم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اُن کا یہ بھی ماننا ہے کہ موجودہ قوانین میں ترمیم اور رد و بدل یا یہاں تک کہ نئے قوانین کی تشکیل جو اُن کے جرائم اور بدعنوانیوں کو محفوظ کرتے ہوں، اُن کا موروثی حق ہے۔ وہ اِس بات کے بھی قائل ہیں کہ ملک میں جمہوریت کا نعرہ بلند ہوتا رہے جو اُن کی سیاسی جماعتوں پر لاگو نہیں ہوتا جنہیں وہ ذاتی کاروبار سمجھتے ہیں اور اِنہیں چلانے کا حق ایک نسل سے دوسری تک مُنتقل ہوتا رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی اِس حیثیت کو بطور خاندانی جاگیر سمجھنے پر مجبور کر دیا جائے گا جیسا کہ اُنہیں پسند ہے۔
اِس حقیقت نے کہ زیادہ تر حکمراں خاندانوں کی پرورش فوج نے کی ہے، نے صورتحال کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔ یہ خاندان اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے کفیلوں سے وفاداری برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اُنہیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ نتیجتاً، عوامی فلاح و بہبود ایسا عنصر نہیں جو اُن کی سوچ کو متاثر کرے۔ اُن کا ماننا ہے کہ جب تک وہ اپنے سرپرستوں کو خوش رکھ سکتے ہیں، اُن کی ملازمتیں محفوظ ہیں۔ بہتر ہے کہ عوام اپنی ثانوی حیثیت کو تسلیم کر لیں۔ لیکن درحقیقت وہ اُن کی سوچ یا اُن کے منصوبوں میں کہیں بھی شامل نہیں جو ہمیشہ اپنی خدمت اور ترقّی کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ لہٰذا جب سے ملک میں زیر کفالت خاندانوں کا آغاز ہوا ہے، خواہ وہ شریف خاندان ہو یا بھٹو زرداری، یا مولانا قبیلہ، عوام کی حالت بدستور خراب ہوتی جارہی ہے کیونکہ سوچ وہی چلی آرہی ہے۔
بدقسمتی سے اِسی پہلو نے ملک میں سول عسکری تعلّقات کی بھی تشریح کی ہے جو ایک پریشان کن عنصر بنے ہوئے ہیں۔ آئین میں شامل مُناسب دفعات سے تشکیل پانے کی بجائے یہ تعلّقات ذاتی پسند و ناپسند پر بنائے جاتے ہیں۔ اِس کا ملک کی حالت پہ براہ راست اور منفی اثر پڑا ہے کیوںکہ ہم وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں جہاں سے ملک کی ابتدا ہوئی تھی، محض دوبارہ شروعات کے لیے اور پھر وہی غلطیاں کرتے ہیں جو ہمیں واپس پیچھے لے جاتی ہیں۔
جیسا کہ ہر اُس شخص پر واضح ہوگا جسے موجودہ صورتحال کا ذرّہ برابر بھی اِدراک ہے کہ ہم نے یقینی طور پر تباہی کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ ہم اُس راہ پر ہیں لیکن یا تو ہمیں اس کا ادراک نہیں، یا ہم کرنا ہی نہیں چاہتے، مؤخر الذکر زیادہ مناسب انتخاب ہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم کئی دہائیوں سے اِس رکاوٹ کو نہیں توڑ سکے۔
ملک کے لیے ایک نیا لائحہ عمل ترتیب دینے کے عمل میں متعدد عوامل پر غور کرنے کی ضرورت ہے جن میں سب سے اہم قانون کی بالادستی اور اِس کا یکساں اور مساوی اطلاق ہے، چاہے کوئی کسی بھی حیثیت یا طاقت کا حامل ہو۔ قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔
ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ بدعنوانی ایک زہرِقاتل ہے اور اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے ریاست کمزور ہوتی ہے اور یہ اِس کی تقدیر کا تعین کرنے والا عنصر بن جاتی ہے۔
بدعنوانی خواہشات کا ایک انبار لگا دیتی ہے۔ اس کے بارے میں صرف گفتگو ہی کے لیے وقت کی کوئی حد نہیں۔ اداروں کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے دباؤ سے آزاد کیا جائے۔ انصاف کا بول بالا ہو اور مجرموں کا محاسبہ کیا جائے۔






